ہوا اور بارش

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 11
سوره حجر / آیه 22 - 25 متقدمین او ر متاخرین کون ہیں ؟

ہوا اور بارش:

 
گذشتہ آیات میں بعض اسرار آفرینش کا تذکرہ تھا اور خدا کی نعمتوں کا بیان تھا ۔ مثلاً زمین ، پہاڑ، نباتات اور وسائل زندگی کی خلقت۔
زیر نظر پہلی آیت میں ہواوٴں کے چلنے اور بارشوں کے نزول میں ان اسرار ِ آفرینش کے نقشِ موٴثر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے : ہم نے ہوائیں بھیجیں جبکہ وہ بار آور کرنے والی ہیں ( بادلوں کے ٹکڑوں کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہیں اور انھیں بار آور کرتی ہیں )( وَاٴَرْسَلْنَا الرِّیَاحَ لَوَاقِحَ) ۔
اور ان کے پیچھے ہم نے آسمان سے پانی نازل کیا ( فَاٴَنْزَلْنَا مِنْ السَّمَاءِ مَاءً) ۔اور اس ذریعہ سے ہم نے سب کو سیراب کیا ( فَاٴَسْقَیْنَاکُمُوہُ) ۔حالانکہ تم اس کی حفاظت و نگہداری کی طاقت نہ رکھتے تھے ۔(وَمَا اٴَنْتُمْ لَہُ بِخَازِنِینَ ) ۔
لواقح “”لاقح“ کی جمع ہے جس کا معنی بار آور کرنے والا ۔ یہاں ان ہواوٴں کی طرف اشارہ ہے جو بادلوں کے ٹکڑوں کو ایک دوسرے سے ملاتی ہیں اور باہم پیوند کرتی ہیں اور انھیں بارش کے لئے تیا ر کرتی ہیں ۔
بعض معاصرین اس آیت کو ہواوٴں کے ذریعے نباتات کی تلقیح اور گردافشانی کے لئے اشارہ قرار دیا ہے او ر اس طرح ایک سائنسی مسئلے کے حوالے سے اس کی تفسیر کی ہے کہ جو نزو ل قرآن کے زمانے میں انسانی معاشرے میں محل توجہ نہ تھا اس طرح انہوں نے اسے قرآن کے اعجاز علمی کے دلائل میں سے شمار کیا ہے لیکن اس حقیقت کو قبول کرنے باوجود کہ ہواوٴں کا چلنا نر نباتات کے نطفے کو مادہ نباتات تک پہنچانے اور انھیں بار آور کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے ، مندرجہ بالا آیت کو اس طرف اشارہ قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ اس لفظ کے فوراً بعد آسمان سے نزول باران کا ذکر ( وہ بھی فاء تفریع کے ساتھ )آیا ہے جو نشاندہی کرتا ہے کہ ہواوٴں کا تلقیح کرنا بارش برسنے کی تمہید ہے ۔
بہر حال مذکورہ بالا تعبیر بادلوں اور اس سے بارش پیدا ہونے کے لئے خوبصورت ترین تعبیر ہے ہو سکتا ہے کہ کہا جائے کہ بادلوں کو ماں باپ سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ جو ہواوٴںمدد سے ملاپ کرتے ہیں اور بار آورہوتے ہیں ، او ر اپنی اولاد یعنی بارش کے دانوں کو زمین پر رکھتے ہیں ۔
وَمَا اٴَنْتُمْ لَہُ بِخَازِنِینَ ( تم ان پانیوں کی حفاظت اور ذخیرہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے ) ممکن ہے یہ جملہ آب باران کو نزول سے پہلے ذخیرہ کرنے کی طرف اشارہ ہو یعنی ان بادلوں پر تمہارا بس نہیں کہ جو بارش کے اصلی منبع ہیں ، نیز مکن ہے نزول باران کے بعد ذخیرہ کرنے کی طرف اشارہ ہو  یعنی تم میں یہ طاقت نہیں کہ نزول باران کے بعد زیادہ مقدار میں پانی جمع اور محفوظ رکھ سکو ، یہ خدا ہے جو اسے پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف کی صورت میں منجمد کرکے یا زمین کی گہرائیوں میں بھیج کر محفوظ کرلیتا ہے جو بعد میں چشموں ، ند یوں اور کنووٴں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ۔
مباحث توحید کے بعد معاد و قیامت اور اس کے مقدمات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے ہم ہیں جو زندہ کر تے ہیں اور ہم ہیں جو مارتے ہیں ( وَإِنَّا لَنَحْنُ نُحْیِ وَنُمِیتُ وَنَحْنُ الْوَارِثُونَ) ۔
یہ حیات و موت کے مسئلے کی طرف اشارہ ہے جو در حقیقت اہم ترین اور قطعی ترین مسائل میں سے ہے یہ مسئلہ معاد کی بحث کے لئے تمہید بھی بن سکتا ہے اور توحید کی بحث کا نقطہ تکمیل بھی ۔ کیونکہ ظہور حیات عالم ہستی کے عجیب ترین مسائل میں سے ہے اور اس مظہر کی تحقیق اور اس کا مطالعہ ہمیں خالق ِ حیات سے اچھی طرح آشنا کرسکتا ہے ۔ اصولی طو ر پر موت اور حیات کا نظام بے پایا ں قدرت و علم کے بغیر ممکن نہیں ۔ دوسری طرف موت و حیات کا وجود خود اس امر کی دلیل ہے کہ اس عالم موجودات خود سے کچھ نہیں رکھتے اور جو کچھ رکھتے ہیں وہ کسی اور کی طرف ہے اور آخر کار ان سب کا واث اللہ ہے ۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے : ہم ان کے گذشتگان اورآنے والوں کو جانتے ہیں ( وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِینَ مِنْکُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَاٴْخِرِینَ) ۔
لہٰذاوہ خود بھی اور اس کے اعمال بھی ہمارے علم کے سامنے واضح اور آشکار ہیں اور اس لحاظ سے معاد و قیامت اور ان کے اعمال کا حساب و کتاب پوری طرح ہمارے سامنے ہے ۔
اس بناء اس گفتگو کے فوراً بعد فرمایا گیا ہے:یقینا تیرا پروردگا ر ان سب کو قیامت میں ایک نئی زندگی کی طرف پلٹائے گا اور انھیں جمع و محشور کرے گا ( وَإِنَّ رَبَّکَ ھُوَ یَحْشُرُھُمْ) ۔کیونکہ وہ حکیم بھی ہے اور علیم بھی ( إِنَّہُ حَکِیمٌ عَلِیمٌ ) ۔
اس کی” حکمت “کا تقاضا ہے کہ موت تمام چیزوں کا اختتام نہ بنے کیونکہ اگر زندگی اس جہاں کی انہیں چار دن کی حیات میں منحصر ہو تو آفرینش جہاں لغو اور بے معنی ہو جائے اور خدا وند کلیم سے بعید ہے کہ اس کی خلقت ایسی بے نتیجہ ہو لیکن اگر یہ آفرینش ایک لامتناہی حیات اور دائمی سیر و ملوک کی تیاری کے لئے مقدمہ ہے ہوگی یا دو لفظو میں ابدی اور جاوداں زندگی کے لئے تمہید ہوتو ایک مکمل مفہوم و معنی کی حامل ہو گی اور اس کی حکمت سے ہم آہنگ ہوگی اس لئے کہ کلیم کوئی کام بے حساب و کتاب نہیں کرتااور اس کا علیم ہونا سبب بنتا ہے کہ معاد و حشر کے معاملے میں کوئی مشکل پیدا نہ ہو ہ ذرہ خاکی جو کسی بھی انسان کاکسی گوشے میں جاپڑاہے وہ اسے جمع کرے گا اور اسے نئی حیات بخشے گا ۔ دوسری طرف سب کے اعمال کا دفتراس جہان طبیعت کے دلمیں بھی ثبت ہے اور انسانوں کے قلب و روح میں بھی اور وہ ان سب سے آگاہ ہے ۔
اس بناء پر خدا کا علیم و حکیم ہونا حشر و نش او معاد و قیامت پر جچی تلی اور پر مغز دلیل شمار ہوتا ہے ۔

سوره حجر / آیه 22 - 25 متقدمین او ر متاخرین کون ہیں ؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma