۳۔عبادت اور تکامل او ارتقاء

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 11
۲۔خدا کی طرف توجہ کا روحانی اثر سوره نحل / آیه 1 - 2

۳۔عبادت اور تکامل او ارتقاء


ہم جانتے ہیں کہ انسان ایسا موجود ہے جو تکامل و ارتقاء کی اعلیٰ ترین استعداد رکھتا ہے اس کے سفر کا آغاز نقطہٴ عدم سے ہوا ہے اور وہ لامتناہی منزل کی طرف رواں دواں ہے اور اگر وہ راہ تکامل پر چلتا رہے تو کہیں بھی ٹھہراوٴ نہیں آئے گا ۔
ایک طرف ہم جانتے ہیں کہ عیادت تربیت ِ انسان کا اعلیٰ ترین مکتب اور عبادت انسانی سوچ کو بیدار کرتی ہے اور اس کی فکر کو لامتناہی منزل کی طرف متوجہ کرتی ہے اس کے قلب و روح سے گناہ اور غفلت کا گرد وغبار دور کرتی ہے اس کے وجود میں اعلیٰ انسانی صفات کی پر ورش کا باعث بنتی ہے ۔ روح ایمان کو تقویت دیتی ہے اور انسان کو آگاہ اور مسئولیت عطا کرتی ہے لہٰذا ممکن ہے کہ انسان لمحہ بھر کے لئے بھی اس عظیم تربیتی مکتب سے بے نیاز ہو اور وہ لوگ یہ جو سوچتے ہیں ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ انسان ایک ایسا مقام پر پہنچ جائے کہ جہاں عبادت کرنے کی ضرورت نہ ہو انھوں نے انسان کے تکامل و ارتقاء کو محدود خیال کیا ہے یا وہ مفہوم عبادت نہیں سمجھ سکے۔
علامہ طباطبائی نے تفسیر المیزان میں اس سلسل میں ایک بحث کی ہے ہم اسے اختصار کے ساتھ ذیل میں پیش کرتے ہیں :۔
اس عالم کے تمام موجودات کمال کی طرف محو سفر ہیں اور انسانی تکامل معاشرے کے اندر ہوتا ہے لہٰذا انسان ذاتی طور پر سماجی فطرت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے ایک طرف انسانی معاشرے اس صورت میں انسان کی تربیت اور تکامل کا ضامن بن سکتا ہے کہ وہ منظم قوانین کے احترام کے زیر سایہ اپنے امور بجا لائیں ، ٹکرائی سے بچیں اور ذمہ داریوں کی حدود واضح کریں ۔
دوسرے لفظوں میں اگر انسانی معاشرہ صالح ہوجائے تو لوگ اس میں رہ کر اپنے اصلی ہدف تک پہنچ سکتے ہیں اور اگر معاشرہ خراب ہو تو پھر لوگ اس تکامل و ارتقاء سے رک جاتے ہیں یہ احکام و قوانین و ارتقاء سے رک جاتے ہیں یہ احکام وقوانین اجتماعی ہوں یا عبادتی اس صورت میں موثر ہوں گے جب نبوت اور آسمانی وحی سے لئے گئے ہوں ۔
ہم یہ جانتے ہیں کہ عبادتی احکام انفرادی ہوں یا اجتماعی تکامل کے ایک حصے پر پر مبنی ہوتے ہیں ۔
یہاں سے واضح ہوجاتاہے کہ جب تک انسانی معاشرہ موجود ہے اور اس دنیا میں اس کی زندگی جاری و ساری ہے الہٰی ذمہ داریاں اور احکام بھی جاری ہیںاور انسان کی ذمہ داریوں اور قوانین کے خاتمے کا مطلب احکام و قوانین کی فراموشی ہے اوور اس کا نتیجہ انسانی معاشرے کی خرابی اور فساد ہے ۔
یہ نکتہ بھی قابل ِ توجہ ہے کہ نیک اعمال اور عبادات انسان کی اعلیٰ صلاحیتوں کے حصول کا سر چشمہ ہیں اور جب یہ اعمال کافی حد تک انجام پائیں اور انسان کے اندر یہ اعلیٰ صلاحتیں اور ملکات بیدار ہو جائیں تو یہ ملکات بھی اپنی باری پر زیادہ نیک اعمال اور خدا کی زیادہ عطاعت و بندگی کا سر چشمہ بن جاتے ہیں۔
اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ جن کا گمان ہے کہ حکم کا مقصد انسانی تکمیل ہے لہٰذا جب انسان اپنے کمال کو پہنچ جاتا ہے تو پھر بقاء کا کوئی معنی نہیں ان کا خیال مغالطے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ اگر انسان ذمہ داریوں اور احکام کی انجام دہی سے دستبردار ہو جائے تو معاشرہ فوراً ابتری کا رخ کرے گا لہٰذا ایسے معاشرے میں ایک فرد ِ کامل کیسے زندگی بسر کرسکتا ہے اور اگر ملکات اپنے حقیقی اثرات سے رو گردان ہو گئے ہیں (غور کیجئے گا)

۲۔خدا کی طرف توجہ کا روحانی اثر سوره نحل / آیه 1 - 2
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma