اعمال صالح کی تباہی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 15
بہت بڑے دعوےسوره فرقان / آیه 25 - 26

لفظ ”ھباء “ کا غبار کے وہ نہایت ہی باریک ذرّات ہیں جو عام حالات میں دیکھنے میں نہیں آتے لیکن جب سورج کی روشنی بند کمرے کے سوراخ سے کمرے کے اندر آتی ہے تو اس میں یہی ذرّات تیرتے نظر آتے ہیں ۔
اس تعبیر سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کفار اور مشرکین کے اعمال اس قدر بے قیمت اوربے اثر ہوں گے کہ گویا ان کا کوئی وجود ہی نہیں ہوگا خواہ وہ اپنے اعمال کے لئے سالہا سال تک کوشش ہی کیوں نہ کرتے رہے ہوں ۔
یہ آیت سورہ ابراہیم کی آیت ۱۸ کی مانند ہے جس میں خدا فرماتا ہے :۔
مثل الذین کفروا بربھم اعمالھم کرماد اشتدت بہ الریح فی یوم عاصف
جن لو گوں نے پر وردگار کا انکار کیا ہے ان کے اعمال کی سزا ایسی ہے جیسے کسی طوفانی دن میں تیز ہوا کے سامنے راکھ کا ڈھیر۔
اس کی منطقی دلیل بھی واضح ہے کیونکہ جو چیز انسان کے اعمال کو شکل و صورت ، حیثیت اور قدر و منزلت عطا کرتی ہے وہ ہے انسان کی نیت اور اس کا قصد و ارادہ ، کیونکہ مومنین کے اعمال میں رضائے خدا ، توحید ،پاکیزہ مقصد اور صحیح و سالم منصوبہ بندی پیشِ نظر ہوتی ہے جبکہ بے ایمان افراد کے پیش نظر ظاہر داری ، ریا کاری ،جھوٹ ، فریب اور ذاتی مفادات ہوتے ہیں جن کی وجہ سے ان کے اعمال صالح بھی ان کی قدر و منزلت کھو دیتے ہیں ۔
مثال کے طور پر ہم ایسی مساجد کو بھی جانتے ہیں ۔جو صدیوں پرانی ہیں ۔ سینکڑوں سال گزر جانے کے بعد بھی ان میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا جبکہ اس کے بر عکس ایسے گھروں کو بھی جانتے ہیں جو ایک ماہ یا ایک سال گزر جانے کے بعد خراب ہونا شروع ہو گئے ہیں اور ان میں کوئی نہ کوئی نقص پیدا ہوگیاہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مساجد کی تعمیر کے سلسلے میں خدا کی خشنودی مطلوب ہو تی ہے لہٰذا انھیں ہر لحاظ سے پختہ اور تمام حوادث کو پیش نظر رکھ کر بہترین مٹیریل کے ساتھ تعمیر کیا گیا ، جبکہ رہائشی مکانوں کے سلسلے میںظاہر داری اورفریب کاری کے ذریعے مال و دولت کا جمع کرنا مقصود تھا صرف ان ظاہری آب وتاب اور نقش و نگار کی طرف توجہ دی گئی (1) ۔
اصولی طور پر اسلامی منطق کی رو سے اعمال صالح کے لئے کچھ آفتیں ہیں جن کی طرف زیادہ توجہ دینا چاہئیے کہ کبھی تو وہ اپنے آغاز ہی سے تباہ و برباد ہو جاتے ہیں جیسے وہ اعمال جو ”ریا“ کے طور پر انجام دئے جائیں۔
کبھی ان عمال کی انجام دہی کے دوران ہی انسان غرور، تکبر اور خود پسندی کا شکار ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کے اعمال کی قدر وقیمت وضائع ہو جاتی ہے ۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اعمال خیر کی ادائیگی کے بعد انسان سے ایسے نا مناسب کام سر زد ہو جاتے ہیں جن سے ان اعمال کا اثر بالکل ختم ہو جاتا ہے مثلا ًراہ خدا میں خرچ کرنے کے بعد احسان جتانا اس کے اثر کو زائل کردیتا ہے یا جن نیک اعمال کی انجام دہی کے بعد انسان کا فر یا مرتد ہو جائے ۔
حتی کے بعض اسلامی روایات کے مطابق بعض اعمال ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی انجام دہی سے پہلے کے گناہ کی وجہ سے ان کاکوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوتا۔ جس طرح شراب خور کے بارے میں ہے کہ اس کے اعمال چالیس روز تک بار گاہ ایزدی میں قبول نہیں ہوتے (2) ۔
بہر حال اسلام کے نزدیک عمل ِ صالح کا ایک بچا تلال اور منظم معیار ہے ۔
ایک روایت میں جو حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے :
قیامت کے دن خدا وند عالم ایک ایسے گروہ کو مبعوث فرمائے گا جن کے سامنے ان کے سفید لباس کی مانند روشنی چمک رہی ہو گی( یہ روشنی ان کے اعمال ہوں گے )پھر خدا ن کے اعمال کو حکم دے گا کہ ذرّات میں تبدیل ہو جاوٴ ( تو وہ سب ذرّات میں تبدیل ہو جائیں گے)۔
وہ کو ن لوگ ہوں گے اس بارے میں امام علیہ السلام فرماتے ہیں :۔
انھم کانوا یصومون و یصلون و لٰکن کانوا اذا عرض لھم شیء من الحرام اخذوہ واذا ذکرلھم شیء من فضل امیرالموٴمنین انکروہ۔
وہ لوگ نماز و روزہ کی بھی ادائیگی کرتے تھے لیکن جب کوئی حرام چیز ان کے سامنے آجاتی تو وہ اس سے بھی چمٹ جاتے اور جب علی امیر المومنین علیہ اسلام کی کوئی فضیلت ان کے سامنے بیان کی جاتی تو وہ اس کا انکار کرتے(3) ۔
جہاں تک قرآن مجید کا طریقہ کار ہے تو وہ نیک اور بد کو ایک ساتھ بیان فرماتا ہے تاکہ دونوں کا آپس میں موازنہ کرکے ہر ایک کی کیفیت کو اچھی طرح سمجھا جا سکے چنانچہ بعد والی آیت دوزخیوں کے بارے میں گفتگو کرتی ہے ۔خدا فرماتا ہے :اس دن بہشتیوں کا ٹھکانہ سب سے بہتر اور ان کی رہائش گاہ سب سے عمدہ ہو گی(اٴَصْحَابُ الْجَنَّةِ یَوْمَئِذٍ خَیْرٌ مُسْتَقَرًّا وَاٴَحْسَنُ مَقِیلاً)۔
اس بات کا مقصد یہ نہیں ہے کہ دوزخیوں کی حالت اچھی ہو گی اور بہشتیوں کی حالت ان سے زیادہ اچھی ہو گی، کیونکہ ،”افعل التفضیل “ کا لفظ بعض اوقات ایسے مواقع پر بھی استعمال ہوتا ہے جن میں ایک فریق میں ایسی صفات پائی جاتی ہیں دوسرا فریق جن سے بالکل عاری ہوتا ہے جس طرح سورہٴ حٰم سجدہ کی آیت ۴۰ میں ہے :
افمن یلقیٰ فی النار خیر ام من یاٴتی اٰمناً یوم القیامة
آیا جو شخص جہنم کی آگ میں ڈالا جائے گا وہ بہتر ہے یا جو شخص بروز قیامت مطمئن ہو کر عرصہ ٴ محشر میں آئے گا ۔
” مستقر“ کے معنیٰ قرار گاہ اور ٹھکانا کے ہیں اور ”مقیل “کا دوپہر کے وقت آرام کرنے کی جگہ ہے (”قیلولہ“ کے مادہ سے ہے جس کا معنیٰ ہے دو پہر کی نیند)۔
1 اس سلسلے میں ہم سے زیادہ مفصل طریقے پرتفسیر نمونہ کی جلد نمبر ۱۰ سورہ ابراہیم کی آیت ۱۸ کے ضمن میں بحث کرچکے ہیں ۔
2 ۔سفینة البحار جلد ۱ ص۴۲۷ مادہ” خمر“
3۔ تفسیر علی بن ابراہیم ۔منقول از تفسیر نور الثقلین جلد ۴ ص ۹۔
بہت بڑے دعوےسوره فرقان / آیه 25 - 26
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma