چند نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 15
بہشت اور دوزخ کا موازنہسوره فرقان / آیه 17 - 19

۱۔اس نکتے کی طرف بھی توجہ کرنا چاہیئے کہ مندرجہ بالا آیات میں ایک مقام پر تو ”خلد“ اور ہمیشگی کو بہشت کی صفات کے طور پر بیان فرما یا گیا ہے اور دوسری جگہ اہل بہشت کے ”خلد“اور ہمیشہ رہنے کی حالت بیان کی گئی ہے اور یہ دونوں چیزیں ہیں اس حقیقت کی غماز ہیں کہ بہشت بھی ہمیشہ کے لئے ہے اور اس میں رہنے والے بھی وہاں ہمیشہ رہیں گے ۔
۲۔”لھم فیھامایشاء ون“(جو کچھ وہ چاہیں گے بہشت میں موجود ہو گا )کا جملہ جہنمیوں کے بارے میں آنے والے اس جملہ کے ٹھیک مقابل میں ہے :
وحیل بینھم و بین مایشتھون
۳۔بہشت کے بارے میں ”مصیر “(ٹھکانا،لوٹ آنے کی جگہ ) کو”جزاء“ کے بعد ذکر کیا گیا ہے ۔در حقیقت جزا کے مفہوم میں جو کچھ آسکتا ہے یہ اسی کی تاکید ہے اور جہنمیوں کے ٹھکانے اور ان کی سزا کا متقابل نقطہ ہے جوسابقہ آیات میں ذکر ہو چکا ہے ان کے ہاتھ پاوٴں زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہوں گے اور خود ایک تنگ جگہ میں مقید ہوں گے۔
۴۔”کان علی ربک وعداً مسئولاً“کاجملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مومنین اپنی دعا وٴں میں تمام نعمتوں سمیت بہشت کی درخواست کرتے ہیں گویا وہ ”سائل“ ہیں اور خدا وند عالم”مسئول عنہ“ ہے جیسا کہ خدا وند عالم سوہٴ آل عمران کی آیت ۱۹۴ میں مومنین کا قول بیان کرتاہے :
ربنا اٰتنا ما وعدتناعلیٰ رسلک
”اے ہمارے پر ور دگار!جو کچھ تو نے ہمارے بارے میں اپنے رسولوں سے وعدہ فرمایا ہے وہ ہمیں عنایت فرمایا ۔“
نیز زبان حال سے یہ د ر خواست تمام مومنین کی ہے کیونکہ جو شخص بھی اس کے فرمان کی اطاعت کرتا ہے زبان حال کے ساتھ اس کی یہی درخواست ہے ۔
اسی طرح فرشتے بھی مومنین کے بارے میں خدا سے یہی درخواست کرتے ہیں جیسا کہ سورہ ٴ مومن کی آیت ۸ میں ہے :
ربنا و ادخلھم جنات عدن التی وعدتھم
” اے ہمارے پر وردگار !تونے مونین کے ساتھ بہشت کے جن جاودانی باغات کا وعدہ فرمایا تھا ان میں انھیں داخل فرما۔“
یہاں پر ایک اور تفسیر بھی ملتی ہے اور وہ یہ کہ ” مسئولا“ کا کلمہ خدا وند عالم کے حتمی وعدے کی تاکید ہے یعنی وہ وعدہ اس حتمی ، وقطعی اوریقینی ہے کہ مومنین اس کا مطالبہ خدا سے کرسکتے ہیں ۔ یہ بعینہ ایسے ہے جیسے ہم کسی سے کوئی وعدہ کریں اور اسے یہ حق بھی دے دیں کہ جب چاہے ہم سے اس کا مطالبہ بھی کرسکتا ہے ۔
البتہ اگر ان تمام معنی کو” مسئولا“کے وسیع مفہوم میں جمع کردیں تو کوئی حرج نہیں ۔
۵۔”لھم فیھا مایشاوٴن“ ( جوکچھ وہ چاہیں گے وہاں موجود ہوگا)کے جملے کو پیش نظر رکھتے ہوئے کچھ لوگوں کے لئے یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ اگر جملے کے وسیع مفہوم کو سامنے رکھیں تو اس کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ مثلا ً اگر بہشتی لوگ انبیاء اور اولیاء کے مقام کو بھی خواہش کریں تو وہ انھیں مل جائے گا یا اگر اپنے گناہگار دوستوں اور رشتہ داروں کی نجات کی خواہش کریں تو وہ بھی پوری ہو جائے گی یا اس قسم کے دوسرے سوالات ۔
لیکن اگر ایک نکتہ کی طرف توجہ کی جائے تو اس سوال کا جواب واضح ہو جائے گا وہ یہ کہ اہل بہشت کی آنکھوں کے سامنے سے تمام پردوں کو ہٹا دیا جائے ۔ گا ۔وہ حقائق کو اچھی طرح سمجھ لیں گے اور باہمی تناسب ان کے لئے مکمل طور پر واضح ہو جائے گا ۔ وہ کبھی اس بارے میں سوچیں گے بھی نہیں کہ خدا سے ایسی چیزوں کی درخواست کریں جیسے ہم دنیا میں اس بات کا تقاضا نہیں کرسکتے کہ پرائمری کلاس کا ایک طالب علم یونیورسٹی کا پروفیسر بن جائے ۔ آیا اس طرح کی باتیں دنیا میں کسی عقل مند کے ذہن میں آسکتی ہیں ؟ اگر یہاں پر ایسا نہیں ہے تو وہاں پر بھی ایسا نہیں ہوسکتا۔
ان سب چیزوں سے قطع نظر ان کی خواہشات خداوند عالم کی مرضی کے تابع ہو ں گی ۔ وہ وہی کچھ چاہیں گے جوخداچاہے گا ۔
بہشت اور دوزخ کا موازنہسوره فرقان / آیه 17 - 19
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma