حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی اہم دعائیں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 15
سوره شعراء / آیه 83 - 87سوره شعراء / آیه 88 - 104

اس مقام پر جناب ابراہیم علیہ السلام کی اپنے اللہ سے دعا وٴں اور اس کی بار گاہ میں درخواستوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔
گویا اس گرماہ قوم کو خدا کی طرف دعوت دینے اور کائنات میں اس کی ربوبیت کے جلووں کو بیان کرنے کے بعد یک لخت ان سے اپنا تعلق منقطع کرکے ذات ِ خدا کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور جو کچھ مانگنا چاہتے ہیں اسی سے مانگتے ہیں اس طرح سے وہ بت پرستوں کو یہ بتا نا چاہتے ہیں کہ دنیا اور آخرت کے لئے جو کچھ چاہتے ہو اسی سے طلب کرو ۔ ضمنی طور پر یہ اس کی ربوبیت مطلقہ پر ایک اور تاکید بھی ہے ۔
بار گاہ رب العزت میں جناب ابراہیم علیہ السلام کی سب سے پہلی درخواست یہ ہے : پر وردگارا ! مجھے علم و دانش ( اور حق بینی کی نعمت ) عطا فرما اور صالح افراد کے ساتھ ملحق فرمادے( رَبِّ ھَبْ لِی حُکْمًا وَاٴَلْحِقْنِی بِالصَّالِحِینَ)۔
اس مقام پر سب سے پہلے ”حکم “ کے منصب کی درخواست کرتے ہیں اور پھر ”صالحین سے ملحق ہو نے “ کی دعا ۔
”حکم“ اور” حکمت“کی بنیاد ایک ہی ہے او رجیسا کہ راغب نے مفردات میں لکھا ہے حکمت، علم اور معرفت کے ذریعہ حق تک پہچنے اور موجودات ِ عالم اور نیک افعال کی معرفت کا نام ہے ۔ دوسرے لفظوں میں ان قدار اور معیار وں کو حکمت کہتے ہیں جن کے ذریعے انسان حق کی معرفت حاصل کر سکے چاہے وہ جہاں بھی ہو اور باطل ہو اور باطل کو پہچان سکے چاہے وہ جس لباس میں بھی ہو ۔یہی وہ چیز ہے جسے بعض فلاسفہ ”قوة نظریہ کے کمال “ کا نام دیتے ہیں ۔
یہ وہی حقیقت ہے جو جناب لقمان کو خدا کی طرف سے حاصل ہوئی تھی ارشاد ہوتا ہے :
ولقد اٰتینا لقمان الحکمة
ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی ۔ (لقمان / ۱۲)۔
سورہ ٴ بقرہ کی آیت ۲۶۹ میں اسے ”خیراً کثیرا“ کے نام سے یاد کیا گیا ہے ، ارشاد ہوتا ہے :
ومن یوٴت الحکمة فقد اوتی خیرا ً کثیراً
نیز معلوم ہوتا ہے کہ ”حکم“ کا مفہوم ”حکمت“ سے بالا تر ہے یعنی ایسا علم اور ایسی آگاہی جس مین اجراء اور نفاذ کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہو باالفاظ دیگر صحیح فیصلے کی قوت جس میں خواہشاتِ نفسانی اور غلطی کا قطعی دخل نہ ہو۔
اسی لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام سب سے پہلے خدا وند عالم سے اسی گہری اور صحیحمعرفت کی درخواست کرتے ہیں جس میں صحیح فیصلہ کرنے کی قدرت بھی موجود ہو کیونکہ کوئی بھی عملی منصوبہ اس وقت تک پائی تکمیل تک نہیں پہچ سکتا جب تک اس کی بنیاد اسی چیز پر نہ رکھی جائے ۔
اس درخواست کے بعدخدا سے صالحین کے ساتھ ملحق ہو نے کی درخواست کرتے ہیں جو عملی پہلو کی جانب اشارہ ہے جسے اصطلاح میں ’(حکمت ِ عملی “ کہتے ہیں اور سا بقہ درخواست کا نقطہ مقابل ہے جس اصطلاح میں ”حکمت ِ نظری“ کہتے ہیں ۔
اس میں شک نہیں کہ جناب ابراہیم علیہ اسلام ”حکم“ کی منزلت پر بھی فائز تھے اور ”صالحین“ کے زُمرے میں بھی شامل تھے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس طرح کی درخواست کررہے ہیں ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ نہ توحکمت کی کوئی حد مقرر ہے اور نہ ہی صالح ہونے کی حد معین ہے ان کی درخواست کا مقصد یہ ہے کہ روز بروز علم و علم کے اعلیٰ سے اعلیٰ اور بلند سے بلند مرتبے تک پہنچتے رہیں حتیٰ کہ وہ تو ایک اولو العزم نبی کے مرتبہ پر فائز ہونے پر بھی قانع نہیں ہیں ۔
پھر یہ کہ انھیں معلوم ہے کہ سب کچھ خدا وند علم کی طرف سے ہے او رکسی بھی لمحے لغزش کے سرزدہونے او ران نعمتوں کے سلب ہو جانے کا اندیشہ ہے لہٰذا وہ خدا سے ارتقاء کی علاوہ ان کی پائیداری کی بھی درخواست کررہے ہیں جیسا کہ ہم روزانہ ہر نماز میں کدا وند عالم سے ” صراط مستقیم “ کی ہدایت کی درخواست کرتے ہیں اور ا س راہ پر ثابت قدم رہنے اور ارتقاء کی منزلوں کو طے کرنے کی درخواست کرتے ہیں ۔
ان دو درخواستوں کے بعد ایک اور اہم درخواست ان لفظوں میں کرتے ہیں :۔خدا وندا ! آنیوالی امتوں میں میرے لئے لسان ِ صدق اور ذکر ِ خیر مقر فرما(وَاجْعَلْ لِی لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْآخِرِینَ )۔
اس طرح کردے کہ میری یادوں میں باقی رہ جائے اور میرا مقر ر کردہ طریقہ کارآنے والی نسلوں میں دائم و بر قرار رہے ۔ میں ایک اسوہ اور نمونہ عمل پاوٴں کہ لوگ میری اقتداء کریں میرے ہاتھو ں ایسے مکتب کی بنیاد رکھ جس سے لوگ تیرے بتائے ہو ئے راستے پر چلتے رہیں ۔
چنانچہ خدا وند عالم نے آپ علیہ اسلام کی یہ درخواست بھی منظور فرمائی جیسا کہ قرآن کہتا ہے :و جعلنا لھم لسان صدق علیّا
ہم نے ابراہیم ، اسحاق اور یعقوب کے لئے ذکرِ خیر اور بلند زبان مقرر کردی۔ ( مریم ۵۰)۔
بعید نہیں ہے کہ یہ درخواست بھی اسی میں شامل ہو جو جناب ابراہیم علیہ السلام نے کانہ کعبہ کی تعبیر کے بعد ان لفظوں میں کی تھی۔
و ابعث فیھم رسلاً منھم یتلوا علیھم آیاتک و یعلمھم الکتاب و الحکمة ویزکیھم
پر وردگارا ! ہماری ( میری اور اسماعیل کی ) کی اولاد میں ایک پیغمبر مبعوث فرما جو ان لوگوں پر تیری آیات کی تلاوت کرے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور رشد و ہدایت کے ذریعے انھیں پا ک کرے ۔( بقرہ /۱۲۹)۔
چنانچہ معلوم ہے کہ آنجناب علیہ اسلام کی اس دعا نے بھی پیغمبر اسلام کی بعثت کے ساتھ عملی صورت اختیار کرلی اور اس طرح سے اس عظیم امت میں ان کا ذکر دوام کی صورت اختیار کر گیا ۔
اس کے بعد آپ اپنی نگاہوں کے افق کو تبدلیل کرکے آخرت کی جاودانی زندگی کی جانب متوجہ ہو جاتے ہیں اور چوتھی دعا کے لئے عرض کرتے ہیں :
خدا وند ا !مجھے بہشت بریں کے وارثوں میں قرار دے ( وَاجْعَلْنِی مِنْ وَرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِیمِ)۔
ایسی بہشت جس میں روحانی اور مادی نعمتیں ٹھاٹھیں مارہی ہیں جن کو نہ تو کسی قسم کا زوال ہے اور نہ ہی وہاں پر کسی طرح کا رنج و ملال ہے ایسی نعمتیں جو ہم جیسے اس پشت جہان کے قید یوں کے لئے ذرہ برابر بھی قابل ادراک نہیں نہ تو انہیں عقل سوچ سکتی ہے نہ کسی آنکھ نے انھیں دیکھا ہے اور نہ ہی کسی کان نے سنا ہے ۔
پم پہلے بتا چکے ہیں کہ بہشت کے بارے میں ”ارث“کی تعبیر یا تو اس لئے ہے کہ ارث بمعنی کسی نعمت کو بغیر کسی قسم کی تکلیف اور محنت و مقت کے حاصل کرنے کے ہے اور یقیناً ہم جتنی تکلیفیں بھی ٹھائیں اور محنت و مشقت کریں پھر بھی وہ بہشت کی نعمتوں کے مقابلے میں ناچیز ہیں ۔
یا پھر اس لئے کہ ہر انسان کا ایک گھر بہشت میں ہوتا ہے اور ایک جہنم میں اور جب وہ جہنم میں چلا جاتا ہے تو اس کا بہشت والا گھر دوسروں کو دے دیا جاتا ہے ۔
پانچویں دعا میں ان کی نظر اپنے گمراہ چچا(آزر) کی طرف اٹھتی ہے چنانچہ اس وعدے کی بناء پر جو آپ علیہ اسلام نے ان سے دعائے مغفرت کے لئے پہلے سے کیا ہوا تھا بارگاہ ایزدی میں عرض کرتے ہیں : خداوندا !میرے باپ ( مانند چچا) کو بخش دے کیونکہ وہ گمراہوں میں سے ہے ( وَاغْفِرْ لِاٴَبِی إِنَّہُ کَانَ مِنْ الضَّالِّینَ )۔
اس قسم کا وعدہ جناب ابراہیم علیہ السلام نے پہلے سے اس سے کیا ہوا تھا جیسا کہ قرآن مجید کی صریح آیت اس بارے میں کہتی ہے :
وما کان استغفار ابراہیم لابیہ الا عن موعدة وعدھا ایاہ۔ ( توبہ:۱۱۴)۔
اس سے جناب ابراہیم علیہ السلام ک امقصد یہ تھا کہ اس کی تالیف ِ قلب کرکے اسے ایمان کی طرف لے جائیں لہٰذا انھوں نے اس سے یہ وعدہ کیا تھااور اس پر عمل بھی کیا ۔
جناب عبد الہ کی رویات کے مطابق جناب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آرزو کے لئے دعائے مغفرت کی لیکن جب کفر کی حالت میں اس کی موت واقع ہوئی اور دین ِ برحق کے مقابلے میں اس کی دشمنی مسلم ہو گئی تو آپ نے اس کے لئے استغفار کرنا بھی چھوڑ دی جیسا کہ مندرجہ بالا آیت کے ذیل میں ہم پڑھتے ہیں ”فلما تبین لہ انہ عدو للہ تبرءَ منہ “یعنی جب یہ بات واضح ہو گئی کہ وہ دشمن ِخداہے تو انھوں نے اس سے بیزاری اختیار کرلی)(1) ۔
مزید وضاحت کے لئے تفسیر نمونہ کی آٹھویں جلد سورہ توبہ کی آیت ۱۱۴ کے ذیل میں مطالعہ فرمائیں ۔
آکر کار روز محشر کے بارے میں اپنے رب سے ان الفاظ میں چھٹی اور آخری دعا مانگتے ہیں : خدا وندا ! مجھے اس دن شرمسار اور رسوا نہ کرنا جسدن سب لوگ ( قبروں سے اٹھائیں جائیں گے ( وَلاَتُخْزِنِی یَوْمَ یُبْعَثُونَ )۔
”لاتخزنی “خزی“ (بر وزنِ ”حزب“)کے مادہ سے ہے ۔ مفردات میں راغب کی تصریحات کے مطابق ”روح کی شکست“( شرمساری ) کے معنیمیں ہے جو یا تو خود انسان کی اپنی وجہ سے ہوتی ہے جو زبر دست حیاء کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے یا پھر کسی کی طرف سے اس پر مسلط کی جاتی ہے ۔
ابراہم علیہ السلام کی طرف سے یہ تعبیر ایک طرف تو دوسروں کے لئے درس عمل اور اسوہٴ حسنہ ہے اور دوسری طرف اپنی ذمہ داری کا زبر دست احساس اور خدا وند عالم کے لطف و کرم پر حددرجہ بھرسے کی دلیل ہے ۔
۔ مزید وضاحت کے لئے تفسیر نمونہ کی آٹھویں جلد سورہ توبہ کی آیت ۱۱۴ کے ذیل میں مطالعہ فرمائیں ۔
سوره شعراء / آیه 83 - 87سوره شعراء / آیه 88 - 104
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma