سب چیزیں انسان کے دستِ تسخیر میں ہیں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 11
سوره نحل/ آیه 9 - 13 ۱۔ مادی اور رروحانی نعمتیں

سب چیزیں انسان کے دستِ تسخیر میں ہیں :


گذشتہ آیات میں خدا کی مختلف نعمتوں کا ذکر تھا زیر نظر آیات میں بھی خدا بعض نہایت اہم نعمتوں کا ذکر ہے ۔
ایک بہت اہم معنوی نعمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : خدا کے ذمہ ہے کہ لوگوں کو اس صراط مستقیم کی ہدایت کرے جس میں کوئی انحراف اور کجی نہیں ہے ۔ ( وَعَلَی اللهِ قَصْدُ السَّبِیل) ۔
”قصد“ راستہ صاف ہونے کے معنی میں ہے لہٰذا ”قصد السبیل“ کا معنی ”سیدھا راستہ “ ہو گا یعنی وہ راستہ جس میں انحراف اور گمراہی نہ ہو ۔۱
اس بارے میں کہ یہ ”سیدھا راستہ“ تکوینی پہلو سے ہے یا تشریعی پہلو سے ، اس سلسلے میں مفسرین نے مختلف تفسیریں کی ہیں لیکن کوئی مانع نہیں کہ اس میں دونوں پہلو شامل ہوں۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ خدا نے انسان کو مختلف توانائیاں عطا کی ہیں اور اسے طرح طرح کی استعدادیں دی ہیں تاکہ تکامل و ارتقاء میں راہ میں اس کی مدد کی جائے کیونکہ تکامل و ارتقاء اس کا مقصدِ خلقت ہے اسی طرح نباتات اور دیگر مختلف جانوروں کو بھی اس ہدف تک پہنچنے کے لئے ضروری تونائیاں عطا کی ہیں ۔فرق یہ ہے کہ انسان اپنے ارادے کے ساتھ آگے بڑھ تا ہے ، جب کہ بناتات او ر جانور بے اختیار اپنے ہدف کی طرف جاتے ہیں ۔ نیز تکامل انسان کی قوسِ صعودی کا بھی دیگر جانداروں سے کوئی موازنہ نہیں ہے ۔
اس طرح خدا تعالیٰ نے خلقت اور تکوین کے اعتبار سے عقل و استعداد اور دیگر لازمی توانائیاں عطا کرکے اس صراط مستقیم پر چلنے کے لئے تیار کیا ہے ۔
دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کو وحی ِآسمانی ، درکار تعلیمات اور انسانی ضرورت کے قوانین کے ساتھ بھیجا تاکہ تشریعی لحاظ سے صحیح اور غلط راستہ کو جدا جدا کرکے دکھادیںاور اس راستے چلنے کے لئے انسان کے شوق کو ابھاریں اور اسے انحرافی راستوں سے باز رکھیں یہ بات جاذب نظر کہ مندرجہ بالا آیت میں خدا تعالیٰ نے اس امر کو اپنا ایک فریضہ شمار کیا ہے ۔
اور ” علی اللہ “ ( خدا پر لازم ہے ) الفاظ استعمال کئے ہیں کہ قرآن کی آیات میں ہیں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں ۔مثلاً( علینا للھدیٰ )
ہم پر لازم ہے کہ ہم انسان کی ہدایت کریں ، ( لیل ۔ ۱۲)
اگر ہم ”علی اللہ قصد السبیل “ کے مفہوم کی وسعت پر غورکریں اور تمام مادی اور روحانی توانائیاں جو خلقت انسان اور اس کی تعلیم و پر ورش میں استعمال ہوئی ہیں کے بارے میں سوچیں تو ہمیں ” قصد السبیل “ کی عظمت کا اندازہ ہو گا کہ جو تمام نعمتوں سے بر تر ہے ۔
انحرافی راستے چونکہ بہت زیادہ ہیں اس لئے قرآن اگلے مرحلے پر انسان کو بیدا رکرتے ہوئے کہتا ہے : ان راستوں میںسے بعض انحرافی ہیں (ومنھا جائز)2
انسان کے کمال اور ارتقاء کے لئے چونکہ اختیار و اراد ہ کی آزادی اہم ترین عامل ہے لہٰذا قرآن ایک مختصر سے جملے کے ذریعے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے ” اگر خدا چاہتا تو ہم سب کو زبر دستی راہ راست کی ہدایت کرتا“ یہاں تک کہ تم ایک قدم آگےاس سے نہ رکھ سکتے (ولو شاء لھداکم اجمعین )لیکن اس نے یہ کام نہیں کیا کیونکہ جبری ہدایت نہ باعث افتخار ہے اور نہ تکامل و ارتقاء کاذریعہ اس نے تمہیں آزادی دی ہے تاکہ تم یہ راستہ اپنے قدموں سے طے کرو اور اوجِ کمال تک جا پہنچو ۔
قرآن کا جملہ ضمنی طور پر اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ اگر انسانوں کا ایک حصہ منحرف راستے کی طرف چل پڑتا ہے تو اس سے یہ وہم پیدا نہ ہو کہ ان کے مقابلے میں خدا مغلوب ہو گیا ہے بلکہ اس کی خواہش اور تقاجائے حکمت ہے کہ انسان آزاد ہےں ۔
اگلی آیت میں بھی مادی نعمت کا ذکر ہے تاکہ انسانوں کے احساس شکر کو ابھارا جائے اور ان کے دلوں میں عشق ِ الہٰی کے نور سے اجالا کیا جائے اور انھیں ان نعمتوں کے عطا کرنے والے کی زیادہ سے زیادہ معرفت کی دعوت دی جائے ۔ قرآن کہتا ہے : وہ وہی ہے جس نے آسمان سے پانی نازل کیا(ھُوَ الَّذِی اٴَنزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً ) ۔حیات بخش ،میٹھا ، صاف شفاف اور ہر قسم کی آلودگی سے پاک پانی  جسے تم پیتے ہو ( لَکُمْ مِنْہُ شَرَابٌ) ۔
اور اسی سے پودے اور درخت نکلتے ہیں کہ جنہیں چرنے کے لئے تم اپنے جانوربھیجتے ہو ( وَمِنْہُ شَجَرٌ فِیہِ تُسِیمُونَ) ۔
تسیمون“ ”اسامہ“ کے مادہ سے جانروں کو چرانے کے معنی میں ہے اور ہم جانتے ہیں کہ جانور زمین کے پودوں سے بی استفادہ کرتے ہیں اور درختوں کے پتوں سے بھی ۔ اتفاق کی بات ہے کہ عربی لغت میں ”شجر“ کا ایک وسیع مفہوم ہے ۔ یہ لفظ درخت کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اورپودے کے لئے بھی
اس میں شک نہیں کہ بارش کا فا ئدہ یہی نہیں کہ اس کا پانی انسانوں کے پینے اور پودوں کے اگنے کے کام آتا ہے بلکہ اس سے ہوا صاف ہوجاتی ہے انسانی جسم کا درکار طوبت او ر نمی حاصل ہوتی ہے انسانی تنفس میں سہولت کا باعث ہے اور اسی طرح اس بارش کے اور بے شمار فائدے ہیں لیکن چونکہ مذکورہ دوباتیں زیادہ اہم تھیں اس لئے فقط انہی کا ذکر کیا گیا ہے ۔
قرآ ن بات جاری رکھتے ہوئے کہتاہے :بارش کے پانی ہی سے تمہاری کھیتیاں اگاتا ہے ( یُنْبِتُ لَکُمْ بِہِ الزَّرْعَ وَالزَّیْتُونَ وَالنَّخِیلَ وَالْاٴَعْنَابَ )
مختصر یہ کہ تمام پھل اسی سے اگتے ہیں (وَمِنْ کُلِّ الثَّمَرَات) ۔
یقینا یہ رنگا رنگ پھل اور طرح طرح کی کھیتیاں خدا کی طرف سے ان لوگوں کے لئے واضح نشانیاں ہیں جو صاحب فکر ہیں ( إِنَّ فِی ذَلِکَ لآَیَةً لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ ) ۔
”زرع“ کے مفہوم میں ہرطرح کی زراعت شامل ہے ”زیتون “ ایک خاص درخت کا نام ہے اور اس درخت کے پھل کو بھی ”زیتوں “ کہتے ہیں ( لیکن بعض مفسرین کے نزدیک ”زیتون“ صرف درخت نام ہے اور ” ززیتونہ“ اس کے پھل کانام ہے جبکہ سورہ ٴ کی آیت ۳۵ میں لفظ” زیتونہ“ خود درخت کے لئے استعمال ہوا ہے ) ۔
نخیل“ کا معنی ہے ”کھجور کا درخت“یہ لفظ مفرد اور جمع دونوںمعانی میں استعمال ہوتا ہے ۔
اعناف “ جمع ہے” عنب “کی جس کا معنی انگور ۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے تمام پھلوں میں سے صرف ان تین پھلوں زیتون ، کھجوراور انگور کا ذکر کیوں کیا ہے اس کی دلیل انشاء اللہ آپ اسی آیت میں پڑھیں گے ۔
اس کے بعد اس نعمت کی طرف اشارہ ہے کہ اس جہان کے مختلف موجود ات انسان کے لئے مسخر کردئے گئے ہیں ، ارشاد ِ الہٰی ہے اللہ نے تمہارے لئے رات اور دن کو مسخر کردیا ہے اور اسی طرح سورج اور چاند کو بھی ( وَسَخَّرَ لَکُمْ اللَّیْلَ وَالنَّھَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ) ۔
اسی طرح ستارے بھی حکم انسان کے سامنے مسخر ہیں ( وَالنُّجُومُ مُسَخَّرَاتٌ بِاٴَمْرِہِ ) ۔
ان امور میں یقینا خدا اور اس کی خلقت کی عظمت کی نشانیاں ہیں ان کے لئے جو عقل و فکر رکھتے ہیں (إِنَّ فِی ذَلِکَ لآَیَاتٍ لِقَوْمٍ یَعْقِلُونَ ) ۔
سورہ رعداور سورہ ابراہیم کے ذیل میں ہم کہہ چکے ہیں کہ انسان کے لئے موجودات مسخر ہونے کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ موجودات انسانی فائدے کے لئے مصروف خدمت ہوں اور انسان کو اس بات کا امکان فراہم کریں کہ وہ ان سے استفادہ کرسکے ۔اسی بناء پر رات ، دن ، سورج، چاند اور ستاروں میں سے ہر کوئی انسان کی زندگی پر اثر انداز ہو تے ہیں اور انسان ان سے فائدہ اٹھا تا ہے اس لحاظ سے یہ موجودات انسان کے لئے مسخر ہیں ۔
یہ جاذب نظر تعبیر کہ موجودات حکم ِخدا سے انسان کے لئے مسخر ہیں ۔ اسلام اور قررآن کی نگاہ میں انسان کے مقام اور حقیقی عظمت کو واضح کرتی ہے اور اس کے خلیفة اللہ ہونے کی اہلیت کا اظہار کرتی ہے اس تعبیر کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ خدا کی گونا گوں نعمتوں کاذکر کرکے انسان کے جذبہٴ تشکر کو ابھار ا جائے او ر وہ اس عمدہ و بدیع نظام کی اپنے لئے تسخیر کو دیکھتے ہوں خدا کے نزدیک ہو جائے ۔
اسی لئے آیت کے آخر میں ارشاد ہوتا ہے : اس تسخیر کے لئے ان میں نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں ۔ اسرار تسخیر سے زیادہآگاہی کے لئے سورہ ٴ ابراہیم کی آیات ۳۲ اور ۳۳ کی تفسیر دیکھئے ۔
ان کے علاوہ ” زمین میں پیدا کی گئی مخلوقات کو بھی تمہارے لئے مسخر کردیا گیا ہے “ ( وَمَا ذَرَاٴَ لَکُمْ فِی الْاٴَرْضِ) ۔
رنگا رنگ کی مخلوقات ( مُخْتَلِفًا اٴَلْوَانُہُ) ۔طرح طرح کے لباس ، مختلف قسم کی غذائیں ، پاکیزہ بیویاں، آرام و آسائش کے وسائل ، قسم قسم کے معدنیات ، زیر زمین و پائے زمین مفید چیزیں اور دوسری نعمتیں ان میں بی واضح نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو سمجھ جاتے ہیں “ ( إِنَّ فِی ذَلِکَ لآَیَةً لِقَوْمٍ یَذَّکَّرُونَ ) ۔

 


۱۔بعض بزرگ مفسرین مثلاً علامہ طباطبائی نے ” المیزان “ میں ” قصد “ کو ”قاصد“ کے معنی میں لیا ہے کہ جو ”جائر “( حق سے منحرف )کا الٹ ہے ۔
2۔”منھا“ کی ضمیر ”سبیل “ کی طرف لوٹتی ہے اور سبیل موٴنث مجازی ہے ۔
سوره نحل/ آیه 9 - 13 ۱۔ مادی اور رروحانی نعمتیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma