بہشت کی آٹھ نعمتیں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 11
سوره حجر / آیه 45 - 50 ۱۔ بہشت کے باغ اور چشمے

بہشت کی آٹھ نعمتیں

 


گذشتہ آیات میں ہم نے دیکھا ہے کہ خدا نے کس طرح تفصیل سے شیطان اور اس کے ساتھیوں ، ہمجولیوں اور پیرو کاروں کا نتیجہ کار بیان کیا ہے اور ان کے سامنے جہنم کے سات دروازے کھولے ہیں ۔
قرآن کی روش ہے کہ وہ موازنہ پیش کرکے تعلیم و تربیت کے لئے استفادہ کرتا ہے اسی روش کے مطابق ان آیات میں بہشت، اہل بہشت ،مادی او ر معنوی نعمات او ر جسمانی و روحانی عنایات کے بارے میں گفتگو ہے ۔ درحقیقت ان آیات میں آٹھ عظیم مادی اور معنوی نعمات کا تذکرہ بہشت کے در وازوں کی تعدا د کے مطابق آیا ہے ۔
۱۔ پہلے ایک عظیم مادی نعمت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : پر ہیزگار بہشت کے سرسبز باغوں میں ٹھنڈے میٹھے پانی کے چشموں کے کنارے ہوں گے ( إِنَّ الْمُتَّقِینَ فِی جَنَّاتٍ وَعُیُون) ۔
یہ امر جاذب نظر ہے کہ یہاں تمام صفات میں سے صرف ”تقویٰ“ کا ذکر کیا گیا ہے ، وہی تقویٰ ، پر ہیز گاری تعہد اور مسئولیت کہ جس میں تمام عمدہ انسانی صفات جمع ہیں ۔
جنت وعیون “ کا صیغہ جمع کے ساتھ ذکر ہوا ہے یہ طرح طرح کے باغات ، فراوان چشموں اور گوناگوں بہشتوں کی طرف اشارہ ہے کہ جن میں سے ہر ایک کا ایک نیا لطف اور خا ص خصوصیت ہے ۔
۲۔۳۔ اس کے بعد دو اہم معنوی نعمات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور وہ ہیں ”سلامتی “ اور ”امن “۔ ہر قسم کے رنج و ناراحتی اور تکلیف سے سلامتی اور ہر قسم کے خطرے سے امن و امان ۔ ار شاد ہوتا ہے کہ اللہ کے فرشتے انھیں خوش آمدید کہتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان باغوں میں کامل سلامتی اور امن کے ساتھ داخل ہوجاوٴ( ادْخُلُوھَا بِسَلَامٍ آمِنِینَ) ۔

بعد والی آیت میں تین اور معنوی نعمات کو صراحت سے بیان کیا گیا ہے ۔
۴۔ ہم ان کے سینوں سے ہر قسم کا حسد کینہ ، عداوت او ر خیانت دھودیں گے اور ایسی آلائشیں ان سے دور کردیں گے (وَنَزَعْنَا مَا فِی صُدُورِھِمْ مِنْ غِلّ)۱
۵۔ اور وہ یوںہوں گے جیسے سب آپس میں بھائی بھائی ہیں ،اور ان کے درمیان محبت کا قریبی تعلق کار فرما ہے ( إِخْوَانًا) ۔
۶۔اس حالت میں کہ وہ ایک دوسرے کے سامنے تختوں پر بیٹھے ہوں گے ( عَلَی سُرُرٍ مُتَقَابِلِینَ) ۔۲
ان کی اجتماعی نشستیں اس کے دنیا کے تکلیف و تکلفات کی طرح نہیں ہیں ۔ ان مجلس میں کوئی اوپر اور کوئی نیچے ہے ۔اس دنیا کے المناک طبقاتی زندگی کا کوئی اصول وہاں نہیں ہے وہاں سب آپس میں بھائی ہیں سب ایک دوسرے کے آمنے سامنے اور ایک ہی صف میں ہیں ایسا نہیں کہ کوئی تو مجلس میں بالا نشیں ہے اور ددسرا جوتے اتارنے کی جگہ پر بیٹھا ہے ۔
البتہ یہ امر معنوی درجات مختلف ہونے کے منافی نہیں ہے یہ تو ان کی اجتماعی نشستوں سے مر بوط ہے ورنہ ہر ایک کا اپنے تقویٰ و ایمان کے لحاظ سے اپنا مقام ہے ۔
اس کے بعد ساتویں مادی اور معنوی نعمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرما یا گیا ہے انھیں ہر گز کوئی خستگی او ر تکان لاحق نہ ہو گی ( لاَیَمَسُّھُمْ فِیھَا نَصَبٌ ) ۔
جب کہ اس دنیا میں آرام کے ایک دن سے پہلے اور بعد کتنی مشکلات سے گز رنا پڑتا ہے کہ جن کا تصور انسان کے راحت و آرام کو درہم بر ہم کر دیتا ہے ایساوہاں نہیں ہے ۔
۸۔اسی طرح انھیں فنا اور نعمتوں کے ختم ہونے کا خیال بھی نہیں ستا تا کیونکہ ”وہ ہر گز ان پر مسرت نعمتوں بھرے ہوئے باغوں سے باہر نہیں نکلیں گے “(وَمَا ھُمْ مِنْھَا بِمُخْرَجِینَ) ۔
اب جبکہ بہشت کی فراوان اور دل انگیز نعمتوں کا موٴثر طریقے سے بیان ہوچکا اور یہ بتا یا جاچکا کہ وہ کاملاً متقین کے سپرد ہوں گیں تو اس بات کے پیش نظر کہ کہیں گنہ گار افراد ان غم و انداہ میں ڈوب کر نہ رہ جائیں کہ اے کاش ! ہم بھی ان نعمتوں کا تک پہنچ سکتے اس مقام پر رحمن و رحیم خدا بھی ان کے لئے بھی جنت کے در وازے کھولتا ہے مگر مشروط طور پر ۔
بہت محبت بھرے لہجے میں اور نوازشات کے نہایت اعلیٰ انداز میں اپنے پیغمبر کی طرف روئے سخن کرتے ہوئے کہتا ہے : اے نبی ! میرے بندوں کو آگاہ کردے کہ میں غفور و رحیم ہو ں ۔ گناہ بخشنے والا اور محبت سے معمو ر ہوں ( بَنیٴ عِبَادِی اٴَنِّی اٴَنَا الْغَفُورُ الرَّحِیمُ) ۔
عبادی “ (میرے بندے )یہ ایک لطیف تعبیر ہے کہ جو ہر انسان کو اشتیاق دلاتی ہے اور اس کے بعد خدا کی یہ توصیف کہ وہ بخشنے والا مہر بان ہے ۔ اس اشتیاق کو اوجِ کمال تک پہنچا دیتی ہے۔
لیکن قرآن چونکہ ہمیشہ رحمت الٰہی کے مظاہرے سے سوء استفادہ کو روکتا ہے لہٰذا اس کے ہلادینے والے جملوں کے ذریعے اس کے خشم و غضب کا ذکر ہے یہ اس لئے ہے کہ تاکہ خوف و رجا کے درمیان اعتدال بر قرار رہے کیونکہ یہ تکامل و ارتقاء اور تربیت کا راز ہے ۔ لہٰذا بغیر کسی فاصلے کے فرما یا گیا ہے : میرے بندوں سے یہ بھی کہہ دو کہ میرا عذاب دردناک ہے ( وَاٴَنَّ عَذَابِی ھُوَ الْعَذَابُ الْاٴَلِیمُ) ۔

 

۱۔”غل“ دراصل کسی چیز کے مخفیانہ نفوذ کے معنی میں ہے اسی لئے حسد ، کینہ اور دشمنی کو جو چپکے سے انسانی روح میں نفوذکرجاتے ہیں انہیں ”غل “ کہا جاتا ہے ۔ لہٰذا” غل“ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے کہ جس میں بہت سی بری اور خلاف ِ اخلاق صفات شامل ہیں ( مزید وضاحت کے لئے تفسیر نمونہ جلد سوم صفحہ ۱۱۸ ،اردو ترجمہ کے حاشیے کی طرف رجوع کریں ) ۔
۲۔”سرر“ ”سریر“ کی جمع ہے جو دراصل تخت، کرسی یا اس قسم کی کسی چیز کے معنی میں ہے کہ جس پر بیٹھتے ہیں اور خوشی کی محفلیں بر پا کرتے ہیں ( توجہ رہے کہ ”سرر“ او ”سرور“ ایک ہی مادہ سے ہیں ) ۔

سوره حجر / آیه 45 - 50 ۱۔ بہشت کے باغ اور چشمے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma