برے دوست نے گمراہ کیا

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 15
شان نزولدوستی کا اثر
قیامت کے مناظربھی عجیب و غریب ہو ں گے جن کا کچھ حصہ ابھی گزشتہ آیات کی تفسیر میں بیان ہو چکا ہے اور ان آیات میں ان مناظر کا ایک اور پہلو اجاگر کیا جا رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ ظالم لوگ بروزِقیامت اپنے گزشتہ کردار پر حد سے زیادہ حسرت اور افسوس کریں گے ، چنانچہ خدا فرماتا ہے :
”اس دن کو یاد کیجئے جب ظالم حسرت کیوجہ سے اپنے ہاتھ اپنے دانتوں سے کاٹے گا اور کہے گا اے کاش ! میں رسول اللہ کا راستہ اپنا یاہوتا( وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَی یَدَیْہِ یَقُولُ یَالَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِیلًا)(۱) ۔
”یعض“ عض“( بروزن”سد“)کے مادہ سے ہے جس کا معنی دانتوں سے کاٹنا ہے ۔ عموماًیہ تعبیر ان لوگوں کے لئے استعمال کیا جاتی ہے جو افسوس اور حسرت کی وجہ سے سخت پریشان ہوتے ہیں جیسا کہ فارسی میں بی ضرب المثل ہے کہ ”کہ فلاں شخص حسر ت کی وجہ سے اپنی انگلی دانتوں سے کاٹ رہا ہے “(لیکن عربی میں انگی کے بجائے ہاتھ کا لفظ بولا جاتا ہے اور شاید یہ زیادہ فصیح بھی ہے کیونہ انسان عموماًایسی حالت میں انگلیوں ہی کو نہیں کا ٹتابلکہ ہاتھ کی پشت کو بھی کاٹتا ہے خصوصاً عربی زبان میں ایسے مواقع پر لفظ ”یدیہ“ ( دونوں ہاتھ ) استعمال کیا جاتا ہے جو حسرت ، یاس ، ناکامی اور افسوس کو زیادہ بہتر صورت میں بیان کرتا ہے(۲) ۔
حذر کن ز آنچہ دشمن گوید کن کہ بردند ان گزی دست تغابن
(جو کچھ دشمن کہتا ہے اس کے کرنے بچو و گر نہ نقصان کے وقت ہاتھ کو دانتوں سے کاٹو گے )۔
یہ شاید اس لئے کہ اس قماش کے لوگ جب اپنے ماضی پر نظر ڈالتے ہیں تو خود کو قصوروار ٹھہراتے ہیں اور اس قصور کا انتقام بھی خود سے لینے کی ٹھان لیتے ہیں تاکہ وہ اس طر ح سے قدرے اطمینان حاصل کرسکیں ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اس دن کو ” یوم الحسرة“ کہنا چاہیئے جیسا کہ خود قرآن نے بھی اسے اس نام سے یاد کیا ہے ملاحظہ ہو سورہٴ مریم آیت ۳۹ کیونکہ مجرم اور گناہگار لوگ اپنے آپ کو ایک ایسی زندگی بسر کرنے کےلئے مجبور پائیں گے جو کبھی بھی ختم نہیں ہوگی جبکہ وہ دنیا کی چند روزہ زندگی میں صبر و شکیبائی ، خواہشات ِ نفسانی کی مخالفت، جہاد با نفس اور ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرکے ہمیشہ کی عزت و افتخار اور سعادت کی زندگی حاصل کرسکتے تھے ۔
حتی کے قیامت کا دن نیک لوگوں کے لئے بھی حسرت اور ن دامت کا دن ہو گا کیونکہ وہ اس بات کا فسوس کریں گے کہ انھوں نے دنیا میں اس سے زیادہ نیکی کیوں نہیں کی۔
قرآن آگے فرماتا ہے کہ یہ ظالم بڑے افسوس کے ساتھ کہے گا :”پٹھکار ہو مجھ پر کاش کہ میں فلاں گمراہ شخص کو اپنا دوست نہ بنا یا ہوتا( یَاوَیْلَتِی لَیْتَنِی لَمْ اٴَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیلًا)(۳) ۔
ظاہر ہے کہ ”فلاں“ سے مراد وہ شخص ہے جو اسے گمراہی کی طرف کھینچ لایا تھا خواہ وہ شیطان تھا یا برا دوست اور گمراہ رشتہ دار یا ”عقبہ“ جیسے لوگوں کے لئے ”ابی“ جیسے دوست و احباب ۔
در حقیقت یہ آیت اور اس سے پہلے والی آیت نفی اور اثبات کی دو مختلف حالتیں بیان کررہی ہیں ایک جگہ کہتا ہے اے کاش ! میں نے پیغمبر کا رستہ اختیار کیا ہوتا اور دوسری جگہ کہتا ہے : اے کاش ! میں نے فلاں شخص کو اپنا دوست نہ بنا یا ہوتا ۔ گویا وہ یہ کہا چاہے گا کہ میری تمام بد بختی پیغمبر سے رابطہ ترک کرنے اور اس گمراہ دوست سے دوستی کی وجہ سے ہے ۔
سلسلہ کلام جاری ہے آگے فرماتا ہے کہ وہ کہے گا : بیداری اور علم و آگہی میرے پاس آچکی تھی (سعادت اور خوش بختی نے میرا دروازہ بھی کھٹکھٹایا تھا )لیکن اس بے ایمان دوست نے مجھے گمراہ کیا( لَقَدْ اٴَضَلَّنِی عَنْ الذِّکْرِ بَعْدَ إِذْ جَائَنِی )۔
اگر ایمان اور سعادت ابدی سے زیادہ دور ہوتا پھر تو افسوس کی کوئی ایسی بات ہی نہیں تھی لیکن میں اس سعادت ِ جاودانی کی سر حد کے بالکل قریب پہنچ چکا تھا صرف ایک قدم کا فاصلہ باقی تھا کہ اس ہٹ دھرم متعصب اور دل کے اندھے شخص نے مجھے چشمہ ٴ آبِ حیات کے کنارے سے پیا سا پلٹا کر بد بختی اور گمراہی کے دلدل میں ہمیشہ کے لئے پھنسا دیا۔
مندر جہ بالا جملے میں مذکورہ لفظ ” ذکر“ کے وسیع معنی ہیں اور آسمانی کتابوں کی تمام آیات خدا وندی اس کے مفہوم میں شامل ہیں بلکہ وہ ہر چیز جو انسان کی بیداری اور آگہی کا سبب بنتی ہے اس میں آجاتی ہے ۔
آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے :شیطان تو انسان کو ہمیشہ سے چھوڑتا رہا ہے (وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولًا)۔
کیونکہ وہ انسان کو کھینچ تان کر غلط راستے پرڈال دیتا ہے اور خطرناک مقام پر پہنچا کر اسے حیران و سر گرداں چھوڑ کر اپنی راہ لیتا ہے ۔
توجہ رہے کہ ”خذول“ مبالغہ کا صیغہ ہے جس کا معنیٰ ہے بار بار چھوڑ نے والا۔” خذلان“ کی حقیقت یہ ہے کہ کوئی شخص کسی کی امداد کے لئے عہد کرے لیکن نہایت ہی حساس لمحات میں اس کی امداد ست ہاتھ اٹھالے ۔
آیا اس آیت کا یہ آخری جملہ ” وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولاً“ قول خدا وندی ہے جو کہ تمام ظالموں اور گمراہوں کو تنبیہ کی صورت میں بیان ہوا ہے یا بروزِ قیامت ان حسرت زدہ لوگوں کے قول کا ایک حصہ ہے جو تتمّہ کے طور پر بیان ہوا ہے ؟اس بارے میں مفسرین نے دو طرح کی تفسریں بیان کی ہیں اور دونوں ہی آیت سے مناسبت رکھتی ہیں ۔ لیکن قولِ خدا ہونا زیادہ مناسب ہے ۔
1۔”یوم یعض“ کاجملہ ادبی لحاظ سے ”یوم یرون“ پر عطف ہے جو سابق میں گزر چکا ہے بعض مفسرین نے” اذکر“ کو مقدر سمجھا ہے اور اس سے متعلق قرار دیا ہے ۔
2۔ فارسی میں بھی کبھی ہاتھ کو دانتوں سے کاٹنا بھی بولا جاتا ہے جیسا کہ شیخ سعدی نے ایک شعر میں اسی محاورے کو استعمال کیا ہے ۔
3۔”خلیل “ اس خاص اور جگری دوست کو کہتے ہیں جسے انسان اپنے مشوروں میں شریک کرتا ہے البتہ خلیل کے اور بھی بہت سے معانی ہیں جن کی تفصیل تفسیر نمونہ جلد چہارم ( سورہٴ نساء کی آیت ۱۲۵) میں گزر چکی ہے ۔
شان نزولدوستی کا اثر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma