معرفت کا بہترین معیار

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 15
سوره فرقان / آیه 1 - 21. موجودات عالم کا صحیح اندازہ
یہ سورت”تبارک“کے مبارک کلمہ سے شروع ہوئی ہے جس کا مادہ برکت ہے اور ہر ایک کو معلوم ہے کہ کسی چیز کے با بر کت ہونے کا معنیٰ یہ ہوتا ہے کہ اس میں دوام و پائیداری ، خیر اور ہر طرح سے نفع پایا جاتا ہے ۔
فرمایا گیا ہے بابرکت اور لاوزال ہے وہ خدا جس نے ”فرقان“ کو اپنے بندے پر نازل کیا ہے تاکہ وہ تمام جہان والوں کو ڈرائے
(تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَی عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا )۱
یہ بات قابل توجہ ہے کہ پرور دگار کے مبارک ہونے کی تعریف ”فرقان “ کے ذریعہ بیان کی گئی ہے یعنی وہ قرآن جو حق و باطل میں امتیاز کا وسیلہ ہو۔
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ لفظ”فرقان “کامعنی کبھی” قرآن“ ہوتا ہے اور کبھی وہ معجزات جو حق و باطل میں امتیاز پیدا کرتے ہیں ۔
کبھی یہ لف۱۔تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَی عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا ۔
 الَّذِی لَہُ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَلَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ یَکُنْ لَہُ شَرِیکٌ فِی الْمُلْکِ وَخَلَقَ کُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَہُ تَقْدِیرًا ۔
”تورات“ کے معنی میں بھی آیاہے لیکن اس آیت میں اوربعد کی دوسری آیات میں لفظ”فرقان“ سے مراد ”قرآن“ ہے ۔
بعض روایات میں ہے کہ جب امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ ”قرآن“ اور” فرقان“میں کیا فرق ہے تو آپ ﷼ نے ارشاد فرمایا:
قرآن اس آسمانی کتاب کے مجموعے کا نام ہے اور فرقان آیات محکمات کی طرف اشارہ ہے ۔ ۲
آپ کے اس فرمان میں اور تمام قرآنی آیات کے ”فرقان“ ہونے میں کوئی تضاد نہیں ہے ۔ کیونکہ مراد یہ ہے کہ قرآن کی آیات محکمات حق اور باطل میں تمیز کرنے کے حوالے سے فرقان کا روشن تر ،آشکار تراور واضح تر مصداق شمار ہوتی ہےں۔
فرقان اور شناخت کی نعمت اتنی اہم ہے کہ قرآن مجید نے اسے متقی اور پرہیز گار لوگوں کے لئے بہت بڑے اجر کے عنوان سے ذکر فرمایا ہے ۔ چنانچہ فرماتا ہے :
یاایھا الذین اٰمنوا ان تتقوا اللہ یجعل لکم فرقاناً
اے ایمان والو!اگرتقویٰ اختیار کروگے توخدا وند عالم تمہیں فرقان عطا فرمائے گا۔۳
یقینا تقویٰ کے بغیر کے حق اور باطل میں امتیاز کرنا ناممکن ہے ۔کیونکہ محبت اور نفرت اور گناہ کے چہرے پر ضخیم پر دے ڈال دیتے ہیں او ر انسان کے ادراک و نگاہ کو اندھا کردیتے ہیں ۔
بہر حال قرآن مجید تمام فرقانوں کا فرقان ہے ۔
انسان کے تمام نظام ِ زندگی میں حق اور باطل کی پہچان کا بہترین وسیلہ ہے ۔
انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں حق و باطل میں تمیز کا ذریعہ ہے اور فکار و عقائد ، قوانین و احکام اور اخلاق و آداب کے سلسلے میں ایک بہترین معیار اور بہترین کسوٹی ہے ۔
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ فرمایا گیا ہے :” اس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا “۔جی ہاں مقام عبودیت اور خالص بندگی ہی وہ چیز یں ہیں جو فرقان کے نزول کی لیاقت اور حق اور باطل کی پہچان کے معیار کو وجود بخشتی ہیں ۔
آیت کے آخر میں وہ آخری نکتہ پیش کیا گیا ہے جو فرقان کا اصل مقصد اور اس کا منتہائے مقصود ہے اور وہ ہے عالمین کاانذار کہ جس کا نتیجہ انسان میں ذمہ داری کے احساس کا ابھر نا ہے ۔”للعالمین “ کی تعبیر اس بات کو واضح کررہی ہے کہ اسلام ایک عالمگیر دین ہے جو کسی خاص علاقے ، قوم اور قبیلے کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ بعض لوگوں نے تو اس کلمہ سے آنحضرت کی ختم نبوت پر بھی دلیل قائم کی ہے ۔ کیونکہ ”عالمین “نہ صرف یہ کہ مکانی لحاظ سے محدود نہیں ہے بلکہ زمانی لحاظ سے بھی کسی قید و شرط کا پابند نہیں ہے اور تمام آنے والے ادوار اور افراد اس میں شامل ہیں ( غور کیجئے گا)۔
دوسری آیت میں فرقان کے نازل کرنے والے خدا کی چار صفات بیان کی گئی ہیں ان میں در حقیقت ایک تو اصل اور جڑ ہے اور باقی تین اس کی شاخین ہیں ۔
پہلے تو کہتا ہے : وہ خدا ایسا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی مالکیت اور حکومت صرف اسی کے لئے ہے ( الَّذِی لَہُ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ )۱۔
۱۔لفظ ”ملک“ (بر وزن” گرگ“)کے بارے میں ”راغب“اپنی کتاب ”مفرات“ میں کہتے ہیں کہ یہ کوئی چیز اختیار میں لینے اور اس پرحاکمیت کے معنی میں ہے جبکہ ”ملک“(بروزن ”سلک“)ہمیشہ اور ہر موقع پرحاکمیت اور مالکانہ تصرف کی دلیل نہیں ہے گویا ہر مُلک،مِلک ہے لیکن ہرمِلک ،مُلک نہیں ہے ۔
یقیناوہی تو تمام عالم ہستی اور زمین و آسمان کا حاکم ہے ۔ اس کی قلمروِ حکومت سے کوئی چیز باہر نہیں ہے ، آیت میں مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظ ”لہ“ کو ”ملک السمٰوات․․․․“پر اس لئے مقدم کیا گیا ہے کیونکہ عربی ادب کے مطابق یہ صورت ”حصر“ پر دلالت کرتی ہے ۔ جس سے یہ پایہ ثبوت پہنچ جاتی ہے کہ آسمانوں اور زمین کی واقعی اور حقیقی حکومت اور فرمانروائی صرف اور صرف اس کی ذات میں منحصر ہے کیونکہ اس کی حکومت کلی ، جاودانی اور حقیقی ہے بلکہ اس کے غیر کی حکومت کہ جو محدود او رناپائیدار ہوتی ہے پھر بھی خدا ہی سے وابستہ ہوتی ہے ۔
پھر یکے بعد دیگرے مشرکین کے عقائد کی نفی کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے ، وہ خدا جس نے کسی کو اپنا بیٹا نہیں بنایا:( ولم یتخذ ولداً)۲۔
۲۔بیٹے کی نفی کے بارے میں دلائل تفسیر نمونہ جلد اول سورہٴ بقرہ کی آیت۱۱۶کے ذیل میں گزر چکے ہیں ۔
جیسا کہ ہم پہلے بھی بتا چکے ہیں اصولی طور پر بیٹے کی ضرورت اس لئے پیش آتی ہے کہ کام کاج میں اس کی طاقت سے فائدہ اٹھایا جائے یا کمزوری ، بڑھاپے اور ناتوانی کے دنوں میں اس سے امداد لی جائے یا تنہائی میں اسے اپنا انیس و جلیس بنا یا جائے یہ ظاہر ہے کہ خدا کی پاک ذات کو ان تینوں میں سے کسی کی بھی ضرورت نہیں ہے ۔
اس طرح سے نصاریٰ کے عقیدے کی نفی ہوتی ہے کہ وہ حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا کا بیٹا جانتے ہیں اور یہود کے عقیدے کی بھی نفی ہوتی ہے کیونکہ وہ جناب عزیر علیہ السلام کو خدا کا فرزندجانتے ہیں اسی طرح مشرکین عرب کے عقیدے کی بھی نفی ہوجاتی ہے ۔

پھر فرمایا گیا ہے : عالم ہستی پر مالکیت اور حاکمیت میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے (وَلَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ یَکُنْ لَہُ شَرِیکٌ فِی الْمُلْکِ)۔
مشرکین عرب خدا کے لئے ایک یا کئی شریکوں کا عقید ہ رکھتے تھے ، انھیں عبادت میں بھی شریک گردانتے تھے شفاعت میں ان سے متوسل ہوتے تھے اور اپنی حاجات میں ان سے مدد طلب کرتے تھے یہاں تک کہ حج کے موقع پر لبیک کہتے وقت بڑی صراحت کے ساتھ درج ذیل جملہ اور اس قسم کے دوسرے مشرکانہ جملے زبان پر جاری کرتے تھے ۔
”لبیک لاشریک لک ، الاشریکاًھولک،تملکہ و ماملک“
ہم نے تیری دعوت کو قبول کیا اے خدا !جو سوائے ایک شریک کے کوئی اور شریک نہیں رکھتا اور وہ شریک بھی اپنے تمام مملوک سمیت تیری ملکیت میں ہے
غرض قرآن مجید تمام موہوم چیزوں کی نفی اور مذمت کرتا ہے ۔
اور اس آیت کے آخری جملے میں کہتا ہے : اس نے تمام موجودات کو پیدا کیاہے ، نہ صرف پیدا کیا ہے بلکہ ان کا صحیح صحیح اندازہ بھی مقرر کیا ہے ( وَخَلَقَ کُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَہُ تَقْدِیرًا )۔
ثنویہ کے عقیدے کے مانند نہیں جو موجودات عالم کی کچھ چیزوں کا خالق ”یزدان“ کو اور کچھ کا خالق”اہریمن“ کو سمجھتے ہیں اور اس طرح سے وہ تخلیق کائنات کا یزدان اوراہریمن میں تقسیم کردیتے ہیں کیونکہ وہ دنیا کو ”خیر“ اور ”شر“ یا نیکی اور بدی کا مجموعہ سمجھتے ہیں ۔
جبکہ ایک سچے موحد کے نزدیک عالم ہستی میں خیر کے علاوہ اور کچھ ہے ہی نہیں اور اگر کہیں ہمیں برائی نظر بھی آتی ہے تو یا تو اس کی نسبی حیثیت ہے یا عدمی چیز ہے اور یا پھر ہمارے اپنے ہی اعمال کا نتیجہ ہے ( خوب غور کیجئے گا )۔
۱۔تفسیر نمونہ کی چھٹی جلد میں سورہ ٴ اعراف کی آیت نمبر۵۶ کے ذیل میں ” برکت“ کا مفہوم ذکرکیا گیا ہے ۔
۲۔تفسیر برہان جلد۳ ص۱۵۵۔
۳۔سورہٴ انفال آیہ ۲۹۔
سوره فرقان / آیه 1 - 21. موجودات عالم کا صحیح اندازہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma