فرشتوں کے نزول کا تقاضا

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 11
سوره حجر / آیه 6 - 8 سوره حجر / آیه 9

فرشتوں کے نزول کا تقاضا ۔
ان آیات میں پہلے تو قرآن اور پیغمبر کے خلاف دشمنی کفار کے اعتراض کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : انھوں کہا:اے وہ شخص جس پر قرآن نازل ہوا ہے ہم یقینی قسم کھاتے ہیں کہ تو دیوانہ ہے ( وَقَالُوا یَااٴَیُّھَا الَّذِی نُزِّلَ عَلَیْہِ الذِّکْرُ إِنَّکَ لَمَجْنُونٌ ) ۔
پیغمبر اکرم کے بارے میں ان کے یہ الفاظ انتہائی گستاخی اور جسارت کو مجسم کرتے ہیں ۔
ایک طرف تو ” یا ایھا الذی“ ( اے وہ شخص ) کہا گیا ہے دوسری طرف ”نزل علیہ الذکر“کے الفاظ ہیں کہ جو انھوںنے قرآن کے استہزاء اور انکار کے طور پرکہیں ہیں اور تیسری مرتبہ پیغمبر اکرم کو مجنون قرار دینے کے لفظ”ان“ اور ”لام قسم“ کے ذریعے ان کی تاکید ہے ۔
جی ہاں !جس وقت ہٹ دھرم اور بے مایہ افراد ایک عظیم اور بے مثل عقل کا سامنا کرتے ہیں تو وہ اس کے ساتھ” مجنون“ک اپیوند لگانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ انکے لئے تو ان کی اپنی ناتواں عقل ہی میزان ہوتی ہے او رجو کچھ ان کی میزان میں نہ سما سکے وہ ان کی نگاہ میں بے عقلی اور دیوانگی ہے ۔
ایسے افراد اپنے ماحول کے مسائل کے بارے میں خاص قسم کے تعصب کا مظاہرہ کرتے ہیں چاہے وہ گمراہی میں ہی کیوں نہ ہوں ای لئے وہ ہ رتازہ دعوت کو غیر عاقلا نہ دعوت قرار دے کر مقابلے کی کوشش کرتے ہیں اور نئی پیش آمد چیزوں سے وحشت زدہ ہوتے ہیں اور غلط روشوں کی سختی سے پابندی کرتے ہیں ۔
علاوہ ازیں وہ دنیا پرست جو تمام چیزوں کو مادی معیاروں پر پرکھتے ہیں اگر ان کا کسی ایسے انسان سے سامنا ہو کہ جو اپنے تمام مادی مفادات حتی کہ اپنی جان بھی ایک روحانی مقصد کے لئے قربان کردے تو انھیں یقین نہیں آتا کہ وہ عاقل ہے کیونکہ ان کے نزدیک عقل کا کام زیادہ مال و دولت ، خوبصورت بیوی ، ،پر تعیش زندگی اور ظاہری مقام و منصب کا حصول ہے ۔
بالکل واضح سی بات ہے کہ اگر کسی فکر بس مال و دولت ، عورتوں اور مقام و منصب تک ہے جو اس کے سامنے کہا جاتاہے کہ : اگر آسمانی سورج میرے ایک ہاتھ پر اور چاند دوسرے ہاتھ پررکھ دو اور تمہارے چھوٹے سے ماحول کی بجائے تمام نظام شمسی پر میری حکومت ہوتو بھی میں اپنی دعوت سے دستبردار نہیں ہوںگا ، تو وہ یہ بات کرنے والے کو دیوانہ ہی قرار دے گا ۔
تعجب تو اس بات پر ہے کہ یہ بے عقل افراد خدائی رہبروں کے ساتھ ایسے ایسے پیوند چسپاں کرتے تھے کہ جو بعض اوقات بالکل ایک دوسرے کی ضد ہوتے تھے کبھی انھیں ”دیوانہ “ کہتے اور کبھی ”جادو گر “ ۔ حالانکہ جا دو گر تو ایک خاص زیر کی اور ہوشیاری کا حامل ہوتا ہے اور عین ”دیوانہ “کا مد مقابل ہے ۔
یہ لوگ نہ صرف پیغمبر کی طرف ایسی غیر عاقلانہ نسبتیں دیتے تھے بلکہ بہانہ جوئی کے طور پر کہتے تھے ۔ ”اگر سچ کہتے ہوتو پھر ہمارے لئے فرشتے کیوں لاتے“۔تاکہ وہ تیری گفتگو کی تصدیق کریں ۔ اور ہم ایمان لے آئیں ( لَوْ مَا تَاٴْتِینَا بِالْمَلَائِکَةِ إِنْ کُنْتَ مِنْ الصَّادِقِینَ ) ۔
خد اتعالی ٰانھیں جواب دیتا ہے : ہم ملائکہ کو سوائے حق کے نہیں بھیجتے ( مَا نُنَزِّلُ الْمَلَائِکَةَ إِلاَّ بِالْحَق) ۔اور اگر فرشتے نازل ہوں ( اور حقیقت ان کے لئے حسی ّپہلو اختیار کرلے )اور اس کے بعد وہ ایمان نہ لائیں تو پھر انھیں مہلت نہیں دی جائے گی اور وہ عذاب الہٰی کے ذریعے نابود ہو جائیں گے ۔(وَمَا کَانُوا إِذًا مُنْظَرِینَ ) ۔

” ماننزل الملائکة الا بالحق “ کی تفسیر کے سلسلے میں مفسرین کے مختلف بیانات ہیں :۔
۱۔ بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ہم فرشتوں کی صرف بطور اعجاز حق واضح کرنے کے نازل کریں گے نہ کہ ان کہ بہانہ جوئی کے لئے کہ وہ دکھ لیں اور پھر بھی ایمان نہ لائیں ۔ دوسرے لفظوں میں معجزہ کوئی بازیچہ ٴ اطفال نہیں کہ لوگوں کومن پسند سے رونما ہوتا رہے۔ بلکہ یہ تو اثبات حق کے لئے اور جو لوگ حق کے خواہاں ہیں ان کے لئے یہ امر بقدر کافی ثابت ہو چکا ہے کیونکہ پیغمبر اسلامنے قرآن جیسا معجزہ ہاتھ میں ہونے با وجود دوسرے معجزات بھی دکھا کر اپنی رسالت کو ثابت کیا تھا ۔
۲۔ ایک احتمال یہ ذکر کیا گیا ہے کہ ”حق “یہاں ” موت “ کے معنی میں ہے یعنی فرشتے صرف موت اور قبضِ روح کے وقت نازل ہو ں گے ۔ کسی اور وقت نہیں ۔
لیکن یہ تفسیر بہت بعید معلوم ہوتی ہے کیونکہ قرآن حکیم میں حضرت ابرہیم اور حضرت لوط (علیہ السلام) کے واقعات میں ، یہاں تک کہ مسلمانوں کے بارے میں بعض سے متعلق ہے کہ ان پر فرشتے نازل ہوئے ۔
۳۔ بعض نے کہا ہے کہ ” حق“ سے مراد یہاں وہی آخری دنیاوی عذاب اور نابود کرنے والی مصیبت ہے ۔ دوسرے لفظوں میں ”عذاب استیصال“ ہے یعنی اگر فرشتے نازل ہوں اور پھر یہ ایمان نہ لائیں کیونہ ان میں موجود ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ ایمان نہیں لائیں گے تو ان کی نابودی بھی ساتھ ہوگی ۔
آیت کا دوسرا جملہ” وما کانو ا اذاً منظرین“ بھی اس کے معنی کی تاکید کرتا ہے ۔ لیکن پہلی تفسیر کے مطابق اس کا الگ نیا مفہوم ہے ۔
۴۔ یہ احتمال بھی ہے کہ ”حق “ یہاں شہود کے معنی میں ہے یعنی جب تک یہ افراد اس دنیا میں ہیں ان کی آنکھوں کے سامنے پر دے پڑے ہیں اور یہ ایسے حقائق نہیں دیکھ سکتے کہ جو ماورائے مادّہ سے مر بوط ہیں صرف دوسرے جہان میں عالم ِ شہود ہوگا کہ جہاں پردے ہٹ جائیں گے تو پھر یہ فرشتگان ِ الٰہی کو دیکھ سکیں گے ۔
اس میں بھی دوسری تفسیر والا اشکال موجود ہے کیونکہ قومِ لوط کے بے ایمان اور گمراہ افراد تک نے عذاب پر مامور فرشتوں کو اسی دنیا میں دیکھا تھا ۔ ۱
اس بناء پر صرف پہلی اور تیسری تفسیر ظاہر آیت سے مناسبت رکھتی ہے ۔ باقی رہا یہ مسئلہ کہ آیت میں کہ اگر ان تمام واضح دلائل کے بعد بھی ان کے تقاضا کے مطابق حسی معجزہ پیش کیا جائے تو پھر انھیں مہلت نہیں دی جائے گی یہ اس بناء پر ہے کہ ایسی حالت میں ان کے لئے ہر پورے معنی کے لحاظ سے اتمام ِ حجت ہو جائے گا، اور تمام بہانے ختم ہو جائیں گے اور چونکہ زندگی کی مہلت ، اتمام حجت ، احتمالِ تجدید نظر اور حق کی طرف باز گشت کے لئے ہے او رجن پر پوری طرح اتمام حجت ہو جائے ان کے لئے مہلت کوئی معنی نہیں رکھتی لہٰذا ان کی عمر کے اختتام کا اعلان ہوجاتا ہے اور وہ اس سزا اور عذاب تک جا پہنچے ہیں جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں ( غور کیجئے گا ) ۔

سوره حجر / آیه 6 - 8 سوره حجر / آیه 9
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma