وہ ہر نئی چیز سے خوف کھاتے ہیں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 15
سوره شعراء / آیه 1 - 6۱۔ ایمان آزادی کے ساتھ ہی سود مند ہوتا ہے ۔
ہم ایک دفعہ پھر قرآن کے ایک اور قسم کے حروف مقطعات کو ملاحظہ کررہے ہیں وہ (طٰسم)۔
اس قسم کے حروف مقطعات کی تفسیر میں ہم سورہ ٴ بقرہ ، سورہ ٴ آل عمران اور سورہ اعراف کے آغاز میں بالتفصیل اور جدا گانہ گفتگو کر چکے ہیں جسے یہاں پر دہرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔
یہاں پر جس چیز اضافہ کیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ ”طٰسم“ کے بارے میں پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب سے متعدد روایات نقل ہوئی ہیں جو سب کی سب یہ بتا رہی ہیں کہ یہ خدا وند تبارک و تعالیٰ یا قرآن مجید کے اسماء یا مقدس مقامات یا بہشت کے درخت وغیرہ کے ناموں کے علامتیں ہیں ۔
یہ روایات اس تفسیر کی تائید کرتیہیں جو ہم نے تفسیر نمونہ کی چھٹی جلد میں سورہ ٴ اعراف کے آغاز میں درج کی ہے اور اس تفسیر کے منافی بھی نہیں ہیں جو سورہٴ بقرہ کے آغاز میں ذکر کی گئی ہے کہ ان حروف سے مرادقرآن کی عظمت اور اس کا اعجاز ہے کہ اس قدر عظیم کلام اس قدر سادہ اور چھوٹے سے حروف سے مرکب ہے ۔
بعد والی آیت قرآن پاک کی عظمت کو ان الفاظ میں بیان کرتی ہے : یہ کتاب ِ مبین کی آیتیں ہیں (تِلْکَ آیَاتُ الْکِتَابِ الْمُبِینِ )۔
البتہ ادبیات عرب کی رو سے ”تلک“ کا ارشاد دور کے لئے آتا ہے جس کا معنیٰ ”وہ“ ہوتا ہے لیکن جیسا کہ ہم پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں کہ کلام ِ عرب اوربعض اوقات فارسی زبان میں بھی کسی چیز کی عظمت کو بیان کرنے کے لئے دور کے اسم اشارہ سے استفادہ کرتے ہیں یعنی موضوع اس قدر اہم اور بلند مرتبہ ہے گویا ہماری دسترس سے باہر اور آسمان کی بلندیوں پر واقع ہے ۔
یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ یہی آیت بعینہ اسی صورت میں سورہ ٴ یوسف اور سورہٴ قصص کے آغاز میں بھی آچکی ہے اور ہر جگہ حروف ِ مقطعہ کے بعد آئی ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان حروف کا قرآن مجید کی عظمت کے ساتھ گہرا ربط ہے ۔
”قرآن“کی توصیف ”مبین “ کے ساتھ کی گئی ہے ”مبین “ ” بیان “کے مادہ سے ہے جس کا معنی ہے ”روشن“ اور یہ قرآن مجید کی عظمت اور اعجاز کے واضح اور آشکار ہونے کی طرف اشارہ ہے کہ انسان جتنا اس کے مطالب میں غور و فکر کرے گا اتناہی قرآن کے معجزہ ہونے سے آشنا ہوتا جائے گا۔
اس کے علاوہ قرآن مجید ”حق“ اور ”باطل“میں تمیز کرنے والااور سعادت ، کا میابی اور نجات کے رستے کو گمراہی کے رستے سے جدا کرنے والا بھی ہے ۔
اس کے بعد رسول پاک کی دلجوئی اور تسلی کے لئے قرآن فرماتاہے :گویا تو شدت ِ غم کی وجہ سے جان دے دے گا کہ وہ لوگ ایمان نہیں لاتے (لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ اٴَلاَّ یَکُونُوا مُؤْمِنِینَ ) ۔
”باخع“ کا صیغہ ”بخع“ ( بر وزن ”بخش“) کے مادہ سے ہے جس کا معنی ٰ ہے شدت ِ غم کی وجہ سے اپنے آپ کو مارڈالا اس بات کی ہ اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ پیغمبر اسلام کس حدتک لوگوں کے لئے دلسوز ہیں اور اپنی رسالت کے فریضے کی ادائیگی کے لئے کس قدر کوشاں ہیں ؟جب آپ دیکھتے تھے کہ وہ قرآن اور اسلام جیسے چشمہ ٴ آب ِ زلال کے کنارے پر پیاسے کھڑے ہوئے ہیں اور اس سے اپنی پیاس نہیں بجھا تے تو اس سے آپ کو کتنا دکھ ہوتاتھا ؟
وہ اس بات سے مغموم تھے کہ قرآن و اسلام جیسے روشن چراغ کی موجودگیمیں صاحبان ِ عقل کیوں بے راہ روی کا شکار ہیں اور کیوں گمراہی کی گہرائیوں میں گر کر اپنے آپ کو ہلاک کررہے ہیں ۔
ویسے تو تمام انبیاء الہٰی اسی طرح غم خوار ، ہمدرد دلسوز تھے لیکن اسلام کے عظیم پیغمبر تو ایسے واقعات پر بہت ہی غمگین تھے ۔ چنانچہ آپ کے بارے میں کئی مقامات پر قرآن میں اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے ۔
بعض مفسرین یہ کہتے تھے کہ مندرجہ بالا آیت کے نزول کا سبب یہ تھا کہ آنحضرت نے بار بار اہل مکہ کو دعوت ِ اسلام دی لیکن انھوں نے آپ کی ایک نہ سنی اور ایمان نہیں لائے تو ایک مرتبہ آپ اس قدر غمگین اور پریشان ہوگئے کہ اس کے آثار آپ کے چہرہ مبارک پر ظاہر ہوگئے چنانچہ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی جس نے آپ کو تسلی دی اور آپ کی دلجوئی کی(1) ۔
بعد والی آیت اس حقیقت کے ثابت کرنے کے لئے کہ خدا وند عالم ہر چیز پر قادر ہے حتیٰ کہ وہ مجبور کرکے بھی لوگوں کو ایمان لانے پر آمادہ کرسکتا ہے فرمایا گیا ہے : اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے کوئی آیت نازل کردیں جس کی وجہ سے ان کی گر دنیں جھک جائیں ( إِنْ نَشَاٴْ نُنَزِّلْ عَلَیْہِمْ مِنْ السَّمَاءِ آیَةً فَظَلَّتْ اٴَعْنَاقُھُمْ لَھَا خَاضِعِینَ ) ۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہم اس قدر قدرت رکھتے ہیں کہ ان پر ایسا خیرہ کردینے والا معجزہ یا زبردست اور وحشت ناک عذاب نازل کر دیں کہ سب کے سب بے ساختہ اس کے سامنے سر تسلیم ختم کردیں اور ایمان لے آئیں لیکن اس طرح کے ایمان کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی بلکہ اس بات کو اہمیت حاصل ہے کہ وہ شعوری طور پر سوچ سمجھ کر اپنے ارادے اور اختیار سے ایمان لے آئیں اور حق کے آگے اپنی گر دنیں جھکا دیں ۔
اس بات کے بتانے کی ضرورت نہیں کہ گردنوں کے جھکنے سے مراد گر دن والوں کا جھکنا ہوتا ہے کیونکہ فارسی میں ”گردن“ عربی میں ”رقبہ“ اور ” عنق “کا اطلاق انسان کے ایک اہم ترین عضو پر ہوتا ہے جو کنایہ کی صورت میں خود انسان پر بھی بولا جاتا ہے جیسے باغی اور سر کش انسان کو فارسی میں ”گر دن کش“ جابر ظالم انسان کو ” گر دن کلفت “اور کمزور شخص کو ”گر دن شکستہ“ کہتے ہیں ۔
البتہ اس مقام پر”اعناق“ کی تفسیر میں اور بھی کئی احتمال پیدا ہوتے ہیں جو سب کے سب ضعیف ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ”اعناق“کامعنیٰ یا تو ” سر براہاور روساء “ہے اور یا لوگوں کو ایک گروہ ہے ۔
آگے چل کر قرآن مجید کے مقابلے میں کفار اور مشر کین کے رد عمل کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے : جو بھی نیذکر خدا وند رحمن کی طرف سے ان کے پاس آتا ہے وہ اس سے منہ پھیر لیتے ہیں ( وَمَا یَاٴْتِیہِمْ مِنْ ذِکْرٍ مِنْ الرَّحْمٰنِ مُحْدَثٍ إِلاَّ کَانُوا عَنْہُ مُعْرِضِینَ )۔
قرآن کو ”ذکر “ سے تعبیر کرنا اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ یہ مقدس کتاب اپنی تمام آیات اور سورتوں کے ساتھ بیدار اور آگاہ کرنے والی ہے لیکن یہ گروہ بیداری اور آگاہی سے دور بھاگتا ہے ۔
” رحمن “ کی تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ آیات اس خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہیں جس کی رحمت عام ہے اور کسی استثناء کے بغیر وہ تمام بنی نوع انسان کو سعا دت اور کمال کی طرف دعوت دیتا ہے ۔
یہی بھی ممکن ہے کہ یہ انسان وں کی شکر گزاری کی حس ّ بیدار کرنے کے لئے ہو کہ یہ آیات اس خدا کی طرف سے ہیں جس کی نعمتیں تمہیں سر سے پاوٴں تک ڈھانپے ہوئے ہیں تم کیوں اپنے ولی نعمت سے منہ موڑرہے ہو ۔اگر وہ تمہیں عذاب دینے میں جلدی نہیں کرتا تو یہ بھی اس کی رحمت کے باعث ہے ۔
”محدّث“(نیا،تازہ)کی تعبیر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ آیات ایک دوسرے کے بعد نازل ہوتی رہتی ہیں اور ہر ایک کا کوئی نہ کوئی نیا مضمون ہوتا ہے ۔لیکن اس کا کیا جائے کہ وہ ان نئے حقائق سے موافقت نہیں کرتے گویا وہ اپنے بڑوں کی خرافات پر ڈٹے ہوئے ہیں اور جہالت ، گمراہی اور خرافات کو الوداع کہنے پر کسی قیمت پر راضی نہیں ۔ اصلاًہوتا بھی یہی ہے کہ نئی بات خواہ کتنی ہی ہدایت کی موجب کیوں نہ ہوبے سمجھ، متعصب اور ہٹ دھرم لوگ اس کی مخالفت ہی کرتے ہیں ۔
سورہٴ مومنون کی آیت ۶۸ میں ہے :
افلم یدبروا القول ام جائھم مالم یاٴت آبائھم الاوّلین
آیا انہوں نے اس بات پر غور نہیں کیا یا یہ کہ آیات نئی ہیں جو ان کے بزرگوں کے پاس کبھی نہیں آئیں ( اور نئی بات کہہ کر اس کے مقابلے کی تیاری شروع کردیتے ہیں )۔
قرآن آگے چل کر فرماتا ہے کہ وہ فقط رو گردانی پر ہی اکتفاء نہیں کرتے بلکہ” تکذیب “اور اس سے بڑھ کر ”استہزاء“ کی حدتک جاپہنچتے ہیں ارشاد ہوتا ہے : انھوں نے تکذیب کی ہے لیکن وہ استہزاء کرتے ہیں بہت جلد اس کی خبریں ان کے پاس آجائیں گی او روہ اپنے کاموں کی دردناک جزا سے باخبر ہو جائیں گے ( فَقَدْ کَذَّبُوا فَسَیَاٴْتِیھِمْ اٴَنْبَاءُ مَا کَانُوا بِہِ یَسْتھْزِئُون)۔
”انباء“ ”نباٴ“ کی جمع ہے جس کا معنیٰ اہم خبر ہے یہاں پر ایسی سخت سزا مراد ہے جو انھیں اس دنیا میں اور آئندہ جہان میں ملے گیاگر چہ بعض مفسرین مثلاً شیخ طوسی نے اپنی تفسیر تبیان میں اس سزا کو آخرت کی سزا میں منحصر کیا ہے لیکن زیادہ مفسرین اسے مطلق سزا سمجھتے ہیں جس میں دونوں شامل ہیں ۔
در حقیقت ہے بھی ایسا ہی کیونکہ آیت میں اطلاق ہے اس کے علاوہ کفر اور آیاتِ الہٰی کے انکار کا انسان کی تمام زندگی میں عظیم اور وحشت ناک رد عمل ہوتا ہے لہٰذا اس سے صرف ِ نظر نہیں کیا جاسکتا ۔
اس آیت میں اور اسے پہلی آیت میں غور وفکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان انحراف اور گمراہی کا راستہ اختیار کرتا ہے تو دن بدن اس کا فاصلہ بڑھتا جاتا ہے اور وہ روز بروز حق و حقیقت سے دور ہو تا جاتا ہے ۔
پہلے تو حق سے بے پروانی اور روگردانی کا مرحلہ آتا ہے ، پھر تکذیب اور انکار کی نوبت آتی ہے آخر میں حق کے مذاق اُڑانے کا مرحلہ آجاتا ہے جس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ انسان کو عذابِ الہٰی گھیر لیتا ہے اس طرح سے وہ اپنے کیفر کردار کو پہنچ جاتا ہے ( اس طرح کی تعبیر سورہٴ انعام کے آغاز میں آیت نمبر ۴ اور نمبر ۵ کی تفسیر میں بھی گذر چکی ہے )۔
 1۔ تفسیر ابو الفتوح رازی جلد۸ ، اسی آیت کے ذیل میں ۔
سوره شعراء / آیه 1 - 6۱۔ ایمان آزادی کے ساتھ ہی سود مند ہوتا ہے ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma