نوح علیہ اسلام کے گرد افراد

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 15
سوره شعراء / آیه 105 - 115سوره شعراء / آیه 116 - 122

قرآن مجید جناب ابراہیم علیہ السلام کی داستان اور ان کی اپنی گمراہ قوم کے ساتھ گفتگو کے بعد نوح علیہ السلام کی قوم کا تذکرہ کرتا ہے اور اسے ایک اورسبق آموزداستان کی صورت پیش کرتا ہے اور چند آیات میں اس قوم کی ہٹ دھرمی، ضد اور بے شرمی کو ان کے دردناک انجام کے ساتھ بیان کرتا ہے ۔
سب سے پہلے کہتا ہے :قوم نوح نے رسولوں کو جھٹلایا( کَذَّبَتْ قَوْمُ نُوحٍ الْمُرْسَلِینَ)(1) ۔
معلوم ہے کہ نوح کی قوم نے سرف نوح کی ہی تکذیب کی تھی لیکن چونکہ اصولی طور پر تمام انبیاء علیہم السلام کی دعوت ایک ہوتی ہے لہٰذا نوح کی تکذیب تمام رسولوں کی تکذیب شمار ہوئی ۔ لہٰذا خدا بھی ہی فرماتا ہے کہ نوح کی قوم نے ”رسولوں “ کو جھٹلایا ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ نوح علیہ السلام کی قوم تمام ادیان اور مذاہب ہی کی منکر ہو اور وہ خدا کے تمام انبیاء کی تکذیب کرتی ہو چاہے وہ نوح سے پہلے گزر چکے تھے یا ان کے بعد آنے والے تھے ۔
پھر ابراہیم اور موسیٰ علیہما السلام کی طرح ان کی زندگی کا بلند نصب العین بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے :اس وقت کو یا د کرو جب ان کے بھائی نوح نے انھیں کہا: کیا تم پر ہیز گاری اختیار نہیں کرتے ہو( إِذْ قَالَ لَھُمْ اٴَخُوھُمْ نُوحٌ اٴَلاَتَتَّقُونَ)۔
”بھائی “ کی تعبیر ایسی ہے جو مساوات اور برابری کی بنیاد پر ایک نہایت ہی محبت آمیز تعلق کو ظاہر کرتی ہے یعنی حضرت نوح علیہ السلام ان پر کسی قسم کی بر تری جتائے بغیر نہایت ہی سادگی اور صمیم قلب کے ساتھ انھیں دعوت ،پر ہیز گاری دیتے رہے ۔
اخوت کی تعبیر صرف حضرت نوح علیہ السلام ہی کے لئے نہیں آئی بلکہ ہود،صالح اور لوط علیہم السلام جیسے دوسرے انبیاء کے لئے بھی آئی ہے جو راہ حق کے تمام راہنماوٴن کی راہنمائی کر رہی ہے کہ ان کی دعوت نہایت ہی پیار، محبت اور عزم و خلوص پر مبنی ہونی چاہیئے اور ہر قسم کے فوقیت طلبی سے دوری اختیار کرنی چاہیئے تاکہ دین حق سے دوربھاگے ہوئے دل زیادہ سے زیادہ نزدیک آجائیں اور کسی قسم کا بوجھ بھی اپنے لئے محسوس نہ کریں ۔
چونکہ ہر قسم کی ہدایت او رمکمل نجات کا دارومدار تقویٰ پر ہے لہٰذا اسے بیان کرنے کے بعد فرمایا گیا ہے : میں تمہارے لئے ( اللہ کا ) امین رسول ہوں ( إِنِّی لَکُمْ رَسُولٌ اٴَمِینٌ )۔
”خدا سے ڈرو، تقویٰ اپناوٴاور میری اطاعت کرو“ ( فَاتَّقُوا اللهَ وَاٴَطِیعُونِی )۔
اس تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی امانت کے لحاظ سے اپنی قوم میں ایک عرصہ دراز سے مسلم حیثیت تھی اور لوگ آپ علیہ اسلام کو ”امین “ کی اعلیٰ صفت کے ساتھ پہچانے تھے ۔ اسی لئے آپ علیہ اسلام بھی فرماتے ہیں ؛اسی دلیل کی بناء پر خدائی رسالت کی ادائیگی میں بھی امین ہوں او رمجھ سے کسی قسم کی کوئی خیانت نہیں دیکھو گے ۔
”تقویٰ “کو ”اطاعت“ پر مقدم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ”اللہ“ کی ذات پر مکمل ایمان و اعتقاد نہ ہو اور دل میں اس کی ذات کا کوف نہ ہو تو اس کے پیغمبر کی اطاعت نہیں ہو سکتی۔
ایک بار پھر حضرت نوح علیہ السلام اپنی نبوت کی حقانیت پر ایک دلیل پیش کرتے ہیں ۔ یہ ایسی دلیل ہے جس سے بہانہ بنانے والے لوگوں کی زبان بند کردیتے ہیں چنانچہ فرماتے ہیں میں تم سے اس دعوت کے عوض میں کوئی مزدوری نہیں مانگتا( وَمَا اٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اٴَجْرٍ )۔
”میرا اجر تو پر وردگار ِ عالم کے ذمے ہے “(إِنْ اٴَجْرِی إِلاَّ عَلَی رَبِّ الْعَالَمِینَ )۔
ظاہر ہے کہ رضا ئے الہٰی عموماً نبوت کے دعویدار کی صداقت کی دلیل ہوتی ہے جبکہ مادی اغراض بکوبی واضح کرتی ہیں کہ اس کا مقصد مفاد پرستی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ خاص کر اس زمانے کے اعراب اس مسئلے کے سلسلے میں کاہنوں اور ان جیسے افراد سے اچھی طرح واقف تھے۔
اس جملے کے بعد پھر وہی جملہ کہتے ہیں جو انھوں نے اپنی رسالت اور امانت کو بیان کرنے کے بعد کہا تھا: فرماتے ہیں : ڈرو او رمیری اطاعت کرو(فَاتَّقُوا اللهَ وَاٴَطِیعُونِی )۔
لیکن ہٹ دھرم مشرکین اور خود سر مستکبرین نے جب بہانہ تراشیوں کی تمام راہیں اپنے اوپر بند دیکھیں تو یہ بہانا بنانا شروع کردیا اور کہا : آیا ہم تجھ پر ایمان لے آئیں جب کہ پست اور ذیل لوگ تیری پیروی کر چکے ہیں ( قَالُوا اٴَنُؤْمِنُ لَکَ وَاتَّبَعَکَ الْاٴَرْذَلُونَ )۔
کسی رہبر اور پیشوا کی حیثیت اور اس قدر و قیمت اس کے پیرو وٴں سے پہچانی جاتی ہے اور اصطلاح کے مطابق صاحب ِ مزار کو اس کے زائرین سے پہچانا جاتا ہے جب ہم تمہارے پیروکاروں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں ہر چند ایک بے بجاعت، گمنام ، فقیر اور گریب لوگ ہی نظر آتے ہیں جن کا سلسلہ ٴ روز گار نہایت ہی معمولی ہے تو پھر ایسی صورت میں تم کس طرح امید کر سکتے ہو کہ مشہور و معروف دولت مند اور نامی گرامی لوگ تمہارے سامنے سر تسلیم خم کرلیں گے ۔
ہم او ریہ لوگ کبھی بھی ایک ساتھ نہیں چل سکتے ہم نہ تو کبھی ایک دسترخوان پر بیٹھے ہیں او رنہ ہی ایک چھت کے نیچے اکھٹے ہوئے ہیں تمہیں ہم سے کیسی غیر معقول توقع ہے ۔
یہ ٹھیک ہے کہ وہ اپنی اس بات میں سچے تھے کہ کسی پیشوا کو اس کے پیروکاروں سے پہچانا جاتا ہے لیکن ان کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے شخصیت کے مفہوم اور معیار کو اچھی طرح نہیں پہچانا تھا۔ ان کے نزدیک شخصیت کا معیار مال ، دولت لباس اور گھر اور خوبصورت اور قیمتی سواری تھا لیکن طہارت ، تقویٰ ، حق جوئی جیسی اعلیٰ انسانی صفات سے غافل تھے جوغریبوں میں زیادہ اور امیروں میں کم پائی جاتی ہیں ۔
طبقاتی اونچ نیچ بدترین صورت میں ان کی افکار پر حکم فرماتھی ۔ اسی لئے وہ غریب لوگوں کو ”اراذل“ سمجھتے تھے ۔
”اراذل“،ارذل“ ،(بر وزن’اہرم“ ) کی جمع ہے ور وہ بھی ”رذل“ بمعنی پست اور حقیر کی جمع ہے اور اگر وہ طبقاتی معاشرے کے قید خانے سے باہر نکل کر سوچتے اور باہر کی دنیا کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے تو معلوم ہو جاتا کہ ایسے لوگوں کا ایمان اس پیغمبر علیہ اسلام کی حقانیت اور اس کی دعوت کی سچائی پر بذات خود ایک دلیل ہے ۔
لیکن نوح علیہ السلام انھیں یہ کہہ کر فوراً لاجواب کر دیتے ہیں کہ میرا تو حق کی طرف دعوت دینا اور معاشرے کی اصلاح کرنا ہے میں کیا جانوں کہ وہ کیا کرتے تھے (قَالَ وَمَا عِلْمِی بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ )۔
ان کا ماضی جو کچھ تھا وہ گزر چکا ، معیار موجود ہ حالت ہے اور آج انھوں نے خدا ئی راہبر کی دعوت کو ”لبیک“کہا ہے اپنی اصلاح کے لئے تیار ہو گئے ہیں اور اپنے دل کو حق کے قبضہٴ قدرت میں دے دیا ہے ۔
انھوں نے گزشتہ زمانے میں اچھا یا برا کام کیا ہے تو ”ان کا حساب و کتاب میرے پر وردگار کے پاس ہے اگر تم کچھ سمجھدار ہو “اور تمہارے اندر قوت تمیز موجود ہے ( إِنْ حِسَابُھُمْ إِلاَّ عَلَی رَبِّی لَوْ تَشْعُرُونَ)۔
اس گفتگو سے ضمنی طور پر یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ وہ لوگ ان مومنین کو غربت کے علاوہ اخلاقی اور عملی جرائم کا الزام بھی دینا چاہتے تھے کہ ان کے ماضی کا ریکاڈ کراب رہا ہے ۔ حالانکہ اخلاقی جرائم معاشرے کے خوشحال طبقے میں کئی درجے زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پاس ان جرائم کے ہر طرح کے وسائل اور ذرائع ہو تے ہیں ، وہ اپنے مال اور دولت کے نشے میں مگرور ہوتے ہیں اور خدا کے بندے بہت کم ہوتے ہیں ۔
لیکن نوح علیہ السلام نے ان سے اس مسئلے میں الجھے بغیر یہی کہا کہ میں نے ان میں کوئی برائی نہیں دیکھی اور اگر واقعاً ایسا ہے جیسا تم کہتے ہوتو پھر ان کا حساب و کتاب خدا پر ہے ۔
جو میرا فریضہ بنتا ہے وہ یہی ہے کہ میری دعوت سب حق طلب انسانوں کے لئے ہے ۔”میں کبھی ایمان لانے والوں کو دھتکاروں گا نہیں “( وَمَا اٴَنَا بِطَارِدِ الْمُؤْمِنِینَ )۔
در حقیقت یہ ان مغرور دولت مندوں کی ضمنی درخواست کا جواب ہے جو انھوں نے جناب نوح علیہ السلام سے کی تھی کہ ان غریبوں کو اپنے اطراف سے ہٹا دیں تاکہ ہم آپ کے پاس آئیں۔
میرا فریضہ صرف یہی ہے کہ لوگوں کو ڈراو۷ن میں تو صرف واضح طور پ رڈرانے والا ہوں ( إِنْ اٴَنَا إِلاَّ نَذِیرٌ مُبِینٌ )۔
جو شخص میری اس تنبیہ کو سنے اور کجروی سے صراط مستقیم پر آجائے تو وہ میرا پیرو کار ہے ۔خواہ کوئی ہو اور ا س کی مادی اجتماعی کیفیت خواہ کیسی ہی ہو۔
پھر قابل غور بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے اعتراض صرف حضرت نوح علیہ السلام پرہی نہیں کیا کہ جو سب سے پہلے اولو العزم رسول ہیں بلکہ پیغمبر خاتم الانبیاء اور اسی طرح دوسرے کئی انبیاء پر بھی کیا ہے انھوں نے اپنی سیاہ عینک سے ان مفید لباس والوں کو تاریکی میں دیکھا اور ہمیشہ انھیں دور کرنے کا تقاضا کرتے رہے ۔بلکہ وہ تو خدا اور ان انبیاء کو نہیں چاہتے تھے جن کے اس قسم کے پیروکار تھے ۔
لیکن قرآن مجید سورہٴ کہف میں کیسے عمدہ پیرائے میں پیغمبر اسلام سے فرماتا ہے :
واصبر نفسک مع الذین یدعون ربھم بالغٰدوة و العشی یریدون وجھہ ولا تعد عیناک عنھم ترید زمینة الحیٰوة الدنیا ولا تطع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا و اتبع ھواہ و کان امرہ فرطاً(کہف:۲۸)۔
ان لوگوں کے ساتھ رہو جو اپنے پر وردگار کو صبح و شام پکارتے ہیں اور صرف اسی کی ذات کو چاہتے ہیں اور اپنی آنکھوں کو دنیاوی زینت کی خاطر کبھی بھی ان سے پھیرو او ران لوگوں کی اطاعت مت کرو جن کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا، وہی لوگ تو ہین جنھوں نے اپنے نفس کی اطاعت کی ہے اور ان کا کام حد سے بڑھا ہوا ہے ۔
یہی اعتراض ہمارے زمانے میں راہ ِ حق کے راہنماوٴں اور رہبروں پر بھی کیا جاتا ہے کہ تمہارے طرفداروں کی زیادہ تر تعداد مستضعفین اور غریب لوگوں پر مشتمل ہے ۔
اس طرح سے وہ ان کے عیب بیان کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ لاشعوری طور پر ان کی تعریف اور ان کے مشن کی حقیقت کی تائید کر رہے ہوتے ہیں ۔

۔”کذبت“ کو موٴنث اس لئے لایا گیا ہے کہ قوم”جماعت“ کے معنی میں ہے اور جماعت مونث لفظی ہے ۔ بعض ارباب فن کہتے ہیں کہ قوم مونث ذاتی ہے کیونکہ اس کی تصغیر”قویمة“آتی ہے ( پہلی بات طبرسی نے مجمع البیان میں اور دوسری فخر رازی نے اپنی تفسیر میں کہی ہے ) لیکن آلوسی اپنی تفسیر روح المعانی میں کہتے ہین کہ ”لفظ ”قوم“ مذکر اور مونث دونوں سورتوں میں استعمال ہوتا ہے ۔
سوره شعراء / آیه 105 - 115سوره شعراء / آیه 116 - 122
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma