۲۔بیٹیوں کو زندہ در گور کیوں کیا جاتا تھا ؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 11
۱۔ وہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کیوں کہتے تھے ؟۳۔عورت کے مقام کے احیاء میں اسلام کا کر دار


۲۔بیٹیوں کو زندہ در گور کیوں کیا جاتا تھا ؟ واقعاً یہ بات بری وحشت انگیز ہے کہ انسان اپنے انسانی جذبات و احساسات کو مسل کر اتنا آگے بڑھ جائے کہ دوسرے انسان کو قتل کر دے  قتل بھی ایسا بد ترین کہ پھر جس پر وہ فخر کرتا پھرے  پھر قتل بھی اسے کرے کہ جو اس کا اپنا جگر گوشہ ہو  کمزور اور ننھی سے جان ہو  اور پھر قتل بھی اس طرح سے کہ اس زندہ بولتی جاگتی جان کو اپنے ہاتھوں مٹی میں دفن کردے ۔
یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ انسان ایسا وحشت ناک جرم کرنے لگے چاہے وہ نیم وحشی ہی کیوں نہ ہو ۔
اس کام کی یقینا کچھ معاشرتی ، نفسیاتی اور اقتصادی بنیادیں تھیں ۔
موٴرخین کہتے ہیں کہ اس فعل کی ابتداء زمانہٴ جاہلیت میں یوں ہوئی کہ :۔
ایک مرتبہ دو گروہوں میں جنگ شروع ہو گئی۔ فاتح گروہ نے مغلوب گروہ کی بیٹیوں اور عورتوں کو قید کرلیا ۔ ایک مدت بعد جب ان کے مابین صلح ہو گئی تو انھوں شکست کھانے والے گروہ کے قیدی واپس کرنا چاہے لیکن بعض قیدی لڑکیوں نے فتح مند گروہ کے مردوں سے شادی کرلی تھی انھوں نے یہی پسند کیا کہ دشمنوں کے ہاں ہی وہ جائیں اور پلٹ کر اپنے قبیلے میں نہ جائیں ان لڑکیوں کے والدوں پر یہ بات بہت گراں گذری ۔ انھیں اس پر بہت شرمساری اٹھانا پڑ ی یہاں تک کہ ان میں سے بعض نے قسم کھائی کہ اگر آئندہ ان کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی تو وہ خود اسے اپنے ہاتھوں سے ختم کر دیں گے تاکہ وہ دشمنوں کے ہاتھ نہ لگے۔
آپ دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح وحشت ناک ترین جرائم اور مظالم ناموس شرافت کی حفاظت اور خاندان کی عزت کے نام پر انجام دئیے گئے ۔
بات یہاں جاپہنچی کہ اس قبیح اور شرمناک بد عت کو بعض لوگسراہنے لگے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا زمانہ جاہلیت کی ایک رسم بن گئی جس کی قرآن نے شدت کے ساتھ مذمت کی ہے ۔ قرآن کہتا ہے :
و اذا المو ء و دة سئلت باٴی ذنب قتلت
وہ لڑکی جسے زندہ د رگور کر دیا گیا تھا جب اس سے پو چھا جائے گا کہ بتا تجھے کس جرم میں قتل کیا گیا ۔ (تکویر ۸۔۹)
لڑکے چونکہ تولید کنندہ ہو تے ہیں اور لڑکیاں مصرف کنندہ لہٰذا یہ احتمال بھی ہے کہ اس امر نے بھی اس ظلم میں مدد کی ہو لڑکے کو وہ لوگ بڑا سر مایہ سمجھتے تھے ۔
لوٹ مار اور اونٹوں کی حفاظت وغیرہ میں اس سے کام لیتے تھے ۔ جب کہ بیٹیاں ایسے کسی کام نہ آتی تھیں ۔
دوسری طرف ان میں قبائلی جنگ کا ایک دائمی سلسلہ تھا ۔ جھگڑے فسا د ہوتے رہتے تھے ان میں سے بہت سے جنگجو مرد اور لڑکے کام آجاتے تھے لہٰذا لڑکوں اور لڑکیوں کی تعدا د میں توازن اور تناسب باقی نہیں رہتا تھا۔
لڑکوں کا وجود اس قدر نادر اور عزیز ہو چکا تھا کہ ایک لڑکا بھی پید اہوتا تو خاندان کے لئے بڑے فخر کی بات ہوتی جبکہ لڑکی پیدا ہوجاتی تو پورا خاندان رنجیدہ ہو جاتا۔
بات یہاں تک جاپہونچی کہ بعض مفسرین نے بقول جب کسی عورت کے ہاں بچے کی پیدا ئش کا وقت قریب ہو تا تو اس کا شوہر کہیں غائب ہو جاتا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لڑکی پیدا ہو جائے اور وہ گھر پر موجود ہو اس کے بعد اگر اسے خبر ملتی کہ لڑکا پیدا ہوا ہے تو ناقابل توصیف خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اور شور مچاتے ہوئے گھر میں لٹ آتا لیکن اگر اسے پتہ چلتا کہ بیٹی ہوئی ہے تو اس کے تن بدن میں آگ لگ جاتی1
بیٹیوں کو زندہ در گور کرنے کی داستان بڑی ہی درناک ہے ان واقعات پر نظر پڑے تو حالت غیر ہو جاتی ہے ۔
ایسے ہی ایک واقعے کے بارے میں لکھا ہے :ایک شخص پیغمبر اکرم (ص)کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے اسلام قبول کرلیا ، سچا اسلام ،ایک روز وہ آنحضرت کی خدمت میں آیا اور سوال کیا: اگر میں نے کوئی بہت بڑا گناہ کیا ہو تو کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟
آپ نے فرمایا : خدا تواب و رحیم ہے ۔
اس نے عرض کیا : یارسول اللہ ! میرا گناہ بہت بڑا ہے ۔
آپ نے فرمایا :وائے ہو تجھ پر ، تیرا گناہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو خدا کی پخشش سے تو بڑا نہیں؟
وہ کہنے لگا : اب جب آپ یہکہتے ہیں تو میں عرض کروں ۔ زمانہ جاہلیت میں میں ایک دوردراز کے سفر پر گیا ہوا تھا ان دنوں میری بیوی حاملہ تھی میں چال سال کے بعد گھر واپس لوٹا ۔ میری بیوی نے میرا استقبال کیا میں گھر میں آیا تو مجھے ایک بچی نظر پڑی ۔ میں نے پوچھا یہ کس کی لڑکی ہے ؟ اس نے کہا :اس نے کہا ایک ہمسایہ کی لرکی ہے ۔ میں سوچا گھنٹہ بھر تک چلی جائے گی لیکن مجھے بڑا تعجب ہوا کہ وہ نہ گئی ۔ مجھے علم نہ تھا کہ میری لڑکی ہے اور اس کی ماںحقیقت کو چھپا رہی ہے کہ کہیں یہ میرے ہاتھوں قتل نہ ہو جائے ۔
اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: آخر کار میں نے بیوی سے کہا: سچ بتاوٴ یہ کس کی لڑکی ہے ؟
بیوی نے جواب دیا : جب تم سفر پر چلے گئے تھے تو میں امید سے تھی بعد میں یہ بیٹی پیدا ہوئی ۔ یہ تمہاری ہی بیٹی ہے ۔
اس شخص نے مزید کہا : میں وہ رات بڑی پریشانی کے عالم میں گزاری کبھی آنکھ لگ جاتی اور کبھی میں بیدار ہو جاتا۔ صبح قریب تھی ، میں بستر سے اٹھا ، لڑکی کے بستر کے پاس گیا وہ اپنی ماں کے پاس سو رہی تھی ۔ میں نے اسے بستر سے نکا لا ، اسے جگایا ، اس سے کہا : میرے ساتھ نخلستان کی طرف چلو۔
اس نے بات جاری رکھی: وہ میرے پیچھے پیچھے چل رہی تھی یہاں تک کہ ہم نخلستان میں پہنچ گئے میں نے گڑھا کھودنا شروع کیا وہ میری مدد کر رہی تھی میرے ساتھ مل کر مٹی باہر پھینک رہی تھی گڑھا مکمل ہو گیا میں نے اسے بغل کے نیچے سے پکڑ کر اس گڑھے کے درمیان دے مارا ۔
اتنا سننا تھا کہ رسول اللہ کی آنکھیں بھر آئیں
اس نے مزیدبتا یا : میں نے اپنا بایاں ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا وہ باہر نہ نکل سکے دائیں ہاتھ سے میں اس پر مٹی ڈالنے لگا اس نے بہت ہاتھ پاوٴں مارے ، بڑی مظلومہ فرمایاد کی : وہ کہتی تھی ابو جان ! آپ مجھ سے یہ سلوک کیوں کر رہے ہیں ؟
اس نے بتا یا : میں اس پر مٹی ڈال رہا تھا کہ کچھ مٹی میری داڑھی پر آپڑی بیٹی نے ہاتھا بڑھا یا اور میرے چہرے سے مٹی صاف کی لیکن میں اسی قساوت اور سنگدلی سے اس کے منھ پر مٹی ڈالتا رہا یہاں تک کہ میرے نالہ و فریاد کی آخری آواز تہہ خاک دم توڑ گئی۔
رسول اللہ (ص)نے داستان بڑے غم کے عالم میں سنی وہ بہت دکھی اور پریشان تھے اپنی آنکھوں سے آنسو ں صاف کرتے جارہے تھے
آپ نے فرمایا : اگر رحمت خدا کو اس کے غضب پر سبقت نہ ہوتی تو ضروری تھا کہ جتنا جلدی ہوتا وہ تجھ سے انتقام لیتا۔ 2
قیس بن عاصم بنی تمیم کے سرداروں میں سے تھا ۔ظہور رسالت مآب کے بعد وہ اسلام لے آیا تھا اس کے حالات میں لکھا ہے کہ ایک روز وہ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا وہ چاہتا تھا کہ جو سنگین بوجھ وہ اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے پھر تا ہے اسے کچھ ہلکا کرے ۔اس نے رسول اکرم کی خدمت میں عرض کیا :گزشتہ زمانے میں بعض باپ ایسے بھی تھے جنہوں نے جہالت کے باعث اپنی بے گناہ بیٹیوں کو زندہ در گور کر دیا تھا میری بھی بارہ بیٹیاں ہوئیں میں نے سب کے ساتھ یہ گھناوٴنا سلوک کیا لیکن جب میرے ہاں تیر ہویں بیٹی ہوئی تو میری بیوی نے اسے مخفی طورپر جنم دیا اس نے یہ ظاہر کیا کیا کہ نو مود مردہ پیدا ہوئی ہے ۔ لیکن اسے چھپ چھپا کر اپنے قبیلوں والوں کے ہاں بھیج دیا اس وقت تو میں مطمئن ہو گیا لیکن بعد میں مجھے اس ماجرا کا علم ہو گیا میں نے اسے حاصل کیا اور اپنے ساتھ ایک جگہ لے گیا ۔
اس نے بہت آ ہ و زاری کی ، میری منتیں کیں گر یہ و بکا کی مگرمیں نے پر وا ہ نہ کی اور اسے زندہ در گور کردیا۔
رسول اللہ (ص)نے یہ واقعہ سنا تو بہت ناراحت ہو ئے۔ آپ نے آنکھوں سے آنسوجاری تھے کہ آپ نے فرمایا:
من لایرحم لایرحم
جو کسی پر رحم نہیں کھا تا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا۔
اس کے بعد آپ نے قیس کی طرف رخ کیا اور یوں گویا ہوئے :
تمہیں سخت دن در پیش ہے ۔
قیس نے عرض کیا:
میں کیا عرض کروں اس گناہ کابوجھ میرے کندھے سے ہلکا ہو جائے ؟
پیغمبر اکرم نے فرمایا:
تونے جتنی بیٹیوں کو قتل کیا ہے اتنے ہی غلام آزادکر (شاید تیرے گناہ کا بوجھ ہلکا ہو جائے ۔)3۔
نیز مشہو ر شاعر فرزدق کے دادا صعصعہ بن ناحیہ کے حالات میں لکھا ہے کہ وہ حریت فکر رکھنے والا ایک شریف انسان تھا ۔زمانہ جاہلیت میں وہ لوگوں کی بہت سے بری عادات کے خلاف جد و جہد کرتا تھا یہاں تک کہ اس نے ۳۶۰ لڑکیاں ان کے والدوں سے خرید کر انھیں موت سے نجات بخشی۔ ایک مر تبہ اس نے دیکھا کہ ایک باپ اپنی نو مولود بیٹی کو قتل کرنے کا مصمم ارادہ کر چکا ہے ۔ اس بچی کی نجات کے لئے اس نے اپنے سواری کا گھوڑا تک اور دو اونٹ اس کے باپ کو دئے اور اس بچی کو نجات دلائی ۔
پیغمبر اکرم نے فرمایا :
تونے بہت ہی بڑا کام انجام دیا ہے اور تیری جزا اللہ کے ہاں محفوظ ہے ۔
فرزدق نے اپنے دادا کے اس کام پر فخر کرتے ہوئے کہا:
ومناالذی منع الوائدات فاحیا الوئید فلم توائد
اور وہ شخص ہمارے خاندان میں سے تھا جس نے بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے کے خلاف قیام کیا۔ اس نے لڑکیوں کو لیا اور انھیں زندگی عطا کی اور انھیں تہہ خاک دفن نہ ہونے دیا۔4
ابھی ہم اس مسئلہ پر گفتگو تفصیلی کریں گے اور دیکھیں گے اسلام نے کس طرح ان تمام قباحتوں ، مظالم اور جرائم کو ختم کردیا اور عورت کو ایک ایسا مقام بخشا کہ تاریخ میں جس کی نظیر نہیں ملتی ۔

 


1.۔تفسیر فخرالدین رازی جلد ۲۰ ص۵۵۔
2۔القرآن یواکب الدھر جلد ۲ ص ۲۱۴۔
3۔جاہلیت و اسلام صفحہ۶۳۲۔
4۔قاموس الرجال جلد۵ ص۱۲۵۔
۱۔ وہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کیوں کہتے تھے ؟۳۔عورت کے مقام کے احیاء میں اسلام کا کر دار
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma