خدا کے خاص بندوں کے صفات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 15
سوره فرقان / آیه 63 - 67۱۔ مومنین کی رفتار

ان آیات کے بعد ” عباد الرحمن “ کے عنوان کے تحت خدا وند عالم کے خاص بندوں کی خاص خاص صفات کے بارے میں دلچسپ اور جامع گفتگو کی جارہی ہے ، جو در حقیقت گزشتہ آیات کی تکمیل کررہی ہے کہ جب ہٹ دھرم مشرکین کے سامنے خدا وند رحمن کا نام لیا جاتا تو وہ تمسخر اور استہزاء کے طور پر کہتے کہ ” رحمن کیا چیز ہے “؟اور ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ قرآن مجید نے دو آیات میں انھیں خدا وند رحمن کا تعارف کروایاہے ۔
اس مقام پر خدا وند رحمن کے خاص بندوں کا ذکر ہے اور رحمن کے ان خاص بندوں کا تعارف کروایا جا رہا ہے اورجب اس کے بندے اس قدر عالم اور با عظمت مقام کے مالک ہیں تو خدا ئے رحمن کس قدر عظمت کا مالک ہو گا؟اس طرح سے اس کی عظمت کو بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے ۔
یہ آیات ان کی بارہ صفات بیان کررہی ہیں جن میں سے کچھ کا تعلق تو عقائد سے ہے اور کچھ کا اخلاق سے ۔ بعض کا تعلق معاشرتی صفات سے ہے اور بعض کا انفرادی سے ۔ غرضیکہ مجموعی طور پر وہ اعلیٰ انسا نی خصوصیات کا پیکر ہیں ۔
پہلے فرمایا گیا ہے :خدا کے خاص بندے وہ ہیں جو آرام سے اورتکبر کے بغیر زمین پرچلتے ہیں ( وَعِبَادُ الرَّحْمَانِ الَّذِینَ یَمْشُونَ عَلَی الْاٴَرْضِ ھَوْنًا)(1) ۔
”عباد الرحمن “ کی یہ جو سب سے پہلی صفت بیان کی گئی ہے در حقیقت وہ انسان کے تمام اعمال و کردار میں تکبر ، غرور اور خود خواہی کی نفی ہے ۔حتی ٰکہ زمین پرچلنے والے میں بھی یہ ناپسند یدہ صفات ان سے ظاہر نہیں ہوتیں۔ کیونکہ اخلاقی صفات خود بخود انسان کے اعمال ، گفتار اور حرکات سے ظاہر ہو جاتی ہیں یہاں تک کہ کسی شخص کی چال ڈھال سے اس کی بہت سی اخلاقی صفات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
جی ہاں ! وہ متواضع ہیں اور تواضع و انکساری ایمان کی چابی ہے جبکہ غرور اورتکبر کفر کی چابی ہوتی ہے ہم نے روز مرہ کی زندگی میں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور قرآنی آیات میں متعدد بار پڑھا ہے کہ مغرور اور متکبر لوگ اس بات کے بھی روادار نہیں تھے کہ خدائی رہبر وں کی باتوں کو سن ہی لیں وہ حقائق کامنہ چڑا کر ان کا تمسخر اڑاتے ۔ جو لوگ صرف خود کو دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں ان کے لئے ایمان لانا ممکن نہیں ۔
لیکن یہ خدا ئے رحمن کے مومن بندے ہیں ہیں جن کی بندگی کی سب سے پہلی علامت تواضع اور فروتنی ہے وہ اس قدر متواضع ہیں کہ تواضع ان کے بدن کے ہر حصے میں رچ بس چکی ہے یہاں تک کہ ان کے چلنے پھر نے میں بھی انکساری پائی جاتی ہے ۔
اگر ہم دیکھتے ہیں کہ خدا وند عالم ذیل کا اہم حکم اپنے پیغمبر کو دیتا ہے تو صرف اس لئے کہ تواضع ایمان کی جان ہے ۔
چنانچہ فرماتاہے :
لاتمش فی الارض مرحاً انّک لن تخرق الارض ولن تبلغ الجبال طولاً

زمین پر اکڑ کر اور غرور و تکبر کے ساتھ مت چلو کیونکہ نہ تو زمین کو تم شگافتہ کرسکتے ہو اور نہ ہی تمہارے قد کی لمبائی پہاڑوں تک پہنچ سکتی ہے ۔(بنی سرائیل۔۳۷)
حقیقت یہ ہے کہ اگر انسان اپنے اور کائنات کے بارے میں تھوڑی سی بھی معلومات رکھتا ہوتو اسے معلوم ہوگا کہ وہ اس قدر عظیم کائنات کے مقابلے میں کس قدر حقیر اورناچیز ہے ؟حتی کہ اگر اس کی گردن پہاڑوں جتنی اونچی ہو جائے پھر بھی وہ زمین کے برابر نہیں ہو سکتی کیونکہ دنیا کے اونچے سے اونچے پہاڑبھی زمین کے عظمت کے سامنے ایسے ہیں جیسے مالٹے کی نسبت اس کا چھلکا ہوتا ہے جبکہ اس عظیم کہکشاں کے مقابلے میں زمین کی حیثیت ایک ناچیز ذرّے کی سی ہے ۔
تو کیا اس حالت میں انسان کا تکبر اور غرور اس کی مطلق جہالت اور نادانی کی دلیل نہیں ؟
پیغمبر اسلام کی ایک لائق توجہ حدیث ہے کہ آنحضرت ایک کوچہ سے گزر رہے تھے آپ نے دیکھا کہ ایک جگہ کچھ لوگ اکھٹے ہیں آپ نے ان سے اس اجتماع کا سبب دریافت کیا تو لوگوں نے عرض کی جناب ! یہاں ایک دیوانہ ہے جس نے اپنی دیوانگی اور مجنونہ حرکات سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہوا ہے تو آپ نے سب لوگوں کو اپنی طرف بلا کر ارشاد فرمایا:
”آیا چاہتے ہوکہ میں تمہیں حقیقی دیوانے سے متعارف کراوٴں ؟“ سب لوگ خا موش ہو گئے اور ہمہ تن گوش ہو کر آپ کا ارشاد سننے لگے ، آپ نے فرمایا :
المتبختر فی مشیہ، الناظر فی عطفیہ، المحرک جنبیہ بمنکبیہ الذی لا یرجی خیرہ ولا یوٴمن شر، فذالک المجنون و ھٰذا مبتلی
جو غرور کی بناء پر مٹک مٹک کر چلتا ہے بار بار دائیں بائیں دیکھتا ہے ،پہلو اور کولہوں کو مٹکامٹکا کر قدم اٹھا تا ہے ( اپنے علاوہ کسی پر اس کی نگاہ نہیں اٹھتی ،اپنے سوا کسی کے بارے سوچتا نہیں )لوگوں کو جس سے خیر کی امید نہ ہو، اس کی برائی سے محفوظ نہ ہوں ، وہ ہوتا ہے حقیقی دیوانہ ۔ رہا یہ شخص تو یہ بیچارہ بیمارہے ( دیوانہ نہیں )۔
”عباد الرحمن “ کی دوسری صفت حلم اور بردباری ہے جیسا کہ قرآ، مجید اسی آیت میں آگے چل کر کہتا ہے : جب جاہل لوگ انھیں مخاطب کرتے ہیں اور اپنی جہالت و نادانی کی وجہ سے ناشائستہ باتیں کرتے ہیں تو وہ جواب میں انھیں ” سلام “ کہتے ہیں ۔
( وَإِذَا خَاطَبَھُمْ الْجَاھِلُونَ قَالُوا سَلَامًا)۔
ایسا سلام جو بے پروائی اور بزرگواری پر مشتمل ہوتا ہے نہ کہ کمزوری پر ۔
ایسا سلام جوجاہلوں اور نادانوں کے ساتھ عدم مقابلہ کی دلیل ہوتا ہے ۔
ایسا سلام جو ان کی بے مقصد باتوں کے جواب میں خاموشی پرمبنی ہوتا ہے ۔
ایسا سلام نہیں جو محبت اور دوستی کی علامت ہوتا ہے ۔
المختصر ایسا سلام جو حلم و برد باری اور عظمت و بزرگواری کی علامت ہوتاہے ۔
ہاں تو ان کی باعظمت روحانی صفات میں سے ایک صفت تحمل اور حوصلہ ہے جس کے بغیر کوئی بھی انسان خدا وند عالم کی عبودیت اور بندگی کے نشیب و فراز پر مشتمل دشوار گزار راستہ طے نہیں کرسکتا۔ خا ص کر ایسے معاشروں میں جہاں فاسد اور مفسد، جاہل اور نادان افراد کی فراوانی ہو۔
دوسری آیت میں ان ” عباد الرحمن “ کی تیسری صفت بیان کی گئی ہے اور وہ ہے خدا وند عالم کی خالص عبادت ، ارشاد ہوتا ہے :
وہ ایسے لوگ ہیں جو رات کے وقت اپنے پروردگار کے حضور سجدہ اور قیام کرتے ہیں ( وَالَّذِینَ یَبِیتُونَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَقِیَامًا)۔
رات کی تاریکی میں جبکہ غافلوں کی آنکھیں سوئی ہوتی ہیں ،ظاہر داری اورریا کاری کو کوئی موقع نہیں ہوتا میٹھی نیند کو اپنے اوپر حرام کرکے اس سے بھی شریں چیز یعنی ذکر خدا ، قیام اور اس کی عظمت بار گاہ میں سجدہ کرنے میں مشغو ل ہو جاتے ہیں رات کا کچھ حصہ اپنے محبوب کے ساتھ راز و نیاز اور مناجات میں گزار دیتے ہیں اور اپنے قلب و روح کو اس کی یاد اور نام سے منور کرتے ہیں ۔
اگر چہ ”یبیتون“کا لفظ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ساری رات سجدے اور قیام میں گزار دیتے ہیں لیکن واضح ہے کہ اس سے مراد رات کا ایک بڑا حصہ ہے او ر اگر تمام رات مراد ہو تو ایسا اتفاق کبھی ہو جاتا ہے ۔
اس ضمن میں یہ بھی بتا تے چلیں کہ ”سجود “ کو ”قیام “پر مقدم کرنے کی وجہ اس کی اہمیت ہے اگر چہ نماز میں عملی طور پر قیام مقدم ہوتا ہے(2) ۔
ان بندگان خدا کی چوتھی صفت عذاب الہٰی سے خوف ہے ”وہ ایسے لوگ ہیں جو ہمیشہ کہتے رہتے تھے ہیں پروردگار ا!ہم سے جہنم کا عذاب دور رکھ کیونکہ اس کا عذاب سخت اور دائمی ہے “( وَالَّذِینَ یَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَھَنَّمَ إِنَّ عَذَابَھَا کَانَ غَرَامًا) ۔
”کیونکہ جہنم برا ٹھکانا اور بد ترین اقامات گاہ ہے “( إِنَّھَا سَائَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا )۔
باوجودیکہ وہ لوگ رات کو عبادتِ خدا میں مشغول ہوتے ہیں اور دن کے وقت اپنے فرائض انجام دیتے رہتے ہیں پھر بھی ان کے دل احساسِ و ذمہ داری کی بناء پر خوف ِخدا سے معمور رہتے ہیں اور یہ خوف ایسا ہوتا ہے جس سے فریضے کی ادائیگی بہتر اور موٴثر انداز میں ہوتی ہے ۔
وہ ایسا خوف ہوتا ہے جو ایک طاقتور پویس کی مانند باطن سے انسان کو کنٹرول کرتا ہے چنانچہ اس خوف کی وجہ سے انسان کسی نگران کے بغیر اپنے فرائض احسن طور پر انجام دیتا رہتا ہے اور پھر بھی اپنے آپ کو بار گاہ ِ رب العزت میں قصوروار سجھتا ہے ۔
”غرام“ در اصل ایسی مصیبت اور سخت پریشانی کے معنیٰ میں آا ہے جس سے چھٹکارا مشکل ہو تا ہے اگر قرض خواہ کو ”غریم‘کہتے ہیں تو اس کی وجہ بھی یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنا حق حاصل کرنے کے لئے ہمیشہ مقروض سے چمٹا رہتا ہے اس عشق اور قلبی تعلق کو بھی ”غرام “کہتے ہیں جس کی وجہ سے انسان کسی کام یا کسی چیز کے پیچھے لگا رہتا ہے اور جہنم کے لئے اس لفظ کا اطلاق اس لئے ہوتا ہے کہ اس کا عذاب سخت، مسلسل اور دائمی ہوتا ہے ۔
”مستقر“ اور ”مقام“کا فرق شاید اس وجہ سے ہے جہنم کفار کے لئے ہمیشہ کی اقامت گاہ (مقام؟) ہے اور مومنین کے لئے محدود عرصے کے لئے رہاہش گاہ ( مستقر)ہے ۔ اس طرح سے دونوں قسم کے لوگوں کی طرف اشارہ ہے جو جہنم میں وارد ہوں گے ۔
ظاہر ہے کہ دوزخ بڑا ٹھکانا اور بد ترین اقامت گاہ ہے ،کہا ں جلانے والی آگ اورکہاں آرام و اطمینا ن اور سکون؟ کہاں قاتل شعلے اور اور کہاں آرام و آسائش ؟
یہ احتمال بھی موجود ہے کہ ”مستقر “اور ”مقام“ دونوں کا ایک ہی معنیٰ ہو جو دوز خ کے عذاب کے دوام اور ہمیشگی پرتاکید ی حیثیت رکھتا ہے ٹھیک بہشت کے مقابل جس کے بارے میں ہم انہی آیات ہی میں پڑھیں گے کہ :
خالدین فیھا حسنت مستقراً و مقاماً
مومنین ہمیشہ بہشتی محلات میں رہیں گے کیا بہترین ٹھکانا اور کیسی شاندار اقامت گاہ ہو گی ۔( فرقان۔۷۶)
زیر بحث آیات میں سے آخری آیت میں ”عباد الرحمن“ کی پانچویں صفت بتائی جارہی ہے جو اعتدال پر مبنی اورہر کام میں ہر قسم کے افراط و تفریط سے دوری ہے خاص کر خرچ کرنے کے معاملے میں اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے :خدا کے بندے وہ ہیں جو خرچ کرتے وقت نہ تو اسراف کرتے ہیں نہ ہی سختی سے کام لیتے ہیں بلکہ ان دونوں حالتوں کے درمیان حد اعتدال قائم کرتے ہیں ( وَالَّذِینَ إِذَا اٴَنفَقُوا لَمْ یُسْرِفُوا وَلَمْ یَقْتُرُوا وَکَانَ بَیْنَ ذَلِکَ قَوَامًا)۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن بذاتہ خرچ کرنے کو تسلیم کرتا ہے اور تسلیم بھی اس حد تک کہ اس کے ذکر کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتا کیونکہ اتفاق ہر انسان کو حتمی فریضہ ہے لہٰذا گفتگو میں خدا کے بندوں کے انفاق کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے :ان کا انفاق بھی اعتدال کی حد تک ہوتاہے جس میں نہ تو فضول خرچی ہوتی ہے اورنہ سخت گیری ۔نہ تو اس قدر خرچ کر ڈالتے ہیں کہ خود ان کی بیوی بچے بھوکے رہ جاتے ہوں اور نہ ہی اس قدر سختی سے کام لیتے ہیں کہ دوسرے لوگ ان کی بخشش سے محروم رہ جاتے ہوں۔
”اسراف“اور ”اقتار“جو ایک دوسرے کے متضاد ہیں کی تفسیر کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔ان سب کی بحث کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ”اسراف“یہ ہوتا ہے کہ کسی چیز کو حد سے زیادہ نا حق و بے جا خرچ کیا جائے اور ”اقتار“ یہ ہوتا ہے کہ کسی چیز کو اپنے حق اور ضروری مقدار سے کم خرچ کیا جائے ۔
ایک روایت میں اسراف، اقتار اور اعتدال کے لئے بہترین اور دلکش تشبیہ بیان کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ :۔
ایک مرتبہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس آیت کی تلاوت فرمائی اور زمین سے ایک مٹھی میں سنگریزے لئے اور پھر مٹھی کو خوب بند کرلیا اور فرمایا یہ ”اقتار“ پھر ایک اور مٹھی میں سنگریزے لئے اور ہاتھ کو اس قدر کھول دیا کہ تمام سنگریزے ہاتھ سے جاتے رہے فرمایا : اسے اسراف کہتے ہیں اور تیسری مرتبہ مٹھی میں سنگریزے لئے اور تھوڑا سا اسے کھولا جس سے کچھ تو زمین پر آگرے اور کچھ ہاتھ میں باقی رہ گئے ، فرمایا : یہ ” قوام“ ہے(3) ۔
”قوام“ (” عوام“ کے وزن پر ) کا لفظ لغت میں عدالت ، استقامت اور کسی چیز کی حد وسط کے معنی میں ہے اور”قوام“( کتاب کے وزن پر) کا لفظ اس چیز کے معنی ٰ میں ہے جو قیام اور استقرار کی وجہ بنتی ہے ۔
1۔”ھون “مصدر ہے جس کا معنی ٰ ہے نرمی ، آہستگی اور تکبر نہ کرنا اور یہاں پر مصدر کو اسم ِفاعل کے معنی میں تاکید کے لئے استعمال کیا گیا ہے ۔ یعنی رحمن کے بندے ایسے ہیں گویا بذات خود وہ نر می اور تکبر کی نفی ہیں ۔
2۔ توجہ رہے کہ ”سجّد“ ”ساجد“ کی جمع ہے اور ”قیام “ ”قائم“ کی۔
3۔ تفسیر نور الثقلین جلد ۴ ،ص ۲۹، بحوالہ اصول کافی ۔
سوره فرقان / آیه 63 - 67۱۔ مومنین کی رفتار
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma