فرعون والوں کا دردناک انجام

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 15
سوره شعراء / آیه 60 - 68۱۔ بنی اسرائیل کی گذرگاہ

ان آخری آیات میں حضرت موسیٰ علیہ اسلام اور فرعون کی داستان کا آخری حصہ پیش کیا گیا ہے کہ فرعون اور فرعون والے کیونکر غرق ہوئے اور بنی اسرائیل نے کس طرح نجات پائی؟جیسا کہ ہم گزشتہ آیات میں پڑھ چکے ہیں کہ فرعون نے اپنے کارندوں کو مصر کے مختلف شہروں میں بھیج دیا تاکہ وہ بڑی تعداد میں لشکر اور افرادی قوت جمع کر سکیں چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا اور بعض مفسرین کی تصریح کے مطابق فرعون نے چھ لاکھ کا لشکر مقدمة الجیش کی سورت میں بھیج دیا اور خود دس لاکھ کے لشکر کے ساتھ ان کے پیچھے پیچھے چل دیا۔
ساری رات بری تیزی کے ساتھ چلتے رہے اور طلوع آفتاب کے ساتھ ہیں انھو نے موسیعلیہ اسلام کے لشکر کو جالیا چنانچہ اس سلسلے کی پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے ؛ فرعون والوں نے ان تعاقب کیا اور طلوعِ آفتاب کے وقت انھیں جالیا ( فَاٴَتْبَعُوہُمْ مُشْرِقِینَ )(1) ۔
جب دونوں گروہوں کا آمنا سامنا ہوا تو موسیٰ علیہ اسلام کے ساتھی کہنے لگے اب تو ہم فرعون والوں کے نرغے میں آگئے ہیں اور بچ نکلنے کی کوئی راہ نظر نہیں آتی(فَلَمَّا تَرَائَی الْجَمْعَانِ قَالَ اٴَصْحَابُ مُوسَی إِنَّا لَمُدْرَکُونَ )۔
ہمارے سامنے دریا اور اس کی ٹھا ٹھیں مارتی موجیں ہیں ، ہمارے پیچھے خونخوار مسلح لشکر کا ٹھاتھیں مارتا سمندر ہے لشکر بھی ایسے لوگوں کا ہے جو ہم سے سخت ناراض اور غصے سے بھرے ہوئے ہیں جنھوں نے اپنی خونخواری کا ثبوت ایک طویل عرصے تک ہمارے معصوم بچوں کو قتل کر کے دیا ہے اور خود فرعون بھی بہت بڑا مغرور، ظالم اور خونخوار شخص ہے لہٰذا وہ فوراً ہمارا محاصرہ کر کے ہمیں موت کے گھاٹ اتار دیں گے یا قیدی بنا کر تشدد کے ذریعے ہمیں واپس لے جائیں گے ۔ قرائن سے بھی ایسا ہی معلوم ہو رہا تھا ۔
اس مقام پر بنی اسرائیل پر کرب کی حالت طاری ہو گئی اور ان کا ایک ایک لمحہ کرب و اضطراب میں گزرنے لگا یہ لمحات ان کے لئے زبر دست تلخ تھے شاید بہت سے لوگوں کو ایمان بھی متزلزل ہو چکا تھا او ربڑی حد تک ان کے حوصلے پست ہو چکے تھے ۔
لیکن جناب موسیٰ علیہ اسلام علیہ السلام حسب سابق نہایت ہی مطمئن اور پر سکون تھے انھیں یقین تھا کہ بنی اسرائیل کی نجات اور سرکش فرعونیوں کی تباہی کے بارے میں خدا کا فیصلہ اٹل ہے اور وعدہ یقینی ہے ۔
لہٰذا انھوں نے مکمل اطمینان اور بھر پور اعتماد کے ساتھ بنی اسرائیل کی وحشت زدہ قوم کی طرف منہ کرکے کہا: ایسی کوئی بات نہیں وہ ہم پر کبھی غالب نہیں آسکیں گے کیونکہ میرا خدا میرے ساتھ ہے اور وہ بہت جلد ہی مجھے ہدایت کرے گا (قَالَ کَلاَّ إِنَّ مَعِی رَبِّی سَیَھْدِینِی )۔
ممکن ہے اس طرح کی تعبیر اس وعدہ کی طرف اشارہ ہو جو خدا وند ِعالم نے موسیٰ علیہ اسلام اور ہارون علیہ اسلام سے حکم ِ تبلیغ دیتے ہوئے کیا تھا :” اننی معکما اسمع و ارٰی “
میں ہر جگہ پر تم دونوں کے ساتھ ہوں ، میں سنتا بھی ہوں اور دیکھتا بھی ہوں (طٰہٰ ۴۶)۔
موسیٰ علیہ السلام کو علم تھا کہ خداہر جگہ ان کے ساتھ ہے خا ص کر ” رب“( یعنی خدا وند مالک و مصلح) کے نام پر بھروسہ اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ انھیں اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ جو بھی راستہ طے کر رہے ہیں اپنے پاوٴں کے ساتھ چل کر نہیں بلکہ خدا وند قادر و مہر بان کے لطف و کرم کے ساتھ طے کر رہے ہیں ۔
اس موقع پر شاید بعض لوگوں نے موسیٰ علیہ اسلام کی باتوں کو سن لیا لیکن انھیں پھر بھی یقین نہیں آرہا تھا اور وہ اسی طرح زندگی کے آخری لمحات کے انتظار میں تھے کہ خدا کا آخری حکم صادر ہو ا، قرآن کہتا ہے : ہم نے فورا ً موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ اپنے عصا کو دریا پر مارو(فَاٴَوْحَیْنَا إِلَی مُوسَی اٴَنْ اضْرِبْ بِعَصَاکَ الْبَحْرَ )۔
وہی عصا جو ایک دن تو ڈرانے کی علامت تھا اور آج رحمت و نجات کی نشانی۔
موسیٰ علیہ اسلام نے تعمیل حکم کی اور عصاکو فورا ً زمین پر دے مارا تو اچانک ایک عجیب و غریب منظر دیکھنے میں آیا جس سے بنی اسرائیل کی آنکھیں چمک اٹھیں اور انکے دلوں میں مسر ت کی ایک لہر دوڑ گئی ، ناگہانی طور پر دریا پھٹ گیا ، پانی کے کئی ٹکڑے بن گئے اور ہر ٹکڑا ایک عظیم پہاڑ کی مانند بن گیا اور ان کے درمیان میں راستے بن گئے (فَانفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیمِ )۔
”انفلق “ ”فلق“(بر وزن”فرق“) کے مادہ سے ہے جس کا معنیٰ ہے پھٹ جانا اور ”فِرق“ کے درمیان یہ فرق ہے کہ پہلا لفظ پھٹ جانے کی طرف اشارہ ہے اور دوسرا جدا ہونے کی طرف ۔ لہٰذا فرقہ اور فرق اس ٹولے یا گروہ کو کہتے ہیں جو باقیوں سے جدا ہو جائے ۔
”طود“ کا معنیٰ بہت بڑا پہاڑہے اور آیت ِ زیر بحث میں ”طود“ کی صفت کا ” عظیم“ ہو نا اس معنیٰ کی تاکید پر دلالت کرتا ہے ۔
بہر حال جس کا فرمان ہر چیز پر جاری اور نافذ ہے کہ اگر پانی میں طغیانی آتی ہے تو اس کے حکم سے اور اگر طوفان میں حرکت آتی ہے تو اس کے امر سے ، وہ خدا کہ : نقش ِ ہستی از ایوان اوست آب و بادو خاک سر گردان اوست
اسی نے دریا کی موجوں کو حکم دیا اور مواجِ دریا نے اس حکم کو فوراً قبول کیا اور ایک دوسرے پر جمع ہو گئیں اور ان کے درمیان کئی راستے بن گئے اور بنی اسرائیل کے ہر گروہ نے ایک ایک راستہ اختیار کرلیا۔
فرعون اور اس کے ساتھ یہ منظر دیکھ کر حیران و ششدر رہ گئے، اس قدر واضح اور آشکار معجزہ دیکھنے کے باوجود تکبر اور غرور کی سواری سے نہیں اترے انھوں نے موسیٰ علیہ اسلام اور بنی اسرائیل کا تعاقب جاری رکھا اور اپنے آخری انجام کی طرف آگے بڑھتے رہے جیسا کہ قرآن فرماتا ہے : اور وہاں پر دوسرے لوگوں کو بھی ہم نے دریا کے نزدیک کردیا( وَاٴَزْلَفْنَا ثَمَّ الْآخَرِینَ )۔
اس طرح سے فرعونی لشکر بھی دریائی راستوں پر چل پڑے اور وہ لوگ اپنے ان پرانے غلاموں کے پیچھے دوڑتے رہے جنھوں نے اب ا س غلامی کی زنجیریں توڑدی تھیں لیکن انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ ان کی زندگی کے آخری لمحات ہیں اور ابھی ابھی عذاب کا حکم جاری ہونے والا ہے ۔
بعد والی آیت کہتی ہے : ہم نے موسیٰ اور ان تمام لوگوں کو نجات دی جو ان کے ساتھ تھے ( وَاٴَنْجَیْنَا مُوسَی وَمَنْ مَعَہُ اٴَجْمَعِینَ )۔
ٹھیک اس وقت جب بنی اسرائیل کا آخری فرد دریا سے نکل رہا تھا اور فرعونی لشکر کا آخری فرد اس میں داخل ہو رہا تھا ہم نے پانی کو حکم دیا کہ اپنی پہلی حالت پر لوٹ آ۔ اچانک موجیں ٹھاٹھیں مارنے لگیں اور فرعون اس کے لشکر کو گھاس پھونس اور تنکوں کی طرح بہاکر لے گئیں اور صفحہ ہستی سے ان کا نام و نشان تک مٹا دیا ۔
قرآن نے ایک مختصر سی عبارت کے ساتھ یہ ماجرا یوں بیان کیا ہے :پھر ہم نے دوسروں کو غرق کردیا ( ثُمَّ اٴَغْرَقْنَا الْآخَرِینَ)۔
تو اس طرح سے سب کچھ ایک لمحے میں ختم ہو گیا قیدی غلام آزاد ہو گئے ۔ مغرور ظالم لوگ پھنس کر تباہ و بر باد ہو گئے ۔تاریخ کا ورق الٹ گیا ۔ چکا چوند کرنے والا تمدن صفحہٴ عالم سے حرفِ غلط کی طرح مٹ گیاوہی تمدن جس کی بنیاد مستضعف لوگوں کے گھروں کو اجاڑ کر رکھی گئی تھی ،مستکبرین کا دور ختم ہو گیا اور مستتضعفین عالم ان کی املاک اور حکومت کے وارث بن گئے ۔
تو جناب ” اس واقعے میں روشن نشانی اورعبرت کا درسِ عظیم ہے لیکن ان میں سے اکثر لوگ ایمان نہیں لائے “ گویا ان کی آنکھیں، کان بہرے اور دل خواب غفلت مین سوئے ہوئے ہیں ( إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَةً وَمَا کَانَ اٴَکْثَرُھُمْ مُؤْمِنِین)۔
جہان فرعون اور فرعون کے ساتھی یہ عجیب و غریب منظر دیکھ کر ایمان نہیں لائے تو آپ بھی(اے پیغمبر !)اس مشرک قوم پر تعجب نہ کریں اور ان کے ایمان نہ لانے پر پریشان نہ ہو ں کیونکہ اس قسم کے بہت سے مناظر تاریخ کے سینے میں محفوظ ہیں۔
”اکثر“ کی تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ فرعون کی قوم سے کچھ لوگوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا دین قبول کرلیا تھا اور ان کے ساتھیوں میں شامل ہو گئے تھے ، نہ صرف فرعون کی بیوی آسیہ اور موسیٰ علیہ اسلام کے با وفا دوست جسے قرآن نے ” مومن آلِ فرعون “ کے عنوان سے یاد کیا ہے بلکہ جادو گر وں کی طرح بہت سے لوگ بھی توبہ کرکے حضرت موسیٰ علیہ اسلام سے آملے تھے ۔
اس سلسلے کی آخری آیت ایک مختصر لیکن معنی سے بھر پور جملے میں خدا کی بے پناہ قدرت اور رحمت کی طرف اشارہ کر کے کہتی ہے :تمہارا پر وردگار عزیز بھی ہے اور رحیم بھی ( وَإِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیزُ الرَّحِیمُ )۔
یہ اس کی ”عزت“ ( غلبے) کا کرشمہ ہی تو ہے کہ جب چاہے باغی اور منحرف قوموں کی نابودی کا حکم صادر کردیتا ہے اور کسی ظالم و جابر قوم کی تباہی کے لئے اسے اس بات کی ضرورت نہیں کہ آسمان سے فرشتوں کے لشکرنازل کرے بلکہ جو پانی اس قوم کی زندگی کا سر مایہ ہوتا ہے اسے انہی لوگوں کی موت کاحکم دیتا ہے اور جو دریائے نیل فرعون اور اس کی قوم کا سرمایہ قدرت اور سبب ِ ثروت ہو وہی ان کا قبر ستان بن جاتا ہے ۔
اس کی رحمت یہ ہے کہ وہ ایسے کام میں ہر گز جلدی نہیں کرتا بلکہ کئی کئی سال تک ڈھیل دیتا ہے معجزے دکھاتا اور اتمام حجت کرتا اور یہ بھی اس کی رحمت ہےکہ اس قسم کی ستم رسیدہ قوم کو اس طرح کے خود سر اور سرکش حکمرانوں کی غلامی سے نجات بخشتا ہے ۔
 1۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ ” مشرقین “ سے مراد بنی اسرائیل کا مشرق کی جانب سفرتھا اور فرعون کا لشکر بھی اسی سمت چلتا رہا کیونکہ ”بیت المقدس“ کی سر زمین مصر سے مشرق کی طرف ہے ۔
سوره شعراء / آیه 60 - 68۱۔ بنی اسرائیل کی گذرگاہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma