فرعون سے معرکة الآرا مقابلہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 15
سوره شعراء / آیه 16 - 22سوره شعراء / آیه 23 - 29

گزشتہ آیات میں حضرت موسی ٰ علیہ السلام کی ماموریت کا پہلا مر حلہ ختم ہوا جس میں بتا یا گیا ہے کہ انھیں وحی و رسالت ملی اور انھوں نے اس عظیم مقصد کو حاصل کرنے کے لئے وسائل کی درخواست کی۔
اس کے ساتھ ہی زیر نظر آیات میں دوسرے مرحلے کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے یعنی فرعون کے پاس جانا اور اس کے ساتھ گفتگو کرنا چنانچہ ان کے درمیان جو گفتگو ہو ئی ہے اسے یہاں پر بیان کیا جا رہا ہے ۔
سب سے پہلے مقدمے کے طور پر فرمایا گیا ہے : اب جبکہ تمام حالات ساز گار ہیںتو تم فرعون کے پاس جاوٴ اور اسے کہو کہ ہم عالمین کے پروردگار کے رسول ہیں (فَاٴْتِیَا فِرْعَوْنَ فَقُولاَإِنَّا رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِینَ)۔
”فاٴتیا“کا لفظ بتا رہا ہے کہ تم ہرقیمت پر ا س کے ساتھ رابطہ قائم کرواور ”رسول“ کے لفظ کو مفرد کے صیغے کے ساتھ بیان کرنا جبکہ وہ دونوں رسول تھے ، ان کی دعوت کی یگانگت کی دلیل ہے ۔گویا وہ یک جان دو قالب کے مصداق ایک پروگرام ایک منصوبے اور ایک ہدف کے ماتحت کا م کررہے ہیں(1) ۔
اور اپنی رسالت کاذکر کرنے کے بعد بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کیجئے اور کہیے کہ ہمیں حکم ملا ہے کہ تمجھ سے مطالبہ کریں کہ تو بنی اسرائیل کو ہماری ساتھ بھیج دے (اٴَنْ اٴَرْسِلْ مَعَنَا بَنِی إِسْرَائِیلَ )۔
ظاہر ہے کہ اس مطالبہ کا مقصدان کو غلامی سے آزاد کرانا تھا تاکہ وہ فرعون کی قید سے نکل کر ان کے ساتھ چلے جائیں ۔
اس مقام پر فرعون نے زبان کھولی اور شیطنت پر مبنی چند ایک جچے تلے جملے کہے جس سے ان کی رسالت کی تکذیب کرنا مقصود تھا ۔ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف منہ کرکے کہنے لگا :آیا بچپن میں ہم نے تجھے اپنے دامن ِ محبت میں پروان نہیں چڑھا یا۔
( قَالَ اٴَلَمْ نُرَبِّکَ فِینَا وَلِیدًا )۔
ہم نے تجھے دریائے نیل کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی غشمگین موجوں سے نجات دلائی وگر نہ تیری زندگی خطرے میں تھی ۔تیرے لئے آیا وٴں کو بلایا اورہم نے اولاد ِ بنی اسرائیل کے قتل کردینے کا جو قانون مقرر کر رکھا تھا اس سے تجھے معاف کردیا اور امن و سکون اور ناز و نعمت میں تجھے پروان چڑھا یا۔
اور اس کے بعد بھی ”تونے اپنی زندگی کے کئی سال ہم میں گزارے(وَلَبِثْتَ فِینَا مِنْ عُمُرِکَ سِنِینَ )۔
پھر وہ موسیٰ علیہ السلام ایک اور اعتراض کرتے ہوئے کہتا ہے :تو نے وہ اہم کام کیا ہے (فرعون کے حامی ایک قبطی کو قتل کیا ہے ) ( وَفَعَلْتَ فَعْلَتَکَ الَّتِی فَعَلْتَ )۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایسا کام کرنے کے بعد تم کیونکر رسول بن سکتے ہو؟
ان سب سے قطع نظر کرتے ہوئے ” تو ہماری نعمتوں کا انکار کر رہا ہے “ (وَاٴَنْتَ مِنْ الْکَافِرِینَ )۔
تو کئی سالوں تک ہماری دسترخوان پر پلتا رہا ہے ، ہمارا نمک کھانے کے بعد نمک حلالی کا حق اس طرح ادا کررہا ہے ؟اس قدر کفران ِ نعمت کے بعد تو کس منہ سے نبوت کا دعوی کررہا ہے ؟
در حقیقت وہ بزعم خود اس طرح کی منطق سے ان کی کردار کشی کر کے موسیٰ علیہ السلام کو خاموش کرنا چاہتا تھا ۔
یہاں اس واقعہ کو بیان کرنا مقصود تھا جو سورہ ٴ قصص آیہ ۱۵ میں بیان ہوا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے دو آدمیوں کو دیکھا کہ آپس میں لڑ رہے ہیں جن میں سے ایک تو فرعونی تھا اور دوسرا بنی اسرائیلی ۔چنانچہ جناب موسیٰ علیہ السلام نے مظلوم بنی اسرائیل کی حمایت میں فرعونی کو ایک زور دار مکّا رسید کیا جس سے اس کی موت واقع ہو گئی۔
جب جناب موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کی شیطنت آمیز باتیں سن کر اس کے تینوں اعتراضات کے جواب دینا شروع کئے ۔لیکن اہمیت کے لحاظ سے فرعون کے دوسرے اعتراض کا سب سے پہلے جواب دیا (یا پہلے اعتراض کو بالکل جواب کے لائق ہی نہیں سمجھا کیونکہ کسی کا کسی کی پر ورش کرنا اس بات کی دلیل نہیں بن جاتا کہ اگر وہ گمراہ ہو تو اسے راہ ِ راست کی بھی ہدایت نہ کی جائے )۔
بہر حال جناب موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا :میں نے یہ کام اس وقت انجام دیا جبکہ میں بے خبر لوگوں میں سے تھا ۔( قَالَ فَعَلْتُھَا إِذًا وَاٴَنَا مِنْ الضَّالِّینَ)۔
اس مقام پر ”ضالین “ کی تعبیر کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے کیونکہ ایک طرف تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پیغمبر کا کاضی بالکل بے داغ ہونا چاہئیے حتی کہ مقام نبوت تک پہنچنے سے پہلے کے زمانے میں بھی ایسا ہونا چاہئیے و گر نہ اس کی عظمت اور شخصیت لوگوں کے درمیان مشکوک ہو جائے گی اور وہ تزلزل کا شکار ہو جائیں گے جس کے نتیجے میں بعثت کا مقصد تشنہ ٴ تکمیل ہو کر رہ جائے گا ۔ بنابرین عصمت ِ انبیاء کا دامن قبل از نبوت بھی بے داغ ہو نا چاہئیے ۔
دوسرے یہ کہ جناب موسیٰ علیہ السلام کا جواب اس قدر ناطق اور مسکت ہو نا چاہئیے کہ فرعون کو دوبارہ اس کے خلاف لب کشائی کی جراٴت نہ ہو سکے ۔
لہٰذا کچھ مفسرین تو کہتے ہیں کہ یہاں پر ”ضال“سے مراد خطا در موضوع ہے یعنی میں نے اسے جو مکا مار اتھا وہ اسے جان سے مار دینے کی غرض سے نہیں بلکہ مظلوم کی حمایت کے طور پر تھا میں تو نہیں سمجھتا تھا کہ اس طر ح اس کی موت واقع ہو جائے گی۔
بنابریں یہاں پر” ضال “ بمعنی ”غافل“ کے ہے اور غفلت سے مراد انجام سے لاعلمی ہے ۔
کچھ مفسرین کہتے ہیں کہ اس ظالم شخص کے قتل کے سلسلے میں کوئی خطا واقع نہیں ہوئی کیونکہ وہ اسی بات کا مستحق تھا بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ میں نہیں جانتا تھا کہ اس قتل کا انجام یہ ہوگا کہ میں مصر میں نہیں رہ سکوں گا اور ایک عرصہ تک جلا وطن رہوں گا جس سے میرے بہت سے منصوبے التوا میں پڑ جائیں گے ۔
لیکن ظاہرا ً یہ جواب ایسا نہیں تھا جو موسیٰ علیہ السلام فرعون دیتے اور وہ اسے قبول کرلیتا ۔بلکہ یہ ایک ایسے مطلب تھا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے دوستوں کو بیان کرتے تھے ۔
تیسری تفسیر جو کئی لحاظ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے شایان ِ شان اور ان کے مقام ِ عظمت کے لائق ہو سکتی ہے وہ یہ ہے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام نے یہاں پر ”توریہ“ سے کام لیا ہے انھوں نے ایسی بات کہی ہے جس کاظاہری معنی ٰ تو یہ بنتا ہے کہ میں اس وقت راہ حق سے نا آشنا تھا پھر خدا وند عالم نے مجھے حق کا راستہ دکھا یا اور رسالت کا عہدہ تفویض کیا۔ لیکن اس کا باطن میں کچھ اور معنی بنتا ہے ۔
وہ یہ کہ میں نہیں سمجھتا تھا کہ یہ چیز اس قدر دردِ سر بن جائے گی۔وگر نہ اصل کام تو بالکل ٹھیک ہی تھا اور قانون ِ عدالت کے بھی عین مطابق تھا (یا یہ کہ جس دن یہ حادثہ رونما ہوا تھا اس دن میں راستہ بھول کر وہاں پہنچ گیا تھا۔جس کی وجہ سے یہ واقعہ ہو گیا)۔
معلوم ہے کہ ”توریہ“ سے مراد یہ ہے کہ انسان ایسی بات کرے جس کا باطن حق پر مبنی ہو لیکن مخاطب اس کے ظاہر سے کچھ اور سمجھے اور اس قسم کی گفتگو وہاں پر جائز ہوجاتی ہے جہاں انسان کسی الجھن میں پڑجائے اور جھوٹ بھی نہ بولنا چاہے ساتھ ہی ظاہر بھی محفوظ رہے(2) ۔
پھر موسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں اس حادثے کی وجہ سے جب میں نے تم سے خوف کیا تو تم سے بھاگ گیا اور میرے پر وردگار نے مجھے دانش عطا فرمائی اور مجھے رسولوں میں سے قرار دیا (فَفَرَرْتُ مِنْکُمْ لَمَّا خِفْتُکُمْ فَوَھَبَ لِی رَبِّی حُکْمًا وَجَعَلَنِی مِنْ الْمُرْسَلِین)۔
اس آیت میں ”حکم“سے کیا مراد ہے ؟اور کیا اس سے مراد مقامِ نبوت ہے یا علم ، دانش اور آگاہی ؟ تو اس بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے لیکن خودآیت میں غور کرنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ ”رسالت“کو ”حکم“ کے مقابلے میں بیان کیا گیا ہے جس سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ یہ رسالت اور نبوت کے علاوہ کوئی اور چیز ہے ۔
اس موضوع کا ایک اور شاہد سورہٴ عمران کی آیت۷۹ ہے جس میں فرمایا گیا ہے :۔
ماکان لبشر ان یوٴتیہ اللہ الکتاب و الحکم و النبوة ثم یقول للناس کونوا عباداًلی من دون اللہ
کسی انسان کے لئے مناسب نہیں ہے کہ خداوند ے عالم اسے کتاب ، حکم اور نبوت عطا فرمائے ،پھر وہ لوگوں سے کہے کہ خدا کے علاوہ میری عبادت کرو اور میرے بندے بن جاوٴ۔
در اصل ”حکم“ کا لغوی معنی ٰ “ اصلاح کی غرض سے روکنا “ہوتا ہے ۔اسی لئے جانور کی لگام کو ”حکمة“(بروزن”صدقہ“) کہا جاتا ہے ۔
پھر یہ لفظ حکمت کے مطابق چیز پر بولا جانے لگا ۔ اسی طرح علم اور عقل کو بھی ”حکم“ کہتے ہیں ۔
ہو سکتا ہے کہ یہاں پریہ سوال در پیش آئے کہ سورہٴ قصص کی آیت ۱۴ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس واقعے کے رونما ہونے سے قبل ہی ”حکم“ اور ”علم“ کے منصب پر فائز ہو چکے تھے چنانچہ ارشاد باری ہوتا ہے :
ولما بلغ اشدہ و استوٰی اٰتیناہ حکما و علماً۔
جب موسیٰ اپنی حدود کا پہنچ گئے تو ہم نے انھیں حکم اور علم عطا کیا ۔
اس کے بعد قبطی کے ساتھ جناب موسیٰ علیہ السلام کی لڑائی کا ذکر آتا ہے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ علم اور حکمت کے مختلف مراحل ہوتے ہیں ۔ چنانچہ جناب موسیٰ ایک مرحلے تک تو نبوت و رسالت سے قبل پہنچ چکے تھے لیکن جب نبوت و رسالت کے عہدے پر فائز ہوئے تو کمال کے بقیہ مراحل کو بھی پالیا ۔
پھر جناب موسیٰ علیہ السلام اس احسان کا جواب دیتے ہیں جو فرعون نے بچپن اور لڑکپن میں پرورش کی صورت میں ان پر کیا تھا دوٹوک انداز میں اعتراض کی صورت میںفرماتے ہیں : تو کیا جو احسان تونے مجھ پر کیا ہے یہی ہے کہ تو بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنالے (وَتِلْکَ نِعْمَةٌ تَمُنُّھَا عَلَیَّ اٴَنْ عَبَّدْتَ بَنِی إِسْرَائِیلَ )۔
یہ ٹھیک ہے کہ حوادث زمانہ نے مجھے تیرے محل تک پہنچا دیا اور مجھے مجبوراًتمہارے گھرمیں پرورش پانا پڑی اور اس میں بھی خدا کی قدرت کار فرما تھی ذرا یہ تو سوچو کہ آخر ایسا کیوں ہوا ؟کیا وجہ ہے کہ میں نے اپنے باپ کے گھر میں اور میں کی آغوش میں تربیت نہیں پائی ؟آخر کس لئے ؟
کیا تو نے بنی اسرائیل کو غلامی کی زنجیروں میں نہیں جکڑ رکھا ؟یہاں تک کہ تونے اپنے خود ساختہ قوانین کے تحت ان کے لڑکوں کو غلام اور لڑکیوں کو کنیز بنایا ۔
تیرے بے حد و حساب مظالم اس بات کا سبب بن گئے کہ میری ماں اپنے نومولود بچے کی جان بچانے کی غرض سے مجھے ایک صندوق میں رکھ کر دریائے نیل کی بے رحم موجوں کے حوالے کردے اور پھر منشائے ایزدی یہی تھا کہ میری چھوٹی سی کشتی تمہارے محل کے نزدیک لنگر ڈال دے ۔ہاں تو تمہارے بے انداز مظالم ہی تھے جن کی وجہ سے مجھے تمہارا مرہون منت ہونا پڑا اور جنہوں نے مجھے اپنے باپ کے مقدس اور پاکیزہ گھر سے محروم کرکے تمہارے آلودہ محل پہنچا دیا ۔
اس تفسیر کے سا تھ موسیٰ علیہ السلام کاجواب فرعون کے سوال کے سلسلے میں مکمل طور پر واضح ہو جاتا ہے ۔
آیت کی تفسیر میں ایک احتمال یہ بھی ہے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام کی مراد یہ تھی کہ اگر میری پرورش تمہاری طرف سے کوئی نعمت ہو بھی سہی تب بھی ان مظالم کے مقابلے میں ایسے ہے جیسے سمندر کے سامنے قطرہ، جو چیز تو نعمت کی صورت میں بیان کررہا ہے کیسی نعمت ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ تمام مظالم بھی ہیں ۔
ایک تیسری تفسیر بھی ہے جو فرعون کے سوال میں موسیٰ کے جواب کی صورت میں بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اگر میں نے تیرے محل میں پرورش پائی ہے اور رنگ برنگی نعمتوں سے بہرہ یاب ہواہوں تو یہ بات بھی تجھے فراموش نہیں کرنی چاہئیے کہ اس محل کے اصل تعمیر کار میری قوم کے افراد ہی تھے جنھیں تونے غلام بنایا ہوا ہے یہ تمام نعمتیں مہیا کرنے والے بنی اسرائیل کے قیدی ہی تھے میری قوم کے افراد کی کمائی پر تو مجھ پر کس طرح احسان جتا رہا ہے ۔
باوجودیکہ ان تینوں تفسیروں میں کوئی باہمی تضاد نہیں ہے لیکن کئی لحاظ سے پہلی تفسیر زیادہ واضح معلوم ہوتی ہے ۔
ضمنی طور پر یہ بھی بتا تے چلیں کہ ”من المرسلین “ کی تعبیر اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ صرف ایک میں ہی رسول اور خدا کا بھیجا ہوا انسان نہیں ہوں بلکہ مجھ سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر گزرے چکے ہیں ، میں ان میں سے ایک ہوں اور تونے سب کو فراموش کردیا ہے ۔
1۔”راغب“نے ”مفردات“ میں لکھا ہے کہ ”رسول“ کا لفظ کلمات میں سے ہے جن کااطلاق مفرد اور جمع پر یکساں ہوتا ہے ۔اگر چہ کبھی اس کی جمع ”رسل“ بھی لائی جاتی ہے اور بعض لوگوں نے اسے مصدر اور ”رسالت“ کے معنیٰ میں لیا ہے اور معلوم ہے کہ مصدر کے تثنیہ اور جمع کے صیغے نہیں ہوتے (” لسان العرب“) میں ہے ”الرسول بمعنی الرسالة“) لیکن حقیقتاًیہ لفظ وصفی ٰ معنی میں استعمال ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ بعض مواقع پر اس ک ااستعمال تثنیہ اور جمع کی صورت میں ہوتا ہے چنانچہ موسیٰ اور فرعون کی داستان میں آیا ہے :انّا رسولا ربک ہم دونوںتیرے رب کے بھیجے ہوئے ہیں ۔(سورہٴ طٰہٰ/۴۷)
2۔ یہ گفتگو حضرت امام علی بن موسیٰ رضا علیہ اسلام کی حدیث کے مطابق ہے جسے صاحب تفسیر ”نور الثقلین “ نے اسی آیت کی تفسیر کے ضمن میں جلد ۴ ص ۴۸ پر بیان کیا ہے ۔
سوره شعراء / آیه 16 - 22سوره شعراء / آیه 23 - 29
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma