قوم ِعاد کے جرائم اور بے راہروی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 15
سوره شعراء / آیه 123 - 135سوره شعراء / آیه 136 - 140
اب قوم عاد اور ان کے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام کی باری آتی ہے اور اٹھارہ آیتوں میں ان کی مختصر سی سوانح ، انجام اور اس سے حاصل ہونے والے عبرت آموز سبق بیان فرمائے جاتے ہیں ۔
جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ قومِ عاد”جزیرة العرب“ کے جنوب میں واقع”یمن“ کے اطراف اور ” حضر موت“ کے علاقے میں رہتی تھی ۔
سرکش قوم نے جیسا کہ قرآن کہتا ہے ”خدا کے رسولوں کو جھٹلایا “( کَذَّبَتْ عَادٌ الْمُرْسَلِینَ)(1) ۔
اگر انھوں نے صرف حضرت ہود علیہ السلام کی تکذیب کی تھی لیکن چونکہ ہودتمام انبیاء کی دعوت تھی لہٰذا انھوں نے گویا تمام انبیاء کی تکذیب کی ۔
اس اجمالی ذکر کے بعد اب اس کی تفصیل بتاتے ہوئے فرمایا گیا ہے : جبکہ ان کے بھائی ہود نے کہا: آیا تم تقویٰ اختیار نہیں کرتے(إِذْ قَالَ لَھُمْ اٴَخُوھُمْ ھُودٌ اٴَلاَتَتَّقُونَ)۔
چونکہ ہود علیہ اسلام انھیں ایک بھائی کی مانند نہایت ہمدردی او رمہر بانی کی صورت میں توحید و تقویٰ اور حق کی جانب دعوت دیتے رہے لہٰذا یہاں پر”اخ“ ( بھائی) کا کلمہ استعمال ہوا ہے ۔
پھر انھوں نے فرمایا : میں تمہارے لئے امین ہوں ( إِنِّی لَکُمْ رَسُولٌ اٴَمِینٌ)۔
تمہارے درمیان میری زندگی کا سابقہ ریکارڈ اس حقیقت کا گواہ ہے کہ میں نے کبھی بھی خیانت کا راستہ نہیں اپنایا اور حق و صداقت کے علاوہ میرے پاس کچھ نہیں تھا ۔
اسی بات پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں :جب سورت حال یہ ہے اور تم بھی اس سے بخوبی آگاہ ہو ،”تو خدا سے ڈرو، اور پرہیز گاری اختیار کرو اور میری اطاعت کرو“ کیونکہ میری اطاعت در حقیقت خدا کی اطاعت ہے ( فَاتَّقُوا اللهَ وَاٴَطِیعُونِی )۔
اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ میں حصولِ زر کے لئے ایسا کر رہا ہوں اوریہ سب کچھ مال و دولت اور مقام و منصب تک پہنچنے کا ایک مقدمہ ہے تو تمہیں معلوم ہونا چاہئیے کہ ”میں اس دعوت کے بدلے تم سے ذرہ برابر بھی اجر نہیں مانگتا( وَمَا اٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اٴَجْرٍ )۔
”میرا اجر تو بس پر وردگار عالم کے پاس ہی ہے “(إِنْ اٴَجْرِی إِلاَّ عَلَی رَبِّ الْعَالَمِینَ)۔
تمام بر کتیں اور نعمتیں اسی کی طرف سے ہیں اگر مجھے کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے تو صرف اسی سے مانگتا ہوں ، کیونکہ ہم سب کا پر وردگار وہی ہے ۔
قرآن مجید نے حضرت داوٴد اور قوم عاد کی اس داستان کو بالترتیب چار حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔ سب سے پہلے تو حضرت ہود علیہ اسلام کی دعوت کے مندرجات بیان کیا ہے جو توحید اور تقوی ٰ پر مشتمل ہے ۔ اس کو ہم ابھی پڑھ چکے ہیں ۔
پھر ان کے ناشائستہ افعال اور ٹیڑھے پن کو بیان کرتے ہوئے انھیں تین موضوعات کی یاد دہانی کراتا ہے ۔ استفہام انکاری کی صورت میں انھیں جناب ہود علیہ اسلام مخاطب کرکے فرماتے ہیں : کیا تم ہر بلند مقام پر اپنی خواہشات کی ایک نشانی بناتے ہو (اٴَتَبْنُونَ بِکُلِّ رِیعٍ آیَةً تَعْبَثُونَ )۔
”ریع “ در اصل بلند جگہ کے معنی میں ہے اور ”تعبثون“”عبث“ کے مادہ سے ہے جس کا معنی ایسا کام ہے جس کا کو ئی صحیح مقصد پیش نظر نہ ہو اور ”آیة“ کے لفظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس مالدار اور ثروت مند قوم نے دوسروں پر اپنی خود نمائی ، فخر اور بڑائی جتانے کے لئے پہاڑ کی بلندیوں اور اونچے ٹیلوں پر (برجوں وغیرہ کی مانند)عمارتیں بنارکھی تھیں جن سے وہ لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتے اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے تھے ۔
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اس گفتگو سے مراد ان کے وہ مکانات اور جھونپڑے ہیں جو اہ اونچی جگہ پر بناتے تھے اور ان سے لہو لعاب اور عیاشی کے اڈوں کا کام لیتے تھے جیسا کہ آج کے دور میں طاغوتی لوگوں کے درمیان رسم ہے ۔
لیکن یہ تفسیر بعید معلوم ہوتی ہے کیونکہ یہ جملہ ”آیہ“ اور لفظ”عبث“ کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی۔
یہ احتمال بھی بعض مفسرین نے ذکر کیا ہے کہ قوم ِ عاد نے اس قسم کے گھر سڑکوں اور راستوں کے کنارے بلند مقامات پر بان رکھے تھے تاکہ ان بلندیوں سے وہ راہ چلتے لوگوں کا مذاق اُڑائیں ۔
ان تینوں تفسیروں میں سب سے پہلی تفسیر زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے ۔
ایک بار پھر ان پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ، فرماتے ہیں : تم خوبصورت اور پختہ محلات اور قلعے تعمیر کرتے ہویوں ہوتا ہے جیسے تم لوگ اس دنیا میں ہمیشہ رہو گے( وَتَتَّخِذُونَ مَصَانِعَ لَعَلَّکُمْ تَخْلُدُونَ )۔
”مصانع“”مصنع“ کی جمع ہے جس کا معنی ہے خوبصورت اور پختہ مکان یا عمارت۔
جناب ہود علیہ السلام ان پر اعتراض نہیں کرتے کہ تمہارے لئے مناسب گھر کیوں ہیں ؟ بلکہ وہ یہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تم اس دنیا اور اس کی زیبائش گھر وں اور محلات کو پختہ اور محکم بنانے میں اس قدر غرق ہوچکے ہو کہ تم نے سرائے آخرت کو بالکل فراموش کردیا ہے دنیا کو ایک گزر گاہ سمجھنے کی بجائے سرائے جاودانی سمجھ رکھا ہے ۔
جب صورت حال یوں ہوتو اس قسم کی غافل کر دینے اور غرور پید اکرنے والی عمارتیں یقینا قابل ِ توجہ مذمت ہیں ۔
پیغمبر اسلام کی ایک حدیث میں ہے کہ ایک دن آنحضرت کسی جگہ سے گزر رہے تھے کہ آپ کی نگاہ ایک گنبد اور عمارت پر پڑی جو راستے کے اوپر بنے ہوئے تھے، آپ نے سوال فریا :” کہ یہ کیا چیز ہے “؟
ساتھیوں نے عرض کیا یہ ایک انصاری کی عمارت ہے ، آپ وہیں پر تھوڑا سا رُک گئے کہ اتنے میں اس عمارت کا مالک بھی آگیا ۔ اس نے سلام کیا آپ نے اپنا چہرہ مبارک دوسری سے بیان کیا اور کہا :۔
”خدا کی قسم ! میں اپنے بارے میں رسول اللہ کی نظر کو بہتر نہیں دیکھ رہا ہوں، معلوم نہیں کہ مجھ سے کیا بات ہوئی ہے اور میں نے کیا کیا ہے ؟“
لوگوں نے بتایا کہ آنحضرت تمہاری عظیم الشان عمارت کو دیکھ کر ناراض ہو گئے ہیں ۔
وہ انصاری گھر واپس آگیا اور اس تمام عمارت کو گرادیا۔ ایک دن آنحضرت ک اوہاں سے گزر ہوا لیکن اس عمارت کو نہ دیکھا تو پوچھا کہ وہ عمارت کیا ہوئی؟ تو لوگوں نے تمام ماجرا بیان کیا، آپ نے ارشاد فرمایا:
ان لکل بناء یبنی وبال علی صاحبہ یوم القیامة الامالا بدمنہ
قیامت کے روز ہر عمارت اپنے مالک کے لئے وبالِ جان بن جائے گی، سوائے اس مقدار کے جو انسان کے لئے بہت ضروری ہوتی ہے(2) ۔
اس روایت سے اور اس قسم کی دوسری روایات سے اسلام کا رویہ مکمل طور پر واضح ہو جاتا ہے کہ وہ ایسی عمارتوں کا مخالف ہے جو طاغوتی اور غافل کردینے والی ہونے کے ساتھ ساتھ اسراف اور فضول کرچی کا مظہر ہوں اور مسلمانوں کو ہر گز اجازت نہیں دیتا کہ وہ مستکبرین اور خدا سے بے خبر لوگوں کی طرح بلند و بالا عمارتیں تعمیر کریں خا ص کر ایسے معاشرے میں جن غریب اور ضرورت مندافراد کی تعداد زیادہ ہو۔
لیکن یہ بات دلچسپ ہے کہ آپ نے اس مقصد تک پہنچنے کے لئے طاقت کا سہارا نہیں لیا اور اس عمارت کے ڈھادینے کا حکم صادر نہیں فرمایا، بلکہ ایک لطیف سے اخلاقی رد عمل کے ذریعےبے پرواہی اور نفرت کا اظہار کرتی تھی۔ ارشاد ہوتا ہے :جب تم کسی کو سزا دیتے ہو تو حد سے تجاوز کرجاتے ہو۔ اور ظالم و جابر لوگوں کی طرح سزا دیتے ہو( وَإِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِینَ )۔
ہوسکتا ہے کوئی شخص ایسا کام کرے جس سے وہ سزا کا مستحق ہو لیکن اس کا مقصد یہ ہر گز نہیں ہوسکتا کہ تم حق اور عدالت سے تجاوز کر جاوٴ اور چھوٹے سے جرم کے بدلے سنگین اور سکت سزائیں دو اور غصّے کے وقت لوگوں کا خون بہانا شروع کر دو اور تلوار لے کر لوگوں کے پیچھے پڑجاوٴ کیونکہ یہ زمانے کے جابر، ظالم او ر سرکش لوگوں کا کام ہوتا ہے ۔
راغب”مفردات“ میں کہتے ہیں کہ ”بطش“ ( بر وزن ”نقش“) کامعنی کوئی چیز طاقت اور زور کے ذریعے حاصل کرنا ہے ۔
حضرت ہود علیہ السلام د رحقیقت ان لوگوں کو تین وجوہ سے سر زنش کررہے ہیں ۔
ایک ان نشانیوں کی وجہ سے جو وہ خود خواہی اور خود نمائی کے لئے بلندیوں پر تعمیر کرتے تھے تاکہ ان کے ذریعے وہ دوسروں پر شیخی بگھار سکیں۔
دوسرے ان عمارتوں کی وجہ سے جو انھوں نے جابر حکمرانوں کے محلات کی طرح زیبا او رمحکم بنا رکھی تھیں ، جن سے ان کی لمبی آرزووٴں کی نشان دہی ہوتی تھی اور وہ اس نکتے سے غافل ہو چکے تھے کہ دنیا گزر گاہ ہے نہ کہ ہمیشہ کا گھر ۔
تیسرے سزا دینے کے وقت جب وہ حد سے تجاوز کرجاتے تھے ۔ان تینوں امور کی قدر مشترک وہی دوسروں پر فخر اور بقاء سے محبت کی حِس ہے ۔ اور اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا کی محبت ان پر اس حد تک گالب آچکی تھی کہ وہ بندگی کا اسلوب بھلا بیٹھے تھے اور دنیا پرستی میں اس قدرغرق ہو چکے تھے کہ خدائی دعوے کی حد تک جا چکے تھے ، یہ چیزیں ایک بار پھر اس حقیقت کو ثابت کرتی ہیں کہ :
حب الدنیا راٴس کل خطیئة
ان تینوں تنقیدات کے بعد انھیں ایک بار پھر تقویٰ کی دعوت دیتے ہیں ، ارشاد ہوتا ہے :۔ اب جبکہ صورت حال یہ ہے کہ تو تم تقویٰ اختیار کرو اور خدا سے ڈرو اور میری اطاعت کرو(فَاتَّقُوا اللهَ وَاٴَطِیعُونِی)۔
اب ہم حضرت ہود علیہ السلام کے بیان کے تیسرے حصے تک پہنچے ہیں جس میں بندگان ِ خدا پر نعمتوں کا ذکر ہے تاکہ اس طرح سے ان کی حِس شکرگزاری کو متحرک کیا جا سکے اور وہ خدا کی طرف لوٹ آئیں ۔
اس سلسلے میں اجمال اور تفصیل کی روش سے استفادہ کیا گیا ہے جو بحث کو دل نشین کرنے کے لئے بے حد مفید ہوتی ہے ۔ سب سے پہلے ان کی طرف روئے سخن کرکے فرماتے ہیں : اس خدا سے ڈرو جس نے ایسی نعمتوں کے ساتھ تمہاری امداد کی ہے جو تم جانتے ہو اور اس نے وہ نعمتیں ہمیشہ تمہیں رکھی ہیں (وَاتَّقُوا الَّذِی اٴَمَدَّکُمْ بِمَا تَعْلَمُونَ )(3) ۔
پھر اس مختصر بیان کے بعد اس تشریح اور تفصیل بیان کرتے ہیں ۔ اس تمہیں چوپائیں اور ( لائق اور باآبرو) اولاد دے کر تمہاری مادی سرمائے سے نوازا ہے اس دور میں اس سرمائے کا اہم حصہ جانور اور چوپائے ہوا کرتے تھے ، دوسری طرف کافی حد تک افرادی قوت عنایت فرمائی ہے جو اس سرماے کی حفاظت اور پر ورش کرسکتی ہے ۔
یہ تعبیر قرآن مجید میں کئی مقامات پر دہرائی گئی ہے کہ جب بھی مادی نعمتوں کو شمار کیا گیا پہلے”مال“ اور پھر ”افرادی قوت“ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو اس مال کی محافظ او رمربی ہو تی ہے ۔ یہ ایک طبیعی ترتیب معلوم ہوتی ہے نہ کہ مال کی اہمیت کے پیش ِ نظر اسے مقدم کیا گیا ہے ۔
سورہ ٴ بنی اسرائیل کی آیت ۶ میں ارشاد ہوتا ہے :۔
و امددناکم باموال و بنین و جعلنا کم اکثر نفیراً
ہم نے اموال او راولاد کے ذریعے تمہاری امداد کی ہے اور تمہاری بہت سی تعداد قرار دی ہے ۔
پھر فرماتے ہیں: اور سر سبز اور ترو تازہ باغات اور جار ی چشمے تمہیں بخشے ہیں ( وَجَنَّاتٍ وَعُیُونٍ)۔
بنابرین ہم نے افرادی قوت، زراعت ، باغانی ، پرورشِ حیوانات اور ذرائع نقل و حمل کے لحاظ سے تمہیں خود کفیل اور بے نیاز کر دیا ہے تاکہ تم اپنی زندگی میں کسی بھی چیز کی کمی اور پریشانی کا احساس نہ کرو۔
لیکن کیا وجہ ہے کہ تم نے اس قدر نعمتیں عطا کرنے والے مالک کو فراموش کردیا ہے اور رات و دن جس کے خوان ِ نعمت سے بہرہ ور ہو رہے ہو اسے نہیں پہچانا۔
پھر اپنی گفتگو کے آخری مر حلے پر پہنچ کر انھیں متنبہ کرتے اور عذاب ِ الہٰی سے ڈرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر تم نعمت کا انکار کرو گے تو: مجھے تم پر بڑے دن کے عذاب کا خطرہ نظر آتا ہے (إِنِّی اٴَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیمٍ )۔
جس دن تم سب ظلم و ستم ، غرور و تکبر، ہوا و ہوس اور پر وردگار سے دوری اور بیگانگی کا نتیجہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے ۔
عموماً قرآن مجید میں ” یوم عظیم“( بڑا دن) کا اطلاق قیامت پر ہوتا ہے اور وہ ہر لحاظ سے با عظمت ہے لیکن آیاتِ قرآنی میں بعض اوقات اس کا اطلاق قیامت پر ہوتا ہے اور وہ ہ رلحاظ سے باعظمت ہے لیکن آیاتِ قرآنی میں بعض اوقات اس کا اطلاق ان سخت اور وحشت ناک ایام پر بھی ہوا ہے جو سابقہ امتوں پر گزر چکے ہیں جیسا کہ خود اسی سورت میں جناب شعب علیہ السلام کی داستان میں ہے کہ خدا وند عالم نے قومِ شعیب کو حق کے مقابلے میں سر کشی کی وجہ سے دردناک عذاب دیا ( کہ بادل کے ٹکڑے سے ان پر بجلی گری)۔ اس واقعے کے بعد اس دن کو ”یوم عظیم “ کے نام سے ذکر کیا گیا ہے ۔
فاخذ ھم عذاب یوم الظلة انہ کان عذاب یوم عظیم ( الشعراء:۱۸۹)
بنا برین زیر نظر آیات میں بھی ممکن ہے کہ ”یوم عظیم “ سے اس دن کی طرف اشارہ ہو جس دن قوم ِعاد کے سر کش او ر متکبر لوگ اجاڑ کر رکھ دینے والے دردناک طوفان کے عذاب میں مبتلا ہوئے اور اس بات کی گواہ بعد میں آنے والے چند آیات ہیں ۔
اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے روز قیامت کی یادونوں ایام کی سزاوٴں کی طرف اشارہ ہو ، کیونکہ دونوں دنوں کی تاریخ عظیم ہے ۔
1۔ چونکہ قوم”عاد“ایک جماعت اور قبیلہ “پر مشتمل تھی لہٰذا فعل موٴنث لایا گیا ہے اور ”کذبت“ کہا گیا ہے ، کیونکہ یہ دونوں لفظ موٴنث لفظی ہیں ۔
2۔ مجمع البیان، اسی آیت کے ذیل میں ۔
3۔”امدکم“”امداد“کے مادہ سے ہے یہ لفظ در اصل ان مور پر بولا جاتا ہے جو مسلسل او رمنظم طریقے پر انجام دئے جائیں اور چونکہ اللہ اپنی نعمتیں مسلسل اور ایک خاص نظام کے ماتحت اپنے بندوں کو عطا فرماتا ہے اسی لئے یہاں پر ”امد“ کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔
سوره شعراء / آیه 123 - 135سوره شعراء / آیه 136 - 140
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma