ہر طرف سے جادو گر پہنچ گئے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 15
سوره شعراء / آیه 38 - 42سوره شعراء / آیه 43 - 51

ان آیات میں ان دلچسپ داستان کا ایک اور پہلو بیان کیا گیا ہے :
فرعون کے دربار یوں کی تجویز کے بعد مصر کے مختلف شہروں کی طرف ملازمین روانہ کر دئے گئے اور انھوں نے ہر جگہ پر ماہر جادوگروں کی تلاش شروع کردی ”آخر کار ایک مقرہ دن کی میعاد کے مطابق جادوگروں کی ایک جماعت اکٹھا کر لی گئی “(فَجُمِعَ السَّحَرَةُ لِمِیقَاتِ یَوْمٍ مَعْلُومٍ )۔
دوسرے لفظوں میں انھوں نے جادوگروں کو اس روز کے لئے پہلے ہی سے تیار کر لیا تاکہ ایک مقرہ دن مقابلے کے لئے پہنچ جائیں ۔
”یوم معلوم “ سے کیا مراد ہے ؟ جیسا کہ سورہٴ اعراف کی آیات سے معلوم ہوتا ہے مصریوں کی کسی مشہور عید کا دن تھا ۔ جسے موسیٰ علیہ السلام نے مقابلے کے لئے مقرر کیا تھا اور اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ اس دن لوگوں کو فرصت ہو گی اور وہ زیادہ سے زیادہ تعدا میں شرکت کریں گے کیونکہ انھیں اپنی کامیابی کا مکمل یقین تھا اور وہ چاہتے تھے کہ آیاتِ خدا وندی کی طاقت اور فرعون اور اس کے ساتھیوں کی کمزوری اور پستی سب دنیا پر آشکار ہو جائے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کے دلوں میں شمع ِ ایمان روشن ہو جائے ۔
اس میدان مقابلہ میں عوام الناس کو بھی دعوت دی گئی اور لوگوں سے کہا گیا کہ آیا تم بھی اس میدان میں اکٹھے ہو گے؟( وَقِیلَ لِلنَّاسِ ھَلْ اٴَنْتُمْ مُجْتَمِعُونَ )۔
اس طرز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کے کارندے اس سلسلے میں سوچی سمجھی سکیم کے تحت کا م کر رہے تھے انھیں معلوم تھا کہ لوگوں کو زبر دستی میدا ن میں لانے کی کوشش کی جائے تو مککن ہے کہ اس کا منفی رد عمل ہو کیونکہ ہر شخص فطری طور پر زبر دستی کو قبول نہیں کر تا لہٰذا انھوں نے کہا اگر تمہارا جی چاہے تو اس اجتماع میں شر کت کرو اس طرح سے بہت سے لوگ اس اجتماع میں شریک ہو ئے ۔
لو گوں کو بتا یا گیا ”مقصد یہ ہے کہ اگر جادو گر کامیاب ہو گئے کہ جن کی کامیابی ہمارے خداوٴں کی کامیابی ہے تو ہم ان کی پیروی کریں گے “ اور میدان کو اس قدر گرم کردیں گے کہ ہمارے خدا وٴں کا دشمن ہمیشہ ہمیشہ کے لئے میدان چھوڑ جائے گا( لَعَلَّنَا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ إِنْ کَانُوا ھُمْ الْغَالِبِینَ )۔
واضح ہے کہ تماشائیوں کا زیادہ سے زیادہ اجتماع جو مقابلے کے ایک فریق کے ہمنوا بھی ہوں ایک طرف تو ان کی دلچسپی کا سبب ہو گا اور ان کے حوصلے بلند ہو ں گے اور ساتھ ہی وہ کامیابی کے لئے زبردست کو شش بھی کریں گے اور کامیابی کے موقع پر ایسا شور مچائیں گے کہ حریف ہمیشہ کے لئے گوشہٴ گمنامی چلاجائے گا اور اپنی عددی کثرت کی وجہ سے مقابلے کے آغاز میں فریق مخالف کے دل میں خوف و ہراس اور رعب و وحشت بھی پیدا کرسکیں گے ۔
یہی وہ ہے کہ فرعون کے کارندے کو شش کررہے تھے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ تعداد میں شرکت کریں ۔ موسی ٰ علیہ السلام بھی ایسے کثیر اجتماع کی خدا سے دعا کر رہے تھے تاکہ اپنا مدعا اور مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچا سکیں ۔
یہ سب کچھ ایک طرف ، ادھر ”جب جادو گر فرعون کے پاس پہنچے اور اسے مشکل میں پھنسا ہو ا دیکھا تو موقع مناسب سمجھتے ہوئے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا نے اور بھاری انعام وصول کرنے کی غرض سے اس سے کہا : اگر ہم کامیاب ہو گئے تو کیا ہمارے لئے کوئی اہم صلہ بھی ہوگا ؟(فَلَمَّا جَاءَ السَّحَرَةُ قَالُوا لِفِرْعَوْنَ اٴَئِنَّ لَنَا لَاٴَجْرًا إِنْ کُنَّا نَحْنُ الْغَالِبِینَ) ۔
فرعون جو بری طرح پھنس چکا تھا اور اپنے لئے کوئی راہ نہیں پاتا تھا انھیں زیادہ سے زیادہ مراعات اور اعزاز دینے پر تیار ہو گیا اس نے فوراً کہا :ہا ں ہاں جو کچھ تم چاہتے ہو میں دوں گا اس کے علاوہ اس صورت میں م میرے مقربین بھی بن جاوٴ گے ( قَالَ نَعَمْ وَإِنَّکُمْ إِذًا لَمِنْ الْمُقَرَّبِینَ )۔
در حقیقت فرعون نے انھیں کہا: تم کیا چاہتے ہو پامال ہے یا عہدہ! میں یہ دونوں تمہیں دوں گا ۔
اس سے معلوم ہو تا ہے کہ اس ماحول اور زمانے میں فرعون کا قرب کس حد تک اہم تھا کہ وہ ایک عظیم انعام کے طور پر اس کی پیش کش کر رہا تھا در حقیقت اس سے بڑھ کر اور کوئی صلہ نہیں ہو سکتا کہ انسان اپنے مطلوب کے زیادہ نزدیک ہو ۔
اگر گمراہ لوگ فرعون کے قرب کو اپنی بڑی عزت سمجھتے تھے تو باخبر اور آگاہ خدا پرست بھی اپنی سب سے عظیم سعادت قُرب الہٰی کو جانتے تھے اور اس سے بڑھ کر کوئی چیز ان کے نزدیک اہمیت نہیں رکھتی۔ حتی کہ بہشت کی تمام نعمتوں کے باوجود خدا وند ِ عالم کی ذات پاک کے جلوے کے مقابلے میں اسے کچھ اہمیت نہیں دیتے ۔
اسی بناء پر اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کا عظیم ترین اجر جو انھیں ان کے عظیم ایثار کے بدلے میں ملے گا وہ قرآن کی گواہی کے مطابق ”قُرب خدا وندی “ ہو گا چنانچہ ”عند ربھم“ کی تعبیر اس حقیقت کی شاہد ناطق ہے ۔
اسی وجہ سے پاک دل مومن اپنی عبادت کی ادائیگی کے وقت جو چیز خدا سے مانگتا ہے وہ صرف اور صرف ”قربة الیٰ اللہ “ ہے ۔
سوره شعراء / آیه 38 - 42سوره شعراء / آیه 43 - 51
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma