۲۔ قرآن ذریعہ جہادہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 15
۱۔ صرف ایک قیادتسوره فرقان / آیه 56 - 59

”جہاد کبیر “کا لفظ ایک الٰہی تعمیر ی جد و جہد اور نبر د آزمائی کے لئے واضح تعبیر ہے جو اس کی اہمیت کو اجگر کر رہی ہے لائق ِ توجہ بات یہ ہے کہ آیات بالا میں یہ عنوان قرآن مجید کو دیا گیا ہے یا دوسرے لفظوں میں ان لوگوں کو یہ عنوان دیا گیا ہے جو قرآن کی ذریعے ہر قسم کی لغزش ، گمراہی ، جرائم اور معاشرتی برائیوں کے خلاف بر سر پیکار ہیں ۔
یہ تعبیر ایک طرف تو منطقی اور عقیدتی جد و جہد اور نبرد آزمائی کی اہمیت کو واضح کرتی ہے دوسری طرف قرآن کی عظمت کو۔
بعض روایتوں میں ہے کہ ایک شب ابو سفیان ، ابو جہل اور مشرکین کے بہت سے دوسرے سر دارجد اگانہ طور پر اور ایک دوسرے سے چھپ کر آنحضرت سے قرآن سننے کے لئے آگئے آپ اس وقت نماز پڑھنے میں مشغول تھے اور ہر ایک ، ایک دوسرے سے بالکل بے خبر علیحدہ علیحدہ مقامات پر چھپ کر بیٹھ گیا چنانچہ وہ رات گئے تک قرآن سنتے رہے اور جب واپس پلٹنے لگے تو اس وقت صبح کی سفیدی نمودار ہو چکی تھی ۔ اتفاق سے سب نے واپسی کے لئے ایک ہی راستے کا انتخاب کیا اور ان کی اچانک ایک دوسرے سے ملا قات ہو گئی اور ان کا بھانڈا وہیں پر پھوٹ گیاانہوں نے ایک دوسرے کو ملامت کی اور اس بات پر زور دیا کہ آئندہ ایسا کام نہیں کرنا چاہئیے ،اگر نا سمجھ لوگوں کو پتہ گیا تو وہ شک و شبہ میں پڑ جائیں گے ۔
دوسری اور تیسری رات بھی ایسا ہی اتفاق ہوا اور پھر وہی باتیں دہرائیں گئیں اور آخری رات تو انھوں نے کہا جب تک اس بات پر پختہ عہد نہ کر لیں اپنی جگہ سے ہلیں نہیں چانچہ ایسا ہی کیا گیا اور پھر ہر ایک نے اپنی راہ لی ۔
اسی رات کی صبح اخنس بن شریق نامی ایک مشرک اپنا عصا لے کر سیدھا ابو سفیان کے گھر پہنچا اور اسے کہا :تم نے جوکچھ محمد سے نا ہے اس کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟
اس نے کہا :۔
خدا کی قسم ! کچھ مطالب ایسے سنے ہیں جن کا معنی بخوبی سمجھ سکا ہوں اور کچھ مسائل کے مراد اور معنیٰ کو نہیں سمجھ سکا ۔
اخنس وہا ں سے سیدھا ابو جھل کے پاس پہنچا اس سے بھی وہی سوال کیا کہ :
تم نے جو کچھ محمد سے سنا ہے ا س کے بارے میں کیا کہتے ہو؟
ابو جہل نے کہا:
سنا کیا ہے ، حقیقت یہ ہے کہ ہماری اور اولاد عبد مناف کی قدیم زمانے سے رقابت چلی آرہی ہے ۔ انھوں نے بھوکوں کو کھانا کھلایا ، ہم نے بھی کھلا یا ، انھوں نے پیدل لوگوں کو سواریاں دیں ، ہم نے بھی دیں ، انھوں نے لوگوں پر خرچ کیا سو ہم نے بھی کیا۔ گویا ہم دوش بدوش آگے بڑھتے رہے ،جب انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پاس وحی آسمانی بھی آتی ہے تو اس بارے میں ہم ان کے ساتھ کیا کس طرح برابر ی کرسکتے ہیں ؟ اب جبکہ صورت حال یہ ہے تو خدا کی قسم !ہم نہ تو کبھی اس پر ایمان لائیں گے اور نہ ہی اس کی تصدیق کریں گے ۔
اخنس نے جب یہ بات سنی تو وہاں سے اٹھ کر چلا گیا(1) ۔
جی ہاں ! قرآن کی کشش نے ان پر اس قدر اثر کردیا کہ وہ سپید ہٴ صبح تک اس الہٰی کشش میں گم رہے لیکن خود خواہی تعصب او رمادی فوائد ان پر اس قدر غالب آچکے تھے کہ انھوں نے حق قبول کرنے اسے انکار کردیا ۔
اس میں شک نہیں کہ اس نور الہٰی میں اس قدر طاقت ہے کہ ہر آمادہ دل کو وہ جہاں بھی ہو ، اپنی طرف جذب کرلیتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس ( قرآن ) کا ان آیات میں ”جہاد کبیر“ کہہ کر تعارف کرا دیا گیا ہے ۔
 1۔سیرت ابن ہشام جلد اول ص ۳۳۷ ، اور تفسیر فی ظلال القرآن جلد ۶ ص ۱۷۲۔
۱۔ صرف ایک قیادتسوره فرقان / آیه 56 - 59
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma