ایک دین اور ایک معبود

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 11
سوره نحل/ آیه 51 - 55 سوره نحل/ آیه 56 - 60

ایک دین اور ایک معبود


توحید اور خدا شناسی کی بحث کے بعد زیر نظر آیات میں نظام ِ خلقت کے حوالے سے نفی شرک پرزور دیا گیا ہے تاکہ ان دونوں سے مجموعی طور پر حقیقت زیادہ آشکار ہو جائے۔
پہلے فرمایا گیا ہے : خدا نے حکم دیا ہے کہ دو خدا نہ مانو( وَقَالَ اللهُ لاَتَتَّخِذُوا إِلَھَیْنِ اثْنَیْنِ ) ۔معبود ایک ہی ہے
(إِنَّمَا ھُوَ إِلَہٌ وَاحِدٌ) ۔
نظام خلقت کی وحدت اور اس پر حاکم قوانین کی وحدت ، خود خالق و معبود کی وحدت کی دلیل ہے اب جبکہ ایسا ہی ہے تو ”صرف میرے عذاب سے ڈرواور میرے فرمان کی مخالفت سے خود کھاوٴ نہ کہ کسی غیر سے ڈرتے رہو ( فَإِیَّایَ فَارْھَبُونِی) ۔
لفظ ”ایای“ کا مقدم ہو نا حصر کی دلیل ہے جیسے ”ایاک نعبد“ ۔ مطلب یہ ہے کہ صرف اور صرف میری مخالفت اور میرے عذاب سے ڈرتے رہو۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اس آیت میں صرف دو معبودوں کی نفی کی گئی ہے حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ عرب کے مشرکین نے بہت سے بت اور معبود بنا رکھتے تھے اور ان کے بت خانے مختلف قسم کے بتوں سے بھرے ہوئے تھے ہو سکتا ہے کہ یہ تعبیر ذیل کے نکات میں سے کسی ایک یا سب کی طرف اشارہ ہو ۔
۱۔ آیت کہتی ہے کہ دو معبودوں کی عبادت بھی غلط ہے چہ جائیکہ زیادہ معبودوں کی ۔ دوسرے لفظوں میں کم از کم بات بیان کر دی گئی ہے تاکہ باقی ماندہ کی نفی زیادہ تاکید کے ساتھ ہو کیونکہ ایک سے زیادہ جس عدد کو بھی اختیار کریں دو سے بہتر حال گذرنا پڑے گا۔
۲۔ یہاں تمام طابل معبود ایک شمار کئے گئے ہیں ۔ فرمایا گیا ہے کہ انھیں حق کے مقابلے میں قرار نہ دو اور دومعبود حق و باطل) کی پرستش نہ کرو۔
۳۔ زمانہ جاہلیت کے عربوں نے در حقیقت د ومعبود اپنا رکھے تھے ایک وہ معبود جو خالق ہے او رجہان کو پیدا کرنے والا ہے یعنی اللہ او ر دوسرا وہ معبود جسے وہ اپنے اور اللہ کے درمیان وسیلہ سمجھتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ بت خیر ، بر کت او رنعمت کا وسیلہ ہیں ۔
۴۔ ہو سکتاہے مندرجہ بالا آیت ”ثنویین“ ( دو خدا وٴں کی پو جا کرنے والوں )کے عقیدے کے لئے نفی ہو ۔ثنویین دو خدا وٴں یعنی نیکی کا خدا اور بدی کا خدا کے قائل تھے ۔ دو خدا وٴں کی پوجا کرنے والوں کی منطق اھر چہ ضعیف اور غلط تھی ، لیکن عرب بت پرستوں کے پاس تو ایسی کمزور منطق بھی نہ تھی۔
عظیم مفسرمرحوم طبرسی نے اس آیت کے ذیل میں بعض حکماء سے یہ لطیف جملہ نقل کیا ہے :۔
خد انے تجھے حکم دیا ہے کہ دو خدا وٴں کی عبادت نہ کر لیکن تو نے تو اپنے اتنے سارے معبود بنا رکھے ہیں ۔
ایک بت تیرا سرکش نفس ہے ، دوسرا بت تیری ہوا و ہوس ہے ۔ تیرے مادی مقاصد اسپر مستزاد ہیں یہاں تک کہ تو انسانوں کو سجدہ کرتا ہے تو کس قسم کا توحید پرستار ہے ۔
اس کے بعد تو آیات میں میں توحید عبادت کی دلیل چارحوالوں سے پیش کی گئی ہے ۔ پہلے ارشاد ہوتا ہے : جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اسی کی ملکیت ہے ( وَلَہُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ ) ۔تو کیا عالم ہستی کے مالک کو سجدہ کرنا چاہیئے ، ی ابتوں کو کہ جو کسی بھی قابلیت سے محروم ہیں ۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے کہ نہ صرف آسمان و زمین اس کی ملکیت ہیں بلکہ ہمیشہ سے دین اور تمام قوانین بھی اسی کی طرف سے ہیں (وَلَہُ الدِّینُ وَاصِبًا ) ۔
جب یہ ثابت ہے کہ عالم ہستی اسی کی طرف سے ہے اور وہی تکوینی قوانین ایجاد کرتا ہے تو مسلم ہے کہ تشریعی قوا نین بھی اسی کے ذریعے معین ہو نا چاہئیں لہٰذا طبعاًو فطرتاً اطاعت بھی اسی کے ساتھ مخصوص ہے ۔
”واصب“در اصل” وصوب“ کے مادہ سے ” دوام“ کے معنی میں لیا گیا ہے بعض نے اس کا معنی ”خالص“ کیا ہے ( فطری بات ہے کہ جب تک کوئی چیز اخالص نہ ہو دوام حاصل نہیں کرسکتی) ہو سکتا ہے آیت میں یہ لفظ دونوں پہلووٴں کی طرف اشارہ کررہا ہویعنی ہمیشہ اور ہر زمانے میں دین خالص خدا کی طرف سے ہے جنھوں نے دین کو اطاعت کے مفہوم میں لیا گیا ہے ، انھوں نے ”واصب“ کا معنی ”واجب “ لیا ہے یعنی صرف خدا کے حکم کی اطاعت ہو نی چاہئیے۔
ایک روایت میں بھی ہے کہ ایک شخص نے امام صادق علیہ السلام سے اس جملے کی تفسیر کے بارے میں سوال کیا تو امام نے فرمایا واصب یعنی واجب ۔۱
لیکن واضح ہے کہ یہ معانی ایک دوسرے سے لازم ملزوم ہیں ۔
آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے کیا اس کے باوجود کے تمام قوانین دین اور طاعت ِ خدا سے مخصوص ہیں ا سکے غیر سے ڈرتے ہو(اٴَفَغَیْرَ اللهِ تَتَّقُونَ ) ۔
کیا بت تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے ہیں ؟
کیا بت تمہیں کوئی نعمت بخش سکتے ہیں ؟
نہیں توپھر ان کی مخالفت کا تمہیں خوف کیوں ہے او ران کی عبادت کو تم کیوں ضروری سمجھتے ہوحالانکہ جتنی نعمتیں تمہارے پاس ہیں سب خدا کی طرف سے ہیں ۔ ( وَمَا بِکُمْ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنْ اللهِ ) ۔
یہ در حقیقت معبود یگانہ یعنی اللہ کی عبادت ضروری ہونے کے بارے میں ہیں یہاں تیسری بات کی گئی ہے مراد یہ ہے کہ بتوں کی عبادت اگر شکر ِ نعمت کی وجہ سے ہے تو انھوں نے تمہیں کوئی نعمت نہیں دی کہ جس کا شکر ضروری ہو بلکہ تمہارے وجود پر سرتا پا نعمتِ الہٰی محیط ہے اس کے باوجود تم نے اس کی بندگی کو چھوڑ رکھا ہے اور بتوں کے پیچھے لگے پھرتے ہو۔
علاوہ ازیں جب تمہیں پریشانیوں ، مصیبتوں اور رنج وبلا کا سامنا ہوتا ہے تو انھیں دور کرنے کے لئے بار گاہ الہٰی میں آہ و زاری کرتے ہو اور اسے پکارتے ہو ( ثُمَّ إِذَا مَسَّکُمْ الضُّرُّ فَإِلَیْہِ تَجْاٴَرُونَ ) ۔
لہٰذا بتوں کی پرستش اگر دفع ضرر اور حل مشکلات کے لئے کرتے ہو تو غلط ہے کیونکہ خود تم نے بھی عملی طور پر ثابت کیا ہے کہ زندگی کے سنگین لمحات میں سب چیزوں کو چھوڑ کر خدا کی بار گاہ کی طرف جاتے ہو یہ در اصل مسئلہ توحید عبادت کے بارے میں چوتھی بات ہے ۔
”تجٴرون“ در اصل” جوٴر“ (بر وزن”غبار“) کے مادہ سے ہے یہ چوپایوں اور وحشی جانوروں کی اس آواز کو کہتے ہیں جو تکلیف کے عالم میں ان سے بے اختیار نکلتی ہے بعد از آن یہ لفظ کنایے کے طور پر ہر اس آہ و زاری کے لئے استعمال ہونے لگا جو درد و غم کے موقع پر بے اختیار بلند ہو۔
اس لفظ کا یہاں پر خصوصیت کے انتخاب اس بات کو تقویت پہنچا تا ہے کہ جب مشکلات بہت زیادہ ہو جائیں جان عذاب میں اور درد و غم کے مارے بے اختیار فریاد بلند کرو تو کیا اس وقت اللہ کے علاوہ کسی کو پکار تے ہو ؟ نہیںتو پھر آرام و سکون کے وقت چھوٹی چھوٹی مشکلات کے موقع پر بتوں کے دامن سے کیوں جا لگتے ہو ۔
جی ہاں ! ان مواقع پر خدا تمہاری فریاد سنتا ہے اس کا جواب دیتا ہے اور تمہاری مشکلات کو بر طرف کرتا ہے ” پھر جب اللہ تمہارے ضرر اور رنج و غم کو بر طرف کردیتا ہے تو تم میںسے کچھ لوگ اپنے پر ور دگار کے لئے شریک ماننے لگتے ہیں اور بتوں کی راہ لیتے ہیں ( ثُمَّ إِذَا کَشَفَ الضُّرَّ عَنْکُمْ إِذَا فَرِیقٌ مِنْکُمْ بِرَبِّھِمْ یُشْرِکُونَ ) ۔
قرآن درحقیقت اس باریک نکتے کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہے کہ فطرت توحید تم سب میں موجود ہے عام حالات میں غفلت غرور، جہالت، تعصب اور خرافات کے پ ردے اسے دھانپ دیتے ہیں لیکن جب طوفان حوادث آجائیں اور مصائب کی تند و تیز آندھیاں چل پڑیں تو یہ پر دے ہٹ جاتے ہیںاور نور فطرت آشکار ہو جاتا ہے اور چہرہ فطرت چمکنے لگتا ہے ایسی حالت میں تم خد ا کو اپنے پورے وجود اور اخلاص کے ساتھ پکارتے ہو ۔ اور خدا بھی رنج و بلا تم سے دور کر دیتا ہے ، رنج و بلا کے پر دے اس لئے ہٹ جاتے ہیں کہ غفلت کے پر دے اٹھ چکے ہوتے ہیں (توجہ رہے کہ آیت میں لفظ”کشف الضر“ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب ہے مشکلات کے پر دے ہٹ جانا) ۔
ادھر طوفان مصائب تھمتا ہے زندگی سا حل سکون سے ہم کنارہوتی ہے اور ادھر وہی غفلت ، غرور اور شرک و بت پرستی ظاہر ہونے لگتی ہے۔
منطقی دلائل اور توضیح حقیقت کے بعد، زیر بحث آخری آیت میں تہدید آمیز لہجے میں کہا گیا ہے : تمہیں جو نعمتیں دی گئی ہیں ان کا کفران کرلو اور چند روز اس دنیاوی مال و متاع سے بہرہ مند ہو لو لیکن عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ تمہارے کام کا انجام کیا ہے (لِیَکْفُرُوا بِمَا آتَیْنَاھُمْ فَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ ) ۔
یہ بالکل اس طرح ہے جیسے کوئی انسان کسی منحرف شخص کو مختلف دلائل و براہین کے ساتھ وعظ و نصیحت کرے تو ممکن ہے اس پر کوئی اچر نہ ہو تو آخر میں ایسے تہدید آمیز جملے پر اپنی گفتگو تمام کرے دے کہ : ج وباتیں میں تم سے کہہ چکا ہوں یہ سننے کے باوجود اگر تم اپنی اصلاح نہ کر وتو پر جو کچھ کر سکو کرتے رہو لیکن یاد رکھو تم جلد اس کے انجام سے دوچار ہو گے۔
اس بناء پر ”لیکفروا“ میں لام ”لام ِ امر“ ہے وہ امر جو تہدید کے لئے آ یاہے جیسے ”تمتعوا“ بھی امر ہے تہیدید کے لئے ۔ فرق یہ ہے کہ ”لیکفروا“ غائب کا صیغہ ہے اور ”تمتعوا“ مخاطب کا ۔ گویا پہلے انھیں گائب فرض کر کے قرآن کہتا ہے :
یہ جائیں اور تمام نعمتوں کا کفران کریں ۔
اس تہدید سے وہ کچھ متوجہ ہوئے ہیں گویا وہ مخاطب کے طور پ رسامنے آگئے ہیں ۔ اب قرآن ان سے کہتا ہے ۔
ان دنیاوی نعمتوں سے چند دن فائدہ اٹھا لو لیکن ایک روز دیکھو گے کہ تم کس عظیم اشتباہ اور کتنی بڑٰ غلطی کے مرتکب ہوئے ہو اور آخر کار تم کس انجام تک آپہنچے ہو ۔
درحقیقت یہ آیت سورہ ابراہیم کی آیہ ۳۰ کے مشابہ ہے :
قل تمتعوافان مصیر کم الیٰ النار
کہہ دو چند روز اس دنیا کی لذتیں اٹھالو آخر کا تمہارا انجام ِ کار آتشِ جہنم ہے ۔ 2
حوادث کے چنگل سے نجات مل گئی تو بعد ازاں انھوں نے راہ ِ توحید کو چھوردیا اور شرک کی راہ اپنالی تاکہ نعمتوں کا کفران و انکار کریں ۔

 


۱۔تفسیر برہان جلد ۲ ص۳۷۳۔
2۔ بعض مفسرین نے یہ احتمال بھی ظاہر کیا ہے ”لیکفروا“ اس شرک و کفران کی گایت و نتیجہ ہے جو پہلی آیت میں ذکر ہوا ہے
سوره نحل/ آیه 51 - 55 سوره نحل/ آیه 56 - 60
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma