اپنے مکتب واضح طورپربیان کرو

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 11
سوره حجر / آیه 92 - 99 ۱۔ اعلانیہ دعوت ِ اسلام کا آغاز

اپنے مکتب واضح طورپربیان کرو

 


یہ سورہ ٴ کی آخری آیات میں ہیں کہ ان سے سے پہلے”مقسمین “ کا انجام بیان کیا گیا ہے ۔جزا کے بارے میں گزشتہ آیات میں گفتگو ہوئی تھی ۔فرمایا گیا ہے : تیرے پر ور دگار کی قسم ! ہم یقینی طور پر ان سب سے سوال کریں گے (فَوَرَبِّکَ لَنَسْاٴَلَنّھُمْ اٴَجْمَعِینَ) ۔
ان تمام کاموں کے بارے میں جو ہم انجام دیتے تھے ۔( عَمَّا کَانُوا یَعْمَلُون) ۔
واضح ہے کہ خدا کا سوال اس لئے نہیں کہ وہ پو شیدہ بات ظاہر ہو جائے کیونکہ وہ اندرونی اور بیرونی اسرار سے آگاہ ہے اور زمین و آسمان کاکوئی ذرہ اس کے علم کے بے پایاں سے مخفی نہیں ہے۔ لہٰذا سوال خدا مخاطب کو سمجھانے کے لئے ہے تاکہ و ہ اپنے اعمال کی قباحت کو سمجھ لے یا یہ ایک قسم کی نفسیاتی سزا ہے کیونکہ غلط کاموں کے بارے میں باز پرس اور وہ بھی سر زنش اور ملامت کے ساتھ اور و ہ بھی ایسے جہان میں انسان حقائق سے زیادہ قریب اور آگاہ ہے بہت تکلیف دہ ہے ۔لہٰذایہ سوالات درحقیقت ان کی سزا کا ایک حصہ ہےں ۔
ضمنی طور پر ”عماکانوا یعملون“کی عمومیت نشاندہی کرتی ہے کہ انسان کے تمام اعمال کے بارے میں بلا استثناء سوال ہوگا اور خود تمام انسانوں کے لئے ایک درس ہے کہ وہ لحظہ بھر بھی اپنے اعمال اعمال سے غافل نہ رہیں ۔۔
یہ جو بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ سوال توحید اور انبیاء پر ایمان لانے یا مشرکین کے معبودوں سے مربوط ہے ایک ایسی بات ہے جو بغیر دلیل کے ہے،آیت کا مفہوم پورے طورپر عمومیت کا حامل ہے ۔
باقی رہا یہ سوال کہ اس آیت میں خدا تعالیٰ سوال کرنے کے بارے میں تاکید کررہا ہے جبکہ سورہٴ رحمن کی آیہ ۳۹ میں ہے :
فیومئذلایسئل عن ذنبہ انس و جان
اس روز انسان اور جنوں میں سے کسی سے بھی کوئی سوال نہیں کیا جائے گا ۔
اس کا جواب ہم پہلے دے چکے ہیں جس کاخلاصہ یہ ہے کہ قیامت میں کئی مراحل ہیں بعض مراحل میں لوگوں میں سے سوال ہوگا اور بعض میں نہیں ہوگا جہاں مسائل خود بخود واضح ہو ں گے یا یہ کہ زبانی سوال نہیں ہوگا کیونکہ سورہٴ یٰٓس کی آیت ۶۵ کے مطابق لبوں پر مہر لگی ہوگی اور سوال صرف جسم کے اعضاء سے کیا جائے گا یہاں تک کہ بدن کی کھال سے بھی پوچھا جائے گا ۔ ۱
اس کے بعد رسول اللہ کو ایک قطعی فرمان دیا گیا ہے ، ارشاد ہوتا ہے : مشرکین کے شور وغل کے مقابلے میں نہ صرف یہ کہ ضعف و خوف اور سستی کو نہ آنے دو اور خاموش ہوکر نہ بیٹھ جاوٴبلکہ ” جس کام کے لئے مامورکئے گئے ہواسے واضح طور پر بیان کرو“۔
اور حقائق دین صراحت سے کہہ دو “( فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ) ۔
اور مشرکین سے رخ موڑ لو اور ان سے بے اعتنائی کرو( وَاٴَعْرِضْ عَنْ الْمُشْرِکِینَ) ۔
فاصدع“” صدع“ کے مادہ سے ہے اس کا لغوی معنی ہے شگاف کرنا یا مضبوط چیزوں میں شگاف کرنااور چونکہ کسی چیز میں شگاف کرنے سے اسکا اندرونی حصہ آشکار ہو جاتا ہے اس لئے یہ لفظ اظہار ،افشاء، آشکار اور واضح کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ شدید درد سر کو بھی ”صداع“ کہتے ہیں کیونکہ ایسا لگتا ہے جیسے وہ پھٹ رہا ہواور شگافتہ ہو رہا ہو ۔
بہرحال مشرکین سے اعراض کرنا یہاں یاتو بے اعتنائی کے معنی میں آیاہے یا پھر ان سے جنگ ترک کرنے کے معنی میں آیا ہے کیونکہ اس زمانے میں ابھی مسلمان اس مرحلے تک نہیں پہنچے تھے کہ دشمن کی سختی کے جواب میں مسلح مقابلہ کرسکیں ۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ قلب پیغمبر کی تقویت کے لئے انھیں اطمینان دلاتا ہے کہ تمسخر اڑانے والوں کے مقابلے میں وہ اپنے نبی کی حمایت کرے گا ، ارشاد ہوتا ہے : ہم تمسخر اڑانے والوں کے شر کو تجھ سے دور کیا ( إِنَّا کَفَیْنَاکَ الْمُسْتَھْزِئِینَ) ۔
یہ جملہ فعل ماضی کے ساتھ آیا ہے حالانکہ اس کا تعلق آئندہ سے ہے ظاہرا ً اس حمایت کے حتمی ہونے کی طرف اشارہ ہے یعنی ہم ان کے شر کو یقینی طور پر تجھ سے دور کریں گے اور یہ بات حتمی اور طے شدہ ہے ۔
بعض مفسرین نے ایک حدیث نقل کی ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ چھ طرح کے گروہ تھے جس میں ہر ایک رسول اللہ ایک خاص قسم کا تمسخرکیا کرتا تھا اور جب آنحضرت دعوت کے لئے کھڑے ہوتے تووہ کوشش کرتے کہ اپنی باتوں سے لوگوں کو آپ کے پاس سے دور کریں لیکن خدا تعالیٰ نے ان میں سے ہر ایک کو کسی نہ کسی مصیبت میں مبتلا کردیا اس طرح انھیں اپنی اپنی پڑ گئی اور رسول اللہ کو بھی بھول گئے ( بعض تفاسیر میں ان کی ابتلاء کی تفصیل آئی ہے ) ۔
اس کے بعد ”مستھزئین“ کی توصیف ، قرآن یوں کرتا ہے : وہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے خدا کے ساتھ معبود بنارکھے ہیں لیکن بہت جلد وہ اپنے اس کام کے منحوس نتیجہ سے آگاہ ہو جائیں گے ( الَّذِینَ یَجْعَلُونَ مَعَ اللهِ إِلَھًا آخَرَ فَسَوْفَ یَعْلَمُون) ۔
ہوسکتا ہے یہ تعبیر اس طرف اشارہ ہو کہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے افکار و اعمال خود مضحکہ خیز ہیں کیونکہ یہ اس قدر ناداں ہیں جہانِ ہستی کے خالق خدا کے مقابلے میں انھوں نے پتھر اور لکڑی کے معبود تراش رکھے ہیں اس کے باوجود وہ تیرے ساتھ تمسخر کرنا چاہتے ہیں ۔
دوبارہ روح پیغمبر کی دلجوئی اور تقویت کے لئے فرمایا گیاہے :ہم جانتے ہیں کہ ان کی باتیں تیرے سینے کو تنگ کردیتی ہیں اور تیری پریشانی کا باعث بنتی ہیں ( وَلَقَدْ نَعْلَمُ اٴَنَّکَ یَضِیقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُولُون) ۔تیری لطیف روح اور حساس دل یہ سب بد گوئی اور کفر و شرک آمیز باتیں بر داشت نہیں کرسکتا اور اسی بناء پر تو پریشان ہو جاتا ہے ۔لیکن تو پریشان نہ ہواو ر ان کی گھٹیا اور ناہنجار باتوں کے اثرات کم کرنے کے لئے ” اپنے پر ور دگار کی تسبیح بیان کر اور اس کی ذاتِ پاک کے سامنے سجدہ ریز ہو جا( فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَکُنْ مِنْ السَّاجِدِینَ) ۔کیونکہ اللہ کی تسبیح ان کی گفتگو کے برے اثرات کو مشتاقان خدا کے دلوں سے دور کردیتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تجھے توانائی بخشتی ہے اور نور و صفا عطا کرتی ہے ، دل کو جلا دیتی ہے ، خدا سے تیرے رشتے کو محکم کردیتی ہے ،تیرے ارادے کو قوی کردیتی ہے ، زیادہ قوت بر داشت عطا کرتی ہے ،جہاد پر زیادہ آماد ہ کرتی ہے اور زیادہ راسخ قدم بنا دیتی ہے ، روایات میں ابن عباس سے مروی ہے :رسول اللہ غمگین ہو جاتے تو نماز کے لئے گھڑے ہو جاتے اور نماز کے ذریعے ان آثار حزن و ملال کو دل سے دور کرتے۔
اس سلسلے میں آخری حکم یہ دیا گیا ہے کہ اپنے پر وردگار کی عبادت سے زندگی بھر دستبردار نہ ہونا” ہمیشہ ان کی بندگی کرتا رہ یہاں تک کہ یقین (موت) آجائے (وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتَّی یَاٴْتِیَکَ الْیَقِینُ) ۔
مفسرین میں مشہور ہے کہ ”یقین “ مراد یہاں موت ہے اور موت کو اس لئے یقین کہا گیا ہے کہ یہ ایک امر مسلم ہے ۔
انسان ہر چیز میں شک کرسکتا ہے لیکن موت میں شک نہیں کرسکتا، یا اس لئے اسے یقین کہا گیا ہے کہ موت کے وقت پر دے ہٹ جاتے ہیں اور حقائق انسان کی آنکھوں کے سامنے آشکار ہو جاتے ہیں اور اس کے بارے میں یقین کی حالت پید ہو جاتی ہے ۔
سورہ مدثرکی آیت ۴۶۔۴۷۔میں دوزخیوں کا یہ قول بیان کیا گیا ہے :
وکنا نکذب بیوم الدین حتی اتاناالیقین
ہم ہمیشہ روز جزا کو جھٹلاتے تھے یہاں تک کہ یقین (موت) نے ہمیں آلیا ۔
یہاں سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ جو صوفیاء نے زیر بحث آیت کو ترک عبادت کے لئے دستاویز بنا لیا ہے اور کہا ہے کہ آیت کہتی ہے کہ عبادت کرو یہاں تک کہ تمہیں یقین آجائے لہٰذا حصولِ یقین کے بعد عبادت کی ضرورت نہیں ، یہ ایک بے بنیاد گفتگو ہے ۔ کیونکہ :۔
اولاً: بعض قرآنی آیات گواہی دیتی ہیں ، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیاہے کہ یقین موت کے معنی میں ہے کہ جومومنین کو بھی آئے گی اور دوزخیوں کو بھی ۔
ثانیاً:اس گفتگو کے مخاطب پیغمبر اکرم ہیں اور یقین پیغمبر کا مقام سب پر روشن ہے تو کیاکوئی دعوی ٰ کرسکتا ہے کہ آپ ایمان کے لحاظ سے اس مقامِ یقین کے حامل نہ تھے ۔
ثالثاً:تواریخ متواتر گواہی دیتی ہیں کہ رسول اللہ نے اپنی عمر کی آخری گھڑیوں تک عبادت ترک نہیں کی اور حضرت علی (علیہ السلام) محراب عبادت میں شہید ہوئے اور اسی طرح باقی آئمہ ۔

سوره حجر / آیه 92 - 99 ۱۔ اعلانیہ دعوت ِ اسلام کا آغاز
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma