حکم ِ عذاب قریب ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 11
سوره نحل / آیه 1 - 2 سوره نحل/ آیه 3 - 8

حکم ِ عذاب قریب ہے ۔


جیسا کہ پہلے کہا چکا ہے کہ سورہ کی ابتدائی آیات کا اہم حصہ مکہ میں نازل ہوا ہے یہ وہ دن تھے جب پیغمبراسلام مشرکوں اور بت پرستوں کی طرف سے شدید الجھاوٴ اور سختی کا سامنا تھا ۔ ہر روز وہ آپ کی حیات آفریں اور آزادی بخش دعوت کے خلاف کوئی نیا بہانہ تراشتے ۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ جس وقت رسول اکرم انھیں عذاب الہٰی کی تہدید کرتے تو بعض ہٹ دھرم کہتے کہ اگر یہ عذا ب اور سزا جس کی دھمکی دیتے ہو سچ ہے تو پھر وہ ہم پر نازل کیوں نہیں ہوتا اور شاید کبھی مزید کہتے کہ اگر فرض کیا عذاب آیابھی تو ہم بتوں کا دامن تھا م لیں گے ۔ تاکہ وہ بارگاہ الہٰی میں سفارش کریں کہ وہ ہم سے عذاب اٹھالے کیا وہ اس کی بارگاہ کے شفیع نہیں ہیں ۔
اس سورہ کی پہلی آیت ان اوہام پر خط بطلان کھینچتے ہوئے کہتی ہے :جلدی نہ کرو ۔ مشرکوں اور مجرموں کی سزا کے بارے میں حکم الہٰی یقینا پہنچ چکا ہے (اٴَتَی اٴَمْرُ اللهِ فَلاَتَسْتَعْجِلُوہُ ) ۔اور اگر تمہارا خیال ہے کہ بت اس کی بارگاہ کے سفارشی ہیں تو تم سخت غلطی اور اشتباہ میں ۔ خدا اس سے منزہ اور بر تر ہے کہ جسے تم اس کا شریک بناتے ہو( سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی عَمَّا یُشْرِکُونَ) ۔
لہٰذا اس آیت میں” امر اللہ “مشرکین کے لئے عذاب کے بارے میں حکم خدا کی طرف اشارہ ہے اور لفظ ”اتٰی“ اگر چہ فعل ماضی ہے اور گذشتہ زمانے میںاس حکم کے تحقق کی نشاندہی کرتا ہے لیکن اس کا مفہوم مضارع ہے اور یہ اس طرف اشارہ ہے کہ یہ حکم یقینا اور قطعاً تحقق پذیر ہو گا ۔ ایسا قرآن میں کثرت سے ہے کہ قطعی الوقوع صیغہ مضارع ماضی کےساتھ ذکر ہوا ہے ۔
بعض مفسرین نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ”امر اللہ “ خود عذاب کی طرف اشار ہ ہے نہ کہ حکم عذب کی طرف ۔
بعض نے اس سے ”روز قیامت “مراد لیا ہے ۔
لیکن جو تفسیر ہم نے بیان کی ہے وہ زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے ۔
نیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی عذاب اور سزا کا فی دوافی بیان اور عادلانہ اتمام حجت کے بغیر نہیں ہے لہٰذا بعد والی آیت میں مزید فرمایاگیا ہے :خدا ملائکہ کو خدا ئی روح کے ساتھ حکم ِ الہٰی کے ہمراہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے نازل کرتا ہے( یُنَزِّلُ الْمَلاَئِکَةَ بِالرُّوحِ مِنْ اٴَمْرِہِ عَلَی مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ)
(”من امر “ من“ بے کے معنی میں ہے اور یہاں سببیت کے معنی دیتا ہے ) ۔
اور انھیں حکم دیتا ہے کہ لوگوں کو ڈراوٴ ، شرک و بت پرستی پر متنبہ کرو اور کہہو کہ میرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ( اٴَنْ اٴَنذِرُوا اٴَنَّہُ لاَإِلَہَ إِلاَّ اٴَنَا ) ۔لہٰذا صرف میری نافرمانی سے ڈرو اور میرے سامنے احساسِ ذمہ داری کرو(فَاتَّقُون) ۔
اس آیت میں روح سے کیا مراد ہے ؟اس سلسلے میں مفسرین میں بہت اختلاف ہے لیکن ظاہر یہ ہے کہ اس سے مراد وحی، قرآن اور نبوت ہے کہ جو انسانوں کی زندگی کا باعث ہے اگرچہ بعض مفسرین نے یہاں وحی کو قرآن سے اور دونوں کو نبوت سے جدا کیا ہے ،اور انھیں تین تفاسیر کی شکل میں بیان کیا ہے لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ سب ایک ہی حقیقت کی طرف لوٹتے ہیں ۔
بہر حال ”روح“ یہاں معنوی اور روحانی پہلو سے ہے اور ہر اس چیز کی طرف اشارہ ہے جو دلوں کی زندگی کا سبب ہیں اور نفوس کی تربیت اور عقلوں کی ہدایت کا باعث ہے جیسا کہ سورہ انفال کی آیہ ۲۴ میں ہے ۔
یا یھاالذین اٰمنوا استجیبوا اللہ و للرسول اذا دعا کم لما یحییکم
اے ایمان والو! خدا اور اس کے رسول کی دعوت قبول کرو ۔ جبکہ وہ تمہیں ایسی چیز کی طرف پکارتے ہیں جو تمہاری زندگی جا باعث ہے ۔
سورہ ٴ مومن کی آیت ۱۵ میں ہے :
یلقی الروح من امرہ علی من یشاء من عبادہ
وہ اپنے بندوںمیں سے جس پر چاہتا ہے اپنے حکم سے روح القاء کرتاہے ۔
نیز سورہٴ شوریٰ کی آیہ ۵۲ میں ہے ۔
وکذٰلک اوحینا الیک روحا من امر نا ماکنت تدری ماالکتاب و لاالایمان
اس طرح ہم نے اپنے حکم سے تجھ پر روح کو وحی کیا اس سے پہلے کتاب و ایمان سے آگاہ نہ تھا ۔
واضح ہے کہ ان آیات میں ”روح“ قرآن ، مضامین وحی اور فرمان ِنبوت کے معنی میں ہے اگر چہ روح قرآن کی دیگر آیات میں اور معانی بھی آیات ہے لیکن ان مذکورہ قرائن کی طرف توجہ کرتے ہوئے زیر بحث آیت میں روح کا مفہوم قرآن اورر مضمون وحی ہے ۔
اس نکتہ کا ذکر بھی بہت ضروری ہے کہ ” علیٰ من یشاء من عبادنا “ ( اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے )کاہرگز یہ مبلن نہیں کہ وحی و نبی کی نبوت بغیر کسی حساب کتاب کے ہے کیونکہ مشیت الہٰی کبھی اس کی حکمت سے جدا نہیں ہوتی اور حکیم ہونے کے تقاضا سے وہ یہ انعام اسے عطا کرتا ہے جواس کا اہل ہو ۔۔
ارشاد الہٰی ہے ۔
اللہ اعلم حیث یجعل رسالاتہ
خدا بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کہا ںقرار دے ( انعام ۱۲۴)
یہ نکتہ بھی نظر سے اوجھل نہ رہے کہ اگر انبیاء کے لئے پہلا فرمان الہٰی(ان انذروا“ ( ڈاراوٴ) ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک گمراہ اور آلوشرک وفساد قوم کو بیدا ر کرنے کےلئے انذار سے بڑھ کر موٴثر کوئی چیز نہیں  انذار بیدار کرنے والا ۔ آگاہ اور اور حرکت آفرین ۔
یہ ٹھیک ہے کہ انسان نفع کا طالب اور نقصان پسند نہیں کرتا لیکن تجربہ نشاندہی کرتا ہے کہ تشویق کا اثر آمادہ افراد پر زیادہ ہوتا ہے جب کہ آلودہ افراد پر یہ تہمت کا اثر بہت ہوتا ہے اور ابتدائے نبوت میں انذار اور ڈرانے وال امور ہونا چاہیئیں ۔

سوره نحل / آیه 1 - 2 سوره نحل/ آیه 3 - 8
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma