«عباد الرحمن“ کی کچھ اورصفات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 15
سوره فرقان / آیه 68 - 71سوره فرقان / آیه 72 - 76

«عباد الرحمن“ کی چھٹی خصوصی صفت توحید پر ان کا خالص ایمان ہے جو انھیں دو یا کئی چیزوں کی پرستش پر مبنی شرک سے دور رکھتا ہے ، چنانچہ قرآن فرماتا ہے :وہ ایسے لوگ ہیں جو خدا کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکار تے( وَالَّذِینَ لاَیَدْعُونَ مَعَ اللهِ إِلَھًا آخَرَ)۔
توحید نے ان کے قلب اور ان کی انفرادی اوراجتماعی زندگی کو روشن کر رکھا ہے جس کی وجہ ان کے روح و فکر کے آسمان عظمت سے شرک کی ہر قسم کی تاریکی کا فور ہو چکی ہے ۔
ساتویں صفت یہ ہے کہ عباد الرحمن بے گناہوں کے خون میں اپنے ہاتھ نہیں رنگ تے اور کسی ایسے انسان کو نا حق قتل نہیں کرتے جس کا خون اللہ تعالیٰ نے حرام کردیا ہے ( وَلاَیَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ )( 1) ۔
اس آیت سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ بنیادی طور پر تمام انسان نفوس قابل احترام ہیں اور ان کا خون بہانا ممنوع ہے مگر یہ کہ کچھ ایسے عوامل پیدا ہو جائیں جن سے یہ احترام ثانوی حیثیت اختیار کر جائے اور خون بہا نا جا ئز ہوجائے ۔
ان کی آٹھویں صفت یہ ہے کہ ان کا دامان ِ عفت گناہ سے آلودہ نہیںہوتا اور وہ زنا نہیں کرتے (وَلاَیَزْنُونَ)۔
اگر وہ کفر ایمان کے دو راہے پر کھڑے ہو جاتے ہیں تو ایمان کا انتخاب کرتے ہیں اور اگر جانوں کے لئے امن اور بد امنی کا سوال در پیش ہو تو امن کا انتخاب کرتے ہیں اگر پاکیزگی اور آلودگی کی بات ہو ت وپاکیزگی اختیار کرتے ہیں وہ وہ ایک ایسا وہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیتے ہیں جو ہر قسم کے شرک، بدامنی ،بے عفتی اور آلودگی سے صاف اور پاک ہوتا ہے ۔
اسی آیت کے ذیل میں اس بات پر زوردے کر فریا گیا ہے :جو شخص ان امور میں کسی ایک کو انجام دے تو وہ اپنی سزا اور انجام دیکھ لے گا ( وَمَنْ یَفْعَلْ ذَلِکَ یَلْقَ اٴَثَامًا)۔
«اثم“ اور « اثام“ در اصل ان اعمال کو کہتے ہیں جو انسان کو ثواب تک پہنچنے نہیں دیتے ۔بعد ازاں اس لفظ کا ہر قسم کے گناہ پر اطلاق ہونے لگا لیکن اس مقام پر گناہ کی سزا کے معنیٰ میں ہے ۔
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ «اثم“ کا معنیٰ ہے «گناہ “اور «اثام“کا معنیٰ ہے « گناہ کی سزا“(2)۔
اگر بعض مفسرین نے اس کا معنیٰ جہنم میں بیابان یا پہاڑیا کنوئیں کیا ہے تو یہ اس کا ایک واضح مصداق بیان کیا گیا ہے ۔
زنا کی حرمت کے فلسفے میں تفسیر نمومونہ کی جلد ۱۲ میں سورہ ٴ بنی اسرائیل کی آیت ۳۳ کے ذیل میں تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں سب سے پہلے شرک ، پھر قتل ِ نفس اور ا س کے بعد کے بارے میں گفتگو ہو ئی ہے ۔بعض روایات کے مطابق ان تینوں گناہوں کی بالترتیب وہی اہمیت ہے جو آیت میں آئی ہے۔
ابن مسعود روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کی خدمت میں عرض کیا:
ای الذنب اعظم؟قال ان تجعل للہ نداً و ھو خلقک، قال قلت ثم ایّ؟ قال ان تقتل ولدک مخافة ان یطعم معک، قال قلت ثم ای ؟قال ان ترانی حلیلة جارک، ،فانزل اللہ تصدیقھا و الذین لا ید عون مع اللہ الٰھاً آخر
سب گناہوں سے بڑھ کرکون سا گناہ ہے ؟
آپ نے فرمایا:
یہ کہ تم خدا کا شریک ٹھہراوٴجب کہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے ۔
عرض کیا اس کے بعد ؟
فرمایا یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس لئے قتل کر ڈالو کہ تمہارے کھانے میں شریک ہو جائے گی۔
عرض کیا اس کے بعد ؟
فرما یا یہ کہ اپنے ہمسایہ کی بیوی سے بد کاری کرو ۔
اس موقع پر خدا نے اپنے پیغمبر کی تصدیق کے طور پر یہ آیت نازل کر دی (و الذین لا یدعون مع اللہ الٰھاً آخر) ( 3) ۔
اگر چہ اس حدیث میں قتل اور زنا کی خا ص قسموں کاذکرآیا ہے لیکن اگر مفہوم کے اطلاق پر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ جولوگ ان گناہوں کا ارتکاب کریں گے قیامت کے دن ان کا عذاب دگنا ہو گا اور بڑی ذلت و خواری کے ساتھ عذاب میں ہمیشہ کے لئے گرفتار رہیں گے ( یُضَاعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَیَخْلُدْ فِیہِ مُھَانًا)۔
اس جگہ پر دو سوال پیش آتے ہیں ایک تو یہ کہ آخر ان لوگوں کا عذاب دگنا ہو گا اور گناہ کے برابر انھیں سزا کیوں نہیں ملے گی اور آیا یہ بات عدل ِ الہٰی سے مطابقت رکھتی ہے ؟
دوسرے یہ کہ یہاں پر ہمیشہ کے عذاب کی گفتگو ہورہی ہے جبکہ ہمیشگی صرف کفار کے ساتھ مخصوص ہے اور آیت میں جو تین گناہ ذکر ہوئے ہیں ان میں سے صرف ایک یعنی پہلا ناہ کفر ہے لیکن قتل ِ نفس اور زنا تو خلود کا سبب نہیں بن سکتے ۔
پہلے سوال کے جواب کے بارے میں مفسرین نے بہت بحث کی ہے اورجو جواب سب سے زیادہ صحیح نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ عذاب کے دگنا ہونے سے مراد یہ ہے کہ آیت میں مذکوران تینوں گناہوں کی سزائیں علیحدہ علیحدہ ہوں گی جو مجموعی صورت میں دگنی بن جائیں گی۔
اس سے قطع نظر یہ بات بھی ہے کہ بسا اوقات ایک گناہ کئی دوسرے گناہوں کا سر چشمہ بن جاتا ہے مثلا ً کفر ہی کو لے لیجئے کہ ایک گناہ ہے لیکن یہی گناہ واجبات کے ترک اور محرمات کے انجام نہ دینے کا سبب بن جاتا ہے اور یہی چیز خدا وند عالم کی سزا کے دوگنا ہونے کا سبب بن جاتی ہے ۔
اسی لئے تو بعض مفسرین نے اس آیت کو اس مشہور مسئلے پر دلیل سمجھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ «جس طرح کفار اصول دین کے لئے مکلف ہیں اسی طرح فروعِ دین کے لئے بھی مکلف ہیں :
الکفار مکلفون بالفروع کما انھم مکلفون بالاصول
دوسرے سوال کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ بعض گناہ اس قدر سخت ہوتے ہیں کہ اس دنیا سے بے ایمان ہو کر مرنے کا سبب بن جاتے ہیں جیسا کہ ہم قتل ِنفس کے بارے میں تفسیر نمونہ جلد ۴ سورہ نساء کی آیت ۹۳ میں بیان کر چکے ہیں۔
زنا خاص طور پر جب محصنہ( شوہر دار عورت)کے ساتھ ہو تو ممکن ہے کہ وہ بے ایمان ہو نے کا سبب بن جائے ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ مندر جہ بالا آیت میں مذکوردائمی عذاب ان لوگوں کے لئے ہو جو مذکورہ تین گناہوں کا باہم ارتکاب کریں شرک کا بھی ، قتل نفس اور زنا کا بھی اور اس بات کی گواہ بعد والی آیت ہے جس میں کیا گیاہے :۔
الا من تاب و اٰمن و عمل عملا ً صالحاً
مگر وہ شخص جو توبہ کرے ، ایمان لے آئے اور عمل صالح بجا لائے ۔
تو اس طرح سے یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔
بعض مفسرین نے یہاں پر ہمیشگی کو ایک لمبی مدت کے معنیٰ میں لیا ہے نہ کہ ہمیشہ کی مدت کے معنیٰ میں ۔ لیکن پہلی اور دوسری تفسیر زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے ۔
یہاں پر ایک اور بات بھی قابل غور ہے اور وہ یہ ہے کہ اس آیت میں معمول کی سزاکے علاوہ ایک دوسری سز اکا ذکر بھی ہے اور وہ ہے ان گناہ گاروں کی تحقیر اور توہین ، جو ایک طرح کی باطنی سزا ہے اور یہ سزا کے دگنا ہونے کی تفسیر بھی ہو سکتی ہے کیونکہ انھیں جسمانی عذاب بھی دیا جائے گااور روحانی عذاب بھی ۔
چونکہ قرآن مجید نے مجر مین کے لئے واپس آجانے کا راستہ بند نہیں کیا اور گناہگاروں کو توبہ کی تشویق کرتا ہے اور دعوت دیتا ہے لہٰذا بعد والی آیت میں فرمایا گیا ہے : مگر جو شخص توبہ کرے ، ایما ن لے آئے اور عمل صالح بجا لائے تو خدا وند عالم اس کے گناہوں کو بخش دے گا اور ان کے برے اعمال کو نیک اعمال میں تبدیل کر دے گا اور خدا وند عالم بخشنے والا اور مہر بان ہے ( إِلاَّ مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاٴُوْلَئِکَ یُبَدِّلُ اللهُ سَیِّئَاتِھِمْ حَسَنَاتٍ وَکَانَ اللهُ غَفُورًا رَحِیمًا)۔
جیسا کہ ابھی گزشتہ آیت میں گناہان کبیرہ میں سے تین گناہوں کا ذکر ہوا ہے اور ان گناہوں کے مرتکب افراد کے لئے توبہ کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہر نادم اور پشیمان انسان ، توبہ کے دروازے سے اپنے خالق اور مالک کے حضور لوٹ سکتا ہے بشر طیکہ اس کی توبہ حقیقی ہو او رجیسا کہ آیت میں بیان ہوا ہے ، اس کی علامت عمل ِ صالح ہے جس سے گناہوں کی تلافی کی جا سکتی ہے ورنہ صرف زبان سے استغفار یا دل میں لمحہ بھر کی پشیمانی اور پھر وہی سابقہ حالت یہ توبہ کی دلیل ہر گز نہیں ہو سکتی۔
اس بارے میں اہم اور قابل ِ غور مسئلہ یہ ہے کہ خدا وند عالم ان کے «سیئات“ کو حسنات“ میں تبدیل کرتا ہے ؟
سیّئات کی حسنات میں تبدیلی
اس کے بارے میں چند ایک تفسیریں ہیں جو سب کی سب ماننے کے قابل ہیں ۔
ا۔ جب انسان توبہ کرتا ہے اور خدا پر ایمان لے آتا ہے تو اس کے پورے وجود میں ایک گہری تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے اور اس اندرونی انقلاب اور تبدیلی کی وجہ سے اس کے برے اعمال مستقبل میں نیک اعمال میں تبدیلی ہوجاتے ہیں اگر اس نے ماضی میں کسی کو قتل کیا تھاتو اب ( حقیقی توبہ کی وجہ سے )مظلوم ک ا دفاع اور ظالم سے اس کی جگہ لے لیتی ہے اگر سابق میں وہ زانی اور بد کار تھا تو اب وہ پاکدامن بن جائے گا اور یہ خدائی توفیق اسے ایمان اور توبہ کی بدولت حاصل ہو گی۔
۲۔دوسری یہ کہ خدا وند عالم اپنی مہر بانی، فضل اور احسان کی وجہ سے توبہ کے بعد اس کے تمام برے اعمال کو مٹا کر نیک اعمال کو ان کی جگہ دے دے گا جیسا کہ حضرت ابو ذر غفاری ۻ پیغمبر اکرم سے روایت کرتے ہیں کہ :
بروز قیامت ایک شخص کو لایا جائے گا اور خدا وند عالم حکم دے گا کہ اس کے صغیر گناہوں کے کو اس کے سامنے پیش کیاجائے اور کبیرہ کو چھپا یا جائے پھر اس سے کہا جائے گا کہ تونے فلاں فلاں دن فلاں فلاں صغیرہ گناہ کیا تھا اور وہ اس کا اعتراف کرے گا لیکن اس کا دل کبیرہ گناہوں کے خوف سے کانپ رہا ہو گا ۔
اس مقام پر خدا وند عالماپنی مہر بانی کی وجہ سے حکم دے گا کہ اسے ہر گناہ کے بدلے ایک نیکی دی جائے ۔ وہ شخص عرض کرے گا خدا وندا ! میں نے تو بڑے بڑے گناہ کئے تھے جنھیں میں یہاں پر نہیں دیکھ رہا ہوں ۔
ابو ذر کہتے ہیں کہ اس موقع پر آنحضرت یوں مسکرائے کہ آپ کے مبارک دانتوں کی سفیدی نمودار ہو گئی اور آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
فاولٓک یبدل اللہ سیئاتھم حسنات
۳۔تیسری تفسیر یہ ہے کہ «سیئات“ سے مراد انسان کے خود اعمال نہیں ہیں جنہیں وہ انجام دیتا ہے بلکہ اس سے مراد ان کے برے اثرات ہیں جو انسان کے جسم اورروح پر چھا جاتے ہیں اور جب وہ توبہ کرتاہے تو وہ برے اثرات دور ہو جاتے ہیں اور ان کی جگہ اچھے اثرات لے لیتے ہیں ۔
البتہ ان تینوں تفسیروں کا آپس میں کوئی تضاد نہیں بلکہ ممکن ہے کہ تینوں کی تینوں ایک مفہوم میں جمع ہوں ۔
بعد والی آیت صحیح توبہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہے :جو شخص توبہ کرکے اعمال ِ صالح بجا لاتا ہے وہ اپنے رب کی طرف لوٹ جائے گا ( اور اسی سے اپنی جزا پائے گا )( وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّہُ یَتُوبُ إِلَی اللهِ مَتَابًا)(4) ۔
یعنی توبہ اور گناہوں کا ترک کرنا صرف اس وجہ سے نہ ہو کہ گناہ بری چیز ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کی نیت خلوص اور خوفِ خدا پر مبنی ہو ۔
بنابریں (بطور مثال ) شراب نوشی یا دروغ گوئی کو اس وجہ سے ترک کردیناکہ یہ بری چیزیں ہیں اگر چہ ایک اچھی بات ہے لیکن اس کی حقیقی قدر و قیمت اس وقت ہو گی جب یہ کام صرف خدا کی خوشنودی کے لئے کیا جائے ۔
بعض مفسرین نے مذکورہ بالا آیت کی ایک اور تفسیر بیان کی ہے جو یہ ہے :
یہ آیت در اصل اس تعجب خیز سوال کا جواب ہے جو کبھی کبھار کچھ ذہنوں میں اٹھتا ہے کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ خدا وند عالم برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دے گا تو یہ آیت اس سوال کا جواب دے رہی ہے کہ جب انسان اپنے رب کی طرف لوٹ جائے تو یہ امر باعث ِ تعجب نہیں ۔
اس سلسلے میں ایک تیسری تفسیر بھی ہے اور وہ یہ کہ جو شخص گناہوں سے توبہ کرتا ہے وہ خدا اور بے حد وحساب اجر کی طرف لوٹ جاتا ہے ۔
اگر چہ ان تفسیروں کا آپس میں کوئی تضاد نہیں لیکن پہلی تفسیر زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے خا ص طور پر وہ اس روایت سے زیادہ ہم آہنگ ہے جسے علی بن ابراہیم نے اسی آیت کے ذیل میں نقل کیا ہے ۔
1۔مندرجہ بالا جملے میں اصطلاحی طور پر «استثنائے مفرغ“ ہے جس کی تقدیر یوں ہے « ولا یقتلون النفس التی حرم اللہ بسبب من الاسباب الا بالحق “۔
2۔ تفسیر فخر رازی اسی آیت کے ذیل میں ۔
3 مجمع البیان، اسی آیت کے ذیل میں ،بحوالہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم ۔
4 ۔«متاب“ مصدر میمی اور توبہ کے معنی میں ہے چونکہ یہاں مفعول مطلق ہے لہٰذا تاکید کے معنی ٰ دے رہا ہے ۔
سوره فرقان / آیه 68 - 71سوره فرقان / آیه 72 - 76
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma