معبودوں اورگمراہ ایجاریوں کا مقدمہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 15
سوره فرقان / آیه 17 - 19۱۔ معبود سے کیا مراد ہے ؟

گزشتہ آیات میں قیامت کے دن مومنین اور مشرکین کے انجام کی بابت بات ہو رہی تھی ۔ زیر بحث آیات اسی موضوع کوایک اور صورت میں پیش کررہی ہیں ۔خدا وند عالم بروز قیامت ” مشرکین کے معبودوں “ سے جوسوال کرے گا اسے اور وہ جو جواب دیں گے اسے بھی ایک تنبیہ کی صورت میں بیان فرمارہا ہے ۔
پہلے تو فرماتا ہے : اس دن کا سوچو جب خدا ان سب کو اور ان کے معبودوں کو کہ جن کی اللہ کے علاوہ یہ لوگ عبادت کرتے ہیں جمع اور محشور کرے گا ( وَیَوْمَ یَحْشُرُھُمْ وَمَا یَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ )۔
اور ان سے سوال کرے گا ” آیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا ہے یا یہ خود گمراہ ہوئے ہیں (فَیَقُولُ اٴَاٴَنْتُمْ اٴَضْلَلْتُمْ عِبَادِی ھَؤُلَاءِ اٴَمْ ھُمْ ضَلُّوا السَّبِیلَ )۔
لیکن وہ جواب دیں گے پر وردگارا تو پاک و منزہ ہے ہمارے لئے یہ مناسب نہیں تھا کہ تجھے چھوڑ کر دوسروں کو اپنا ولی بناتے ( قَالُوا سُبْحَانَکَ مَا کَانَ یَنْبَغِی لَنَا اٴَنْ نَتَّخِذَ مِنْ دُونِکَ مِنْ اٴَوْلِیَاءَ)۔
نہ صرف یہ کہ ہم نے انھیں اپنی طرف دعوت نہیں دی بلکہ ہم تو تیری ولایت اور عبودیت کے معترف بھی تھے اور تیرے علاوہ کسی اور کو نہ تو اپنا معبود سمجھا اور نہ ہی دوسروں کا۔
ان کی گمراہی کا سبب یہ تھا کہ تونے انھیں اور ان کے آباوٴ اجداد کو دنیاوی نعمتوں سے نوازا ( اور وہ تیری ان نعمتوں کو شکر ادا کرنے کے بجائے عیش و عشرت اور دنیاوی لذتوں میں کھو گئے )اور تجھے بھلا دیا ( وَلَکِنْ مَتَّعْتَھُمْ وَآبَائَھُمْ حَتَّی نَسُواالذِّکْرَ )
اسی وجہ سے وہ تباہ و بر باد ہو گئے( وَکَانُوا قَوْمًا بُورًا )۔
اب خدا کا روئے سخن مشرکین کی طرف ہے اور فرماتا ہے :تمہارے یہ معبود تو تمہاری تکذیب کررہے ہیں (اور یہ جو تم کہتے ہو کہ انھوں نے تمہیں گمراہ کیا ہے اور اپنی عبادت کی طرف دعوت دی ہے اب صورت حال یہ ہے کہ وہ تمہیں جھٹلارہے ہیں )( فَقَدْ کَذَّبُوکُمْ بِمَا تَقُولُونَ )۔
جب یہ صورت حال ہے اور تم خود ہی گمراہ ہوئے ہو تو اب تم عذاب الٰہی کو اپنے سے بر طرف نہیں کرسکتے ہو اور نہ ہی کسی دوسرے سے مدد طلب کرسکتے ہو (فَمَا تَسْتَطِیعُونَ صَرْفًا وَلاَنَصْرًا) ۔
اور جو شخص بھی تم میں سے ظلم کا ارتکاب کرتے گا ہم اسے بڑے سخت عذاب کا مزہ چکھائےں گے ( وَمَنْ یَظْلِمْ مِنْکُمْ نُذِقْہُ عَذَابًا کَبِیرًا )۔
اس میں شک نہیں کہ ظلم کا ایک وسیع مفہوم ہے اگر چہ اس آیت میں موضوع ِ بحث ”شرک“ ہے لیکن یہ بھی ظلم کا ایک واضح ترین مصداق ہے اس طرح سے مفہوم آیت کے کلی ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔
قابل غور بات یہ ہے کہ ”من یظلم“ فعل مضارع کی صورت میں آیا ہے اور اس بات کی نشاندہی کررہا ہے کہ بحث کا ابتدائی حصہ اگر چہ قیامت سے متعلق ہے لیکن آخری جملہ انھیں دنیا میں خطاب کی صورت میں آیا ہے ۔گویا قیامت کے دن گمراہ کاروں اور معبودوں کی گفتگو سن کر مشرکین کے دل اثر حاصل کرنے کےلئے تیار ہوچکے ہیں ، لہٰذا روئے سخن آخرت سے دنیا کی طرف کرلیا اور فرمایا ”تم میں سے جو شخص بھی ظلم کا مرتکب ہو گا ہم اسے بڑے سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے (1) ۔
1. ایک احتمال یہ بھی ہے کہ یہ آخری جملہ شاید قیامت میں مشرکین کے ساتھ گفتگو کا ایک حصہ ہے اور فعل مضارع ہو نے کی وجہ سے اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ”و من یظلم کاجملہ ایک قاعدہ کلیہ کی صورت میں آیا ہے جوکہ ”جملہ شرطیہ“ کی صورت میں ہے اہل علم جانتے ہیں کہ جملہ شرطیہ میں افعال کا تعلق صرف شرط اور جزا کی حد تک ہوتا ہے زمانے کا مفہوم ختم ہوجاتا ہے ۔
سوره فرقان / آیه 17 - 19۱۔ معبود سے کیا مراد ہے ؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma