شیطان شہاب کے ذریعے کیسے ہانکے جاتے ہیں ؟

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 11
شیطان شہاب کے ذریعے ہانکے جاتے ہیںنتیجہٴ بحث

شیطان شہاب کے ذریعے کیسے ہانکے جاتے ہیں ؟
زیر نظر آخری آیت ان آیات میں سے ہے جس کے متعلق مفسرین نے بہت کچھ کہا ہے اور ہر ایک نے ایک خاص راستہ طے کیا ہے اور اسے ایک معین نتیجہ نکالا ہے ۔
چونکہ بعینہ یہی مضمون سورہٴ صافات ( آیہ ۶،۷) اور سورہٴ جن (آیہ ۹) میں آیا ہے اور یہ ایسے مسائل میں سے ہے کہ جس کے بارے میں ممکن ہے بے خبر افراد کچھ ایسے سوالات اٹھائیں جو جواب کے بغیر رہ جائیں لہٰذا ضروری ہے کہ پہلے بزرگ عظیم اسلامی مفسرین کی آراء پر ایک نگاہ ڈال لیں اور پھر جس رائے کو ہم ترجیح دیں اسے بیان کیا جائے ۔
۱۔ بعض مفسرین مثلاًتفسری فی ظلا ل کا مولف ان آیات اور اس قسم کی دیگر آیات سے برے آرام سے یہ کہہ کر گزرگئے ہیں کہ یہ ایسے حقائق ہیں جن ک اادراک ہمارے لئے ممکن نہیں ہے اور ضروری ہے کہ جو کچھ ہمارے حقیقی اعمال میں سے ہماری زندگی میں موٴثر ہے اسے اہمیت دیں ۔ لہٰذا انھوں نے ان آیات کی اجمالی سی تفسیر پر قناعت کرتے ہوئے اس مسئلے کی توضیح سے صرف ِ نظر کیا ہے ۔
تفسیر فی ظلا ل کا مولف لکھتا ہے :
شیطان کیا ہے وہ کس طرح اشترا ق سمع کرنا چاہتا ہے اور وہ کیا چرانا چاہتا ہے ؟
یہ سب چیزیں خدائی غیوب میں سے ہیں کہ نصوص کے ذریعے جن کی دست یابی نہی ہوسکتی اور ان کے بارے میں تحقیق و جستجو کاکوئی فائدہ نہیں کیونکہ اس سے ہمارے عقیدے میں کوئی آضافہ نہیں ہوتا ۔ اس کا اس کے سواکوئی فائدہ نہیں کہ فکر انسانی ایسی چیزمیں مشغول ہ وجاتی ہے جو اس کے ساتھ کوئی خاص ربط نہیں رکھتی اور اسے انسان اپنی زندگی میں حقیقی عمل انجام دینے سے رک جاتا ہے ۔ علاوہ ازیں ان کے بارے میں تحقیق سے کسی جدید حقیقت کے بارے میں ہمیں کوئی نیا ادراک نہیں ملتا 3
لیکن اس میںنہیں کہ قرآن ایک ایسی عظیم انسان ساز ، تربیت کنندہ اورحیات بخش کتب ہے کہ اگر کوئی چیز حیاتِ انسانی کے ساتھ ربط نہ رکھتی ہو تو وہ اس میں ہر گز نہ ہوگی ۔
یہ کتاب ساری کی ساری درس ہے  درسِ زندگی ہے علاوہ ازیں کوئی شخص اس بات کو قبول نہیں کر سکتا کہ قرآن میں ایسے حقائق ہوں کہ جنہیں معلوم نہ کیا جاسکتا ہو ، کیا قرآن نور کتاب ِ مبین نہیں ہے اور کیا یہ لوگوں کے فہم و تدبراور ہدایت کے لئے نازل نہیں ہوا ۔ تو کیسے ان آیات کو سمجھنا ہم سے ربط نہیں رکھتا ؟
بہر حال ان آیات اور ان جیسی آیات کے بارے میں یہ طرز اعتراض ہمیں پسند نہیں ہے ۔
۲۔ مفسرین کی ایک اہم جماعت خصوصاً متقدین مفسرین کا اصرار ہے کہ آیت کے ظاہری معنی کو پوری طرح محفوظ رکھا جائے ۔ ان کے نزدیک ”سماء “ اسی آسمان کی طرف اشارہ ہے اور ”شہاب“ اسی ”شہاب “ کی طرف اشارہ ہے یعنی وہی سرگرداں سنگریزے جو اس فضائے بیکراں میں گر دش کررہے ہیں اور کبھی کبھاروہ زمین کی قوت ثقل کی زد میں آجاتے ہیں تو زمین کی طرف کھنچ آتے ہیں ۔ہوا کی لہروں سے تیزی سے ٹکرانے کی بنا وہ سرخ اور شعلہ ور ہو جاتے ہیں اور خاکستر بن جاتے ہیں ۔
نیز” شیطان “ وہی خبیث، راندہ اور سر کش موجودات ہیں جو آسمانوں کی طرف جانا چاہتے ہیں اور ہمارے اس جہان کی کچھ خبریں کہ جو آسمان میں منعکس ہوتی ہیں انھیں استراق سمع سے ( مخفی طور پر کان لگا کر ) معلوم کرنا چاہتے ہیں ۔ لیکن شہاب تیروں کی طرح ان کی طرف آتے ہیں اور انھیں ایسا کرنے سے باز رکھتے ہیں ۔4
۳۔ مفسرین کی ایک اور جماعت نے ان آیات کی تعبیرات کو تشبیہ کنایہ اور امثال کے طور پر لیا ہے ۔ یعنی اصطلاحاًانھیں سمبالک(SYM BOLIC)سمجھا ہے ان مفسرین میں المیزان کے عالی قدر مفسر اور صاحب تفسیر الجواہرطنطاوی شامل ہیں ۔ ان مفسرین نے اس تشبیہ و کنایہ کو مختلف صورتوں میں بیان کیا ہے ۔
الف ۔تفسیر المیزان میں ہے :
مفسرین نے شیاطین کے استراق سمع اور شہاب کے ذریعے ان کے ہانکے جانے کے بارے میں جو مختلف توجیہات کی ہیں ایسی چیزپرمبنی ہیں جو کبھی کبھی ظاہر آیات وروایات سے ذہن میں آتی ہیں وہ یہ کہ افلاک زمین پر محیط ہیں ان میں فرشتوں کے مختلف گروہ موجود ہیں ہر گروہ کے لئے ان افلاک میں کئی دروازے ہیں کہ جن میں سے ان فرشتوں کے علاوہ کوئی نہیں آجا سکتا ۔ ان فرشتوں میں سے کچھ اپنے ہاتھ میں شہاب لئے ہوئے ہیں اور وہ استراق سمع کرنے والے شیاطین کی تاک ہیں کہ ان کے ذریعے ان کی سر کوبی کریں اور انھیں ہانکیں۔
حالانکہ آج کی دنیا میں واضح ہو چکا ہے کہ ایسے نظر یات بے بنیاد ہیں ایسے کوئی افلاک ہیں نہ دروازے اور نہ ہی ایسی اور چیزیں۔
جو کچھ یہاں بطور احتمال کہا جا سکتا ہے یہ ہے کہ ایسے بیانات کلام ِ الہٰی میں امثال کی طرح ہیں کہ جو غیر حسی حقائق واضح کرنے کے لئے حسی لباس میں ذکر ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ خدا فرماتا ہے :
و لک الامثال نضربھا للناس وما یعقلھا الا العالمون
(یہ امثال ہیں کہ جو ہم لوگون کے لئے بیان کرتے ہیںاور صاحبان ِ علم کے علاوہ انھیں کوئی نہیں سمجھ سکتا ۔ ( عنکبوت۴۳) ۔
ایسی مثالیں قرآن میں بہت زیادہ ہیں مثلاًعرش، کرسی ، لوح اور کتاب ۔
لہٰذا آسمان کہ جو فرشتوں کا مسکن ہے سے مراد ایک عالم ِ ملکوتی ہے جو عالم طبیعت سے ماوراء ہے کہ جو اس جہانِ محسوس سے برتر و بالاتر ہے اور اس آسمان کی باتیں چوری چھپے سننے کے لئے شیطانوں کے قریب ہونے اور ان کی طرف شہاب پھینکے جانے سے مراد ہے کہ وہچاہتے ہیں کہ عالم ِ ملائکہ قریب ہوں تاکہ اسرار خلقت اور حوادث آئندہ کے بارے میں آگاہی حاصل کریں لیکن وہ ملائکہ معنوی و ملکوتی انوا سے شیطانوں کو ہانکتے ہیں ۔کیونکہ ان انوارکو بر داشت کرنے کی وہ تاب نہیں رکھتے5
ب:طنطاوی اپنی مشہو ر تفسیر میں لکھتا ہے :۔
ایسے علماء جو حیلہ گر اور ریا کار ہیں اور عام لوگ جو ان کی پیروری کرتے ہیں یہ اہلیت نہیں رکھتے کہ آسمانوں کی عجائب، عالم بالا کی شگفیاں ، اس کے بے کراں کرات اور ان پر حکم فرماں نظم و حساب سے آگاہ ہوں  خدا نے انھیں اس علم دانش سے محروم رکھا ہے اور ستاروں بھرے ،خوبصورت اور مززین ازآسمان کے تمام اسرار ان کے افراد کے اختیار میں دئیے ہیں جو عقل و ہوش اور اخلاص و ایمان رکھتے ہیں ۔
فطری او رطبیعی ہے کہ پہلا گروہ اس آسمان کے اسرار میں نفوذ سے روک دیا جاتا ہے اور درگاہ الٰہی سے دھتکار ا ہوا شیطان چاہے نوع بشر سے ہو یا غیر بشر سے ، ان حقائق تک رسائی کا حق نہیں رکھتا اور جس وقت وہ ان کے نزدیک ہوتا ہے تو دھتکار دیا جا ہے ۔
ایسے افراد ممکن ہے بہت سال جئےں اور مر جائیں مگر ان اسرار تک ہر گز نہیں پہنچ پاتے ۔ ان کی آنکھیں کھلی تو ہوتیں ہیں لیکن حقایق دیکھنے کی تاب نہیں رکھتیں۔
کی ایسا نہیں کہ اس کا علم اس کے عاشقوں کے سوا کسی کو نہیں ملتا اور اس کے جمال کا نظار ہ اس کے عارفوں کے سواکوئی نہیں کرسکتا ۔ 6
اس میں کیا مانع ہے کہ یہ تعبیرات کنایہ ہوں ، منع حسی منع عقلی کی طرف اشارہ ہوجبکہ کنایہ بلاغت کی بہترین انواع میں سے ہے ۔
کیا ہم دیکھتے نہیں کہ بہت سے لوگ جو ہمارے آس پاس زندگی کزار تے ہیں وہ اس زمین کے حدود اربعہ میںمحبوس اور قید ہیں ان کی آنکھ کبھی جہان وبلا کی طرف نہیں اٹھتی اور وہ صدائے بالا پر کان نہیں دھرتے اور ا س جہان کے امور اور عجائبات کی انھیں کوئی خبر نہیں وہ خود خواہی ، شہوت ، کینہ وری، طمع و حرص اور خانماںن ساز شہاب کے ذریعے ان اعلی ٰ معانی کے ادراک سے ہانکے گئے ہیں (اور اگر کسی روز وہ ایسی خواہش ظاہر کریں تو اپنے قلب وروح کی ان آلودگیوں کے باعث وہ ہانکے جائیں گے 7
ج:۔ایک او رمقام پر اس نے جو گفتگو کی ہے اس کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے :
جس وقت انسانوں کی ارواح اس دنیا سے جہان برزخ کی طرف منتقل ہوتی ہیں ان کا زندوں کی روح کے ساتھ تعلق او ارتباط ہوتا ہے او رجہاں ان کے درمیان مناسبت او میلان ہواور وہ احضار ارواح وغیرہ کے ذریعے ان سے ارتباط اور تفاہم بر قرار رکھ سکیں تو کچھ مسائل ان کے اختیار میں دئے جاتے ہیں جو بعض اوقات حق او ر بعض اوقات باطل ہوتے ہیں کیونکہ وہ عوالم اعلیٰ تک رسائی نہیں کرسکتے بلکہ ان کی رسائی صرف نچلے عوالم تک ہوسکتی ہے ، مثلاًجسے مچھلی اپنے محیط سے باہر نکل کر ہوا میں پرواز نہیں کر سکتی ، وہ بھی طاقت رکھتے کہ اپنے جہان کے حدود اربعہ سے نکل کر بالاتر چلے جائیں ۔
د:بعض دوسرے کہتے ہیں جدید سائنسی انکشافات نشاندہی کرتے ہیں کہ بہت دور کی فضا سے طاقتور ریڈلہروں کا ایک سلسلہ جاری ہے انھی کرہ زمین میں ریڈیائی پیغامات وصول کرنے والے مخصوص مرکزکے لئے اخذ کیا جا سکتا ہے ۔ کسی شخص کو معلوم نہیں کہ ان انتہائی طاقتورلہروں کا سرچشمہ کہاں ہے ۔
بعض سائنسداں کہتے ہیں کہ قوی احتمال ہے کہ دور کے آسمانی کروںمیں بہت سی زندہ موجودات کہ جوتمدن کے لحاظ سے ہم سے بہت زیادہ ترقی یافتہ ہیں لہٰذا وہ چاہتی ہیں کہ اپنی خبریں اس دنیا تک پہنچائیں ان خبروں میں ایسے مسائل بھی موجود ہیں جو ہمارے لئے نئے ہیں اور موجودات کہ جنھیں دیو اورپری کہتے ہیں کوشش کرتے ہیں کہ ان لہروں سے فائدہ اٹھائیں لیکن طاقتور شعائیں انھیں دور پھینک دیتی ہیں 8

 

3۔ تفسیر فی ظلال ج۵ ص ۳۹۶۔
4۔فخر رازی نے اپنی تفسیر کبیر اور آلوسی نے روح المعانی میں اس تفسیر کا ذکر کرنے کے بعد ہیئت قدیمہ کے حوالے سے پیدا ہونے والے مختلف اشکالات کے جواب بھی دئیے ہیں اور کہا ہے کہ آج کی ہیئت کی طرف توجہ کرتے ہوئے افلاک کا پیاز کے چھلکوں کی طرح ہونے کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
5۔المیزان ج۱۷ص۱۳۰۔ سورہ صافات کی آیات کے ذیل میں ۔
6۔تفسیر طنتاوی ،ج۸ ص۱۱۔
7۔تفسیر طنطاوی ،ج۱۸ ص ۱۰
8تفسیر قرآن بر فرا زاعصار۔مولفہ ع نوفل صفحہ ۲۵۸۔
شیطان شہاب کے ذریعے ہانکے جاتے ہیںنتیجہٴ بحث
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma