ہرچیز کا خزانہ ہمارے پاس ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 11
سوره حجر / آیه 19 - 21 ۱۔ خدا کے خزنے کیا ہیں ؟

ہرچیز کا خزانہ ہمارے پاس ہے :
یہاں آیات آفرینش ایک حصہ اور زمین میں عظمت خدا کی نشانیاں بیان کی گئی ہیں تاکہ گذشتہ بحث تکمیل کو پہنچے۔
پہلے بات زمین سے شروع کی گئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہوتاہے:ہم نے زمین کو پھیلا یا (وَالْاٴَرْضَ مَدَدْنَاھَا ) ۔
”مد“ دراصل وسعت دینے او ر پھیلانے کے معنی میں ہے اور احتمال قوی یہ ہے کہ یہاں زمین کی خشکیوں کے ذریعے سے باہر نکلنے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ابتدا میں کرہٴ زمین کی ساری سطح سیلابی بارشوں کے زیر اثر پانی کے نیچے ڈوبی ہوئی تھی سالہاسال اسی حال میں گذرگئے ۔سیلابی بارشیں کم ہوئیں ، پانی زمین کے گڑہوں میں جاگزیں ہوا ۔ آہستہ آہستہ خشکیاں پانی کے نیچے سے نمودار ہونے لگیں ۔ یہی وہ چیز ہے جو روایات اسلامی میں ”دحو الارض “ کے نام سے مشہو ہے ۔ پہاڑوں کی خلقت چونکہ ان کے زیادہ فوائد کی وجہ سے توحید کی ایک نشانی ہے ، اسی لئے ان کا ذکر تے ہوئے مزید فرمایا گیا ہے : ہم نے زمین میں مستقر اور ثابت پہاڑ ڈالے ہیں (وَاٴَلْقَیْنَا فِیھَا رَوَاسِیَ) ۔
پہاڑو ں کے لئے ”القاء (پھینکنا)کی تعبیر استعمال کی گئی ہے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ پہاڑ زمین کی وہ سلوٹیں ہیں جوزمین کے چمڑے کے تدریجاًسرد ہونے کی بناء پر یا آتش فشانی موادکی وجہ سے وجود میں آئے ہیں ۔ ہوئے ہیں ، ہوسکتا ہے یہ تعبیر اس لہٰذاہوکہ ” القاء “”ایجاد “ کے معنی میںبھی آیا ہے ، ہماپنی روز مرہ زبان میںکہتے ہیں کہ ہم نے فلاںزمین کے لئے پلا ن بنایا ہے اور اس میں چند کمرے ڈالے ہیں یعنی بنائے اور ایجاد کئے ہیں۔
بہر حال یہ پہاڑ علاوہ اس کے کہ جڑسے ایک دوسرے کے ساتھ پیوست ہیں اور روزمرہ کی طرح زمین کے اندرونی خلفشار اور دباوٴ کے مقابلے میں لرزتے نہیں ، طوفانوں کی طاقت کی بھی درہم برہم کرردیتے ہین اور ہوا کی رفتاری کوپوری طرح کنٹرول کرتے ہیں یہ پہاڑ ، پانی کے ذخیروں کے لئے بہت اچھی جگہ ہیں جو یہاں برف کی صورت میں یاچشموں کی صورت میں میں موجود ہوتا ہے ۔
خصوصاً لفظ ”رواسی “ استعمال کیا گیا ہے کہ جو”راسیہ“ جمع ہے اور یہ ثابت اور مضبوط کے معنی میں ہے جو کچھ ہم نے سطور بالا میں بیان کیا ہے اس کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے کہ وہ خود بھی ثابت اور مستقر ہیں اور زمین کے نازل چمڑے اور انسانی زندگی کے ثبات و قرار کا باعث ہیں ۔
انسانی زندگی اور تمام جانداروں کے زندگی کے لئے ، بہترین عامل یعنی نباتات کی طرف بات کا رخ رکھتے ہوئے فرمایا گیاہے :ہم نے زمین پر موزوں نباتات میں سے اگایا ہے ( وَاٴَنْبَتْنَا فِیھَا مِنْ کُلِّ شَیْءٍ مَوْزُونٍ) ۔
”موزون “کس قدر خوبصورت اور رسا تعبیر ہے ۔ یہ لفظ د اصل ”وزن“ کے مادہ سے ہر چیز کے اندر شناسائی کے معنی میں لیا گیا ہے ۔۱
یہ دقیق حساب ، عجیب نظم و ضبط اورنباتات کے تمام اجزاء کے متناسب اندازوں کی طرف اشارہ ہے ۔ یہاس طرف اشارہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک بلکہ ہر ایک کاہر جز ، شاخ ، پتہ، پھول، پھل، اور گٹھلی سب کچھ معین حساب کتاب کا حامل ہے ،۔
کرہ زمین میں شاید لاکھوں قسمکے نباتات ہیں کہ جو مختلف خواص اور طرح طرح کے آثار رکھتے ہیں ان میں سے ہر ایک اللہ کی پہچان کا دریچہ ہے ان میں سے ہر ایک کا پتہ پتہ معرفتِ کردگار کی ایک کتاب ہے ۔
اس جملہ کے معنی میں یہ احتمال بھی ذکر کیا گیاہے کہ اس سے مراد مختلف معدنیات کا پہاڑوں میں پیداہونا ہے کیونکہ عرب لفظ ”انبات“معدن اور کان کے بارے میں استعمال کرتے ہیں ۔
بعض روایات میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔ایک روایت میں امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ سے اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا:
مراد یہ ہے کہ خدا پہاڑوں میں سونے ، چاندی ، جواہرات او رباقی دھاتوں کی کانیں اور معدنیات پیدا کی ہیں ۔ ۲
یہ احتمال بھی ہے کہ ”انبات“ ( اُگانا)یہاں وسیع معنی میں ہوکہ جس میں تمام مخلوقات جنہیں خدا نے پیدا کیا ہے ، شامل ہوں ۔ سورہ نوح میں اس عظیم پیغمبر کی زبانی ہے کہ آپ لوگوں سے کہتے تھے :
و اللہ انبتکم من الارض نباتا (نوح۔ ۱۷)
اور خدا نے تمہیں نباتات کی طرح زمین سے اُگایاہے ۔
بہرحال کوئی مانع نہیں کہ آیت وسیع مفہوم رکھتی ہو اور اس میں انسان ، نباتات اور معدنیات وغیرہ سبھی شامل ہوں۔
انسان کے وسائل حیات چونکہ نباتات اور معدنیات میں منحصر نہیں ہیں لہٰذا بعد والی آیات میں ان تمام نعمات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاگیاہے :ہم نے زمین میں تمہارے لئے انواع و اقسام کے وسائل زندگی بنائے ہیں ( وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیھَا مَعَایِشَ ) ۔
نہ صر ف تمہارے لئے بلکہ تمام زندہ موجودات کے لئے اور وہ کہ جنہیں تم روزی نہیں دیتے اور تمہاری دسترس سے باہر ہیں (وَمَنْ لَسْتُمْ لَہُ بِرَازِقِینَ) ۔
جی ہاں !ہم نے ان سب کو ان کی ضروریات فراہم کی ہیں ۔
معایش“ ” معیشة“ کی جمع ہے اور یہ وسیلہ ہیں ، ذریعہ ، انسانی زندگی کی ضروریات کو کہتے ہیں کہ بعض اوقات جن کے پیچھے خود انسان جاتا ہے اور بعض اوقات وہ اس کے پیچھے آتی ہیں اگر چہ بعض مفسرین نے لفظ” معایش“کی تفسیر صرف زراعت ، نباتات اور کھانے پینے کی چیزوں سے کی ہے لیکن واضح ہے کہ مفہوم لغت پوری طرح وسیع ہے اور تمام وسائلِ حیات پر محیط ہے ۔
مفسرین نے” من لستم لہ برازقین “کی دو تفسیریں ہیں ۔
پہلی تفسیر یہ کہ خدا چاہتا ہے کہ انسانوں کو متوجہ کرے کہ ہم نے بھی تمہارے لئے زمین میں وسیلہٴ زندگی قرار دیا ہے اور زندہ موجودات بھی تماہرے اختیار میں دئے ہیں ( مثلاً چوپائے ) کہ جنہیں تمام روزی دینے کی توانائی نہیں رکتھے ۔ خدا انھیں روزی دیتا ہے اگرچہ یہ کام تمہارے ہاتھوں انجام پاتا ہے ۔۱
۱۔تفسیر اول کی بناء پر ”من (من لستم برازقین ) کا عطف ”لکم“ کی ضمیر پر ہوتا ہے اور دوسری تفسیر کی بناء پر ”معایش“ پر ۔ بعض نے پہلی تفسیر پر اعتراض کیا ہے کہ مجور کا اسم ظاہر ضمیر مجرور پر عطف نہیں ہوتا مگر یہ کہ حرف جر کی تکرار ہو یعنی یہاں ضروری تھا کہ لام ” من “ کے سر پر بھی آتی ۔
دوسرا یہ ”من “ کا اطلاق انسان کے علاوہ دیگر زندہ پر کس طرح ہوا ہے ۔ لیکن یہ دونوں اعتراض صحیح نہیں ہیں ۔کیونکہ عبارات عرب میں حرف جر کی تکرار نہ ہونے پر شواہد موجود ہیں اور اسی طرح غیر ذوی العقول موجودات ” من “ کے اطلاق کی بھی مثالیں ہیں ، دوسری تفسیر پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ لفظ” معایش“ اتنا وسیع مفہوم رکھتا ہے کہ تمام وسائل زندگی یہاں تک کہ چوپائے وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں ۔لہٰذا ” معایش “ کے ذکرکے بعد اس کے ذکر کی ضرورت نہ تھی ۔اسی بناء پر ہم نے پہلی تفسیر کوترجیح دی ہے ۔
لیکن ہماری نظر میں پہلی تفسیر زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے اور اس کی ادبی دلیل بھی ہم نے فٹ نوٹ میں بیان کردی ہے ۔
تفسیر علی بن ابراہیم میں موجود ایک حدیث میں ہم نے اس تفسیر کی تائید میں پاتے ہیں جہاں ”من لستم لہ برازقین “ کے بارے میں ہے
لکل ضرب من الحیوان قدرنا شیئا مقدراً
تمام جانوروں کے لئے ہم نے کوئی نہ کوئی چیز مقدر کی ہے ۔3
زیربحث آخری آیت در حقیقت ایک سوال کا جواب دیا جارہا ہے کہ جو بہت سے لوگوں کی طرف سے کیا جاتا ہے اور وہ یہ کہ خدا اس قد ازراق و نعمات انسانوں کے قبضے میں کیوں نہیں دیتا ہے کہ وہ ہر قسم کی سعی و کوشش سے بے نیاز ہو جاتے ۔
رشادہوتا ہے : تمام چیزوں کے خزنے ہمارے پاس ہیں لیکن ہم ان کی معین مقدارکے علاوہ نازل نہیں کرتے ( وَإِنْ مِنْ شَیْءٍ إِلاَّ عِنْدَنَا خَزَائِنُہُ وَمَا نُنَزِّلُہُ إِلاَّ بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ) ۔
لہٰذا ایسا نہیں کہ ہماری قدرت محدود ہے اور اپنی نعمات کے ختم ہونے پر ہم وحشت زدہ ہیں بلکہ ہر چیز کا منبع ،مخزن اور سر چشمہ ہمارے پاس ہے اور ہم ہر زمانے میں ہر مقدار ایجاد کر نے کی قدرت رکھتے ہیں لیکن اس عالم کی تمام چیزیں کسی حساب کے ماتحت ہیں اور ارزاق بھی خدا کی طرف سے بمقدار حساب نازل ہوتی ہیں  ایک اور جگہ قرآن کہتا ہے :۔
ولو بسط اللہ الرزق لعبادہ لبغوا فی الارض ولٰکن ینزل بقدر مایشاء( شوری ۲۷)
اگر خدا اپنے بندوں کے لئے بے حساب روزی پھیلادیتا تو وہ جادہ حق سے منحرف ہو جاتے ، لیکن جتنی مقدار وہ چاہتا ہے نازل کرتا ہے ۔(شوریٰ ۔۲۷)
پوری طرح واضح ہے کہ سعی و کوشش ،انسانی زندگی سے سستی ، کاہلی اور دل مردگی دور کرنے کے علاوہ حرکت و نشاط پیدا کرتی ہے اوریہ انسانوں کی صحیح وسالم فکری و جسمانی مشغولیت کے لئے بہت ہی اچھا وسیلہ ہے اور اگر ایسا نہ ہوتاتو تمام چیزیں بے حساب انسان کے اختیار میں ہوتیں ۔اور نہ معلوم پھر دنیا کا کیا منظر ہوتا ۔
کچھ بیکار انسان سیر شکم کے ساتھ بغیر کسی کنٹرول کے شور و غل مچاتے کیونکہ ہم جاتے ہیں کہ ان جہان کے لوگ اہل جنت کی طرح نیک و بد صفات کے حامل ہیںانہیں اس جہان کی بھٹی سے کندن بن کے نکالنا چاہئیے۔ سعی وکو شش اور صحیح حرکت و اشتغال سے بہتر کندن بنا نے کے لئے کون سی چیز ہو سکتی ہے لہٰذا جس طرح فقرو فاقہ اور احتیاج و نیاز ی بھی فساد اور تباہی کا باعث ہے ۔

۱۔”الوزن معرفة قدر الشیء“ ( مفردات راغب)
۲۔تفسیر نور الثقلین جلد۳ ص ۶ ( توجہ رہے کہ اس تفسیرکے مطابق ” فیھا“ کی ضمیر پہاڑوں کی طرف لوٹے گی ) ۔
3۔تفسیر نو ر الثقلین جلد۳ ص۹۔
سوره حجر / آیه 19 - 21 ۱۔ خدا کے خزنے کیا ہیں ؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma