عباد الرحمن کی جزا

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 15
سوره فرقان / آیه 72 - 76سوره فرقان / آیه 77

گزشتہ آیات میں رحمن کے خاص بندوں کی کچھ خصوصیات بیان کی گئی تھیں زیر نظر آیات میں ان کی بقیہ خصوصیات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا جارہا ہے ۔
ان ( عباد الرحمن ) کی نویں اہم صفت دوسروں کے حقوق کا احترام اور ان کے حقوق کی حفاظت ہے « وہ ایسے لوگ ہیں جوکبھی بھی جھوٹی گواہی نہیں دیتے “( وَالَّذِینَ لاَیَشْھَدُونَ الزُّور)۔
بزرگ مفسرین نے اس آیت کی دو طرح سے تفسیر کی ہے ۔
جیسا کہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں بعض مفسرین نے «شہادت زور“ کو«جھوٹی گواہی “ کے معنی ٰ میں لیا ہے ۔کیونکہ لغت میں «زور“کا معنیٰ انحراف اور پھرنا ہے اور چونکہ جھوٹ ،باطل اور ظلم کا تعلق بھی انحرافی امور سے ہوتا ہے لہٰذا انھیں « زور“ کہتے ہیں ۔
شہادت زور (یعنی جھوٹی گواہی )کی تعبیر ہماری فقہ کی کتابِ شہادت میں اسی عنوان سے موجود ہے اور بہت سی روایات میں جھوٹی گواہی سے منع کیا گیا ہے لیکن ان روایات میں اس آیت سے استدلال کہیں دکھائی نہیں دیتا۔
دوسری تفسیر یہ ہے کہ «شہود“ سے مراد حاضر اور موجود ہونا ہے لیکن خدا کے خاص بندے لغو،باطل اور بیہودہ محفلوں میں حاضر اور موجود نہیں ہوتے ۔
اہلبیت اطہار علیہم السلام سے منقول بعض روایات میں «زور“ کو «غناء کی محفل “ سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی ایسی محفل جہاں گانے گائے جائیں خواہ آلات ِ موسیقی کے ساتھ یا ان کے بغیر۔
اس میں بھی شک نہیں کہ اس قسم کی روایات کا یہ مقصد نہیں ہے کہ وہ «زور“ کے ویسع مفہوم کو صرف «غناء“ تک محدود کردیں بلکہ غناء بھی اس اس کے بہت سے مصادیق میں سے ایک ہے اور اس کے مفہوم میں لہو و لعب ، شراب نوشی ، جھوٹ اور غیبت وغیرہ کی محفلیں بھی شامل ہیں ۔
یہ احتمال بھی بعید نہیں ہے کہ آیت کے معنیٰ دونوں تفسیریں جمع ہوں اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ خدا کے خاص بندے نہ تو جھوٹی گواہی دیتے ہیں اور نہ ہی لہو و لعب باطل اور گناہ کی محفلوں میں شرکت کرتے ہیں کیونکہ ایسی محافل میں شرکت گناہ کی تائید کرنے کے علاوہ قلب اور روح کی آلودگی کے اسباب بھی فراہم کرتی ہے ۔
پھر اسی آیت کے ذیل میں خدا کے خاص بندوں کی دسویں خاص صفت بیان کرتے ہوئے فرما یا گیا ہے : جب وہ لغو اور بے ہودہ کاموں کو دیکھتے ہیں تو وقار کے ساتھ وہاں سے گزر جاتے ہیں ( وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا کِرَامًا )۔
در حقیقت نہ تو وہ کسی باطل اور لغوی محفل میں شرکت کرتے ہیں اور نہ ہی لغو اور بے ہودہ چیزوں میں خود کو ملوث کرتے ہیں ۔
«لغو“ کے معنی ٰ پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس کا اطلاق ہر اس کام پر ہوتا ہے جس کا کوئی معقول ہدف نہ ہو اور ا س سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کے یہ خالص بندے اپنی زندگی میں ہمیشہ معقول ، مفید اور تعمیری کام انجام دیتے ہیں ۔ بیہودہ کا موں اور بے ہودہ لوگوں سے متنفر ہوتے ہیں اور اگر کبھی ایسا اتفاق ہو جائے کہ انھیں کسی قسم کی بے ہودہ باتوں کا سامنا کرنا پڑ جائے تو وہ بڑی اعتنائی کے ساتھ وہاں سے گزرجاتے ہیں اور یہ بے نیازی اور بے اعتنائی اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ وہ باطنی طور پر ایسے کاموں سے متفنر ہیں وہ اس قدر با عظمت اور با کر دار لوگ ہیں کہ ماحول کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ ماحول کے رنگ میں رنگے جاسکتے ہیں ۔
اس میں شک نہیں کہ ایسے غلیظ ماحول سے اس طرح کی بے اعتنائی اسی صورت میں ہوگی جب بد کاری سے مقابلے اور نہی عن المنکر کے لئے اس سے بہتر چارہ نہ رہ گیا ہو ورنہ کسی شک و شبہ کے بغیر وہ مر دانہ وار ڈٹ جاتے ہیں اور اپنے شر عی فریضے کو آخری مرحلے تک سر انجام دیتے ہیں ۔
خدا کے خاص بندوں کی ایک اور صفت یہ ہے کہ آیات الہٰی کی تلاوت اور یاد کے موقع پر چشم بینا اور گوش شنوا کے مالک ہوتے ہیں ، چنانچہ ارشاد ہو تا ہے :وہ ایسے لوگ ہیں کہ جب انہیں ان کے پر وردگار کی آیات یاد لائی جاتی ہیں تو وہ بہرے اور اندھے بن کر ان پر گر نہیں پڑتے( وَالَّذِینَ إِذَا ذُکِّرُوا بِآیَاتِ رَبِّھِمْ لَمْ یَخِرُّوا عَلَیْھَا صُمًّا وَعُمْیَانًا)۔
مسلم بات یہ ہے کہ اس سے کفار کے عمل کی طرف اشارہ کرنا مقصود نہیں ہے کیونکہ وہ تو آیات الہٰی کی قطعاً پرواہ ہی نہیں کرتے بلکہ یاتو منافق تولے کی طرف اشارہ مقصود ہے یا پھر سطحی مسلمانوں کی طرف جو کانوں اور آنکھوں کو بند کرکے آیات الٰہی پر گر پڑتے ہیں یعنی ان کی حقیقت کوسمجھتے نہیں اورنہ ہی ان کی تہ تک پہنچتے ہیں اور خدا کے مقصود اور مطلوب کو جانے بغیر ، ان آیات میں غور و فکر کئے بغیر اور اپنے اعمال میں ان آیات سے درس لئے بغیر ان پر گر پڑتے ہیں ۔
راہ خدا کو آنکھیں اور کان بند کرکے طے نہیں کیا جاسکتا سب سے پہلے اس راستے کو طے کرنے کے لئے سننے والے کان اور دیکھنے والی آنکھ کی ضرورت ہے ۔ ایسی آنکھ جو باطن کو دیکھ سکتی ہو اور گہرائیوں تک پہنچ سکتی ہو اور ایسا کان جو حساس اور نکتہ شناس ہو۔
اگر خوف غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ آنکھ اور کان بند کرکے آیات ِ الٰہی پر گر پڑ نے والے لوگوں کا نقصان ان دشمنوں سے کم نہیں جو جان پہچان کر دینِ حق کی بنیادوں پر کاری جربیں لگاتے ہیں بلکہ کئی درجے زیادہ ہوتا ہے ۔
اصولی طور پر یہ بات ہے کہ مذہب سے سچی آشنائی کی وجہ سے ہی پائیداری ، مستقل مزاجی کے ساتھ حوادثات کے مقابلے اور مذہب کے لئے ڈٹ جانے کا درس ملتا ہے کیونکہ جو لوگ آنکھ اور کان بند کئے دین یا مذہب کی باتوں کو قبول کرلیتے ہیں انھیں جلدی ہی دھوکا دے کر ورغلا یا جاسکتا ہے اور مذہب کی تحریف کرکے انھیں مذہب کے صحیح راستے سے ہٹا یا جا سکتا ہے اور آسانی سے کفر ، بے ایمانی اور گمراہی کی طرف ڈھیلا جا سکتا ہے ۔
اس قسم کے لوگ دشمن کے آلہ کار اور شیطان کا بہترین شکار ہیں ، صرف گہرای نظر رکھنے والے ، دور اندیش اور صاحبان بصیرت و بصارت مومنین ہی پہاڑ کی مانند ڈٹ جاتے ہیں اور ہر ایسے ویسے کو اہمیت نہیں دیتے ۔
ایک حدیث میں ہے کہ حضرت امام جعفر صا دق علیہ السلام سے اس آیت کی تفسیر کے بارے میں سوال کیا گیا تو امام علیہ اسلام نے فرمایا:
مستبصرین لیسوا بشاک
اس سے مراد ہے کہ وہ سوچ سجھ کر اپنا قدم آگے بڑھاتے ہیں ہیں نہ کہ شک و شبہ کے ساتھ (1) ۔
ان سچے مومنین کی بارہویں خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال اور افراد ِخاندان کی تربیت پر خاص توجہ رکھتے ہیں اور اس امر کے بارے میں اپنے آپ کو جوابدہ سمجھتے ہیں وہ ہمیشہ خدا سے یہی دعا کرتے ہیں کہ پر وردگارا! ہماری بیویوں اور اولاد کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا ( وَالَّذِینَ یَقُولُونَ رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اٴَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّةَ اٴَعْیُنٍ )۔
ظاہر ہے کہ اس سے مراد نہیں ہے کہ وہ ایک کونے میں بیٹھ کر دعا کرتے ہیں بلکہ یہ دعا تو ان کے اندرونی جذبوں کی دلیل اور سعی و کوشش کی علامت ہے ۔
مسلم ہے ایسے لوگ جتنا بھی ان کے بس میں ہوتاہے اولاد اور ازدواج کی تربیت ، انھیں اسلام کے اصول و فروع سے مطلع کرنے اور حق و عدالت کی راہ دکھانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے اور جس چیز تک ان کی رسائی نہیں ہوسکتی، اس کا اپنے مالک سے سوال کرتے ہیں اور دعامانگتے ہیں بلکہ اصولی طور پر ہر صحیح دعا کو ایسا ہی ہونا چاہیئے کہ پہلے تو تا حدِ امکان کو شش کرنا چاہئیے اور جہاں بس نہ چل سکتا ہو اس کے لئے دعا کرنا چاہئیے ۔
«قرة عین“ عربی کلمہ ہے جس کا متبادل لفظ فارسی « نور چشم“ ( آنکھوں کی ٹھنڈک)ہے اور یہ اس شخص کے لئے کنایہ ہے جس کسی کے لئے مسرت اور خوشی کا سبب بنتا ہے اور یہ تعبیر در اصل«قر“(بر وزن «حُر“)سے ماخوذہے جس کا معنی ٰ سردی اور خنکی ہوتا ہے اور ایک مشہور و معروف محاورہ بھی ہے (جس کی بہت سے مفسرین نے صراحت بھی کی ہے )اور محبت کے آنسوں ہمیشہ ٹھنڈے اور رنج و غم کے اشک ہمیشہ گرم ہوا کرتے ہیں لہٰذا «قرة العین “ ایسی چیز کو کہیں گے جس سے انسان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں ۔یہ جو محاورہ ہے کہ «محبت کے آنسوں اس کی آنکھوں سے ٹپک رہے ہیں“ تو یہ خوشی اور سرور کے لئے ایک بہترین کنایہ ہے(2) ۔
اولاد کی تربیت ،ازدواج کی ہدایت و راہنمائی اور بچوں کے لئے ماں باپ کا فریضہ ایسے اہم ترین مسائل ہیں قرآن نے جن پر بہت زیادہ زوردیا ہے ہم ان مسائل کو انشاء اللہ العزیز سورہٴ تحریم کی آیت ۶ کی تشریح میں بیان کریں گے ۔
آخر میں خدا کے ان خالص بندوں کی تیرھویں نمایاں صفت کوبیان کیا گیا ہے جو درحقیقت ایک لحاظ سے مذکورہ تمام اوصاف میں سے اہم تر ہے اور وہ یہ کہ وہ صرف اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ خود ہی حق کی راہ پر گامزن رہیں بلکہ ان کی ہمت اس قدر بالا ہے کہ وہ خدا سے خود کو مومنین کی جماعت اور امام اور پیشوا بانے کی درخواست کررہے ہیں تاکہ اس طرح سے وہ دوسرے لوگوں کو بھی راہ ِ حق و حقیقت کی طرف بلا سکیں ۔
وہ ایک گوشہ نشین عابد اور زاہد کی مانند نہیں ہیں جو صرف اپنی پاکئی داماں کے لئے کوشاں رہتا ہے بلکہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی راہ ِ نجات پر لے آئیں ۔
لہٰذا اسی آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے : وہ ایسے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ خدا وندا !تو ہمیں پر ہیز گار لوگوں کا امام اور پیشوا بنا(وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِینَ إِمَامًا)۔
ایک بار پھر توجہ مبذول فرمائیں اور اس نکتے پر غور کریں کہ وہ صرف دعا پر اکتفا نہیں کرتے کہ اپنے اسلاف پر نازاں ہو کر باتیں ہی بناتے رہیں نہیں ،بلکہ اپنے لئے بزرگواری ، عظمت اور امامت کے ایسے اسباب فراہم کرتے ہیں کہ ایک سچے اور بر حق پیشوا کی عمدہ صفات ان میں جمع ہو جاتی ہیں اور یہ کام بہت مشکل اور نہایت ہی سنگین ہوتا ہے ۔
آپ یقینا نہیں بھولے ہوں گے کہ یہ آیات تمام مومنین کی صفات بیان نہیں کررہیں بلکہ مومنین کے ایک ممتاز گروہ کے اوصاف بیان کررہی ہیں جو مومنین کی اگلی صفوں میں ہوتے ہیں جنہیں «عباد الرحمن “ کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے ۔
یقینا وہ خدا کے خاص بندے ہوتے ہیں جس طرح خدا کی عمومی رحمت تمام بند گان خدا کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہوتی ہے خدا کے ان خاص بندوں کی مہر بانی اور حمدلی ایک لحاظ سے عمومی ہوتی ہے ۔ان کا علم و فکر ، بیان و قلم ، مال و قدرت ہمیشہ خلق ِ خدا کی ہدایت کے کام آتی ہے ۔
وہ انسانی معاشرے کے لئے اسوہ اور نمونہٴ عمل ہوتے ہیں ۔
وہ پر ہیز گاروں کے سر خیل شمار ہوتے ہیں ۔
وہ سمندروں اور سحراوٴں میں چراغ کی مانند ہوتے ہیں جن سے بھٹکی ہوئی انسانیت ہدایت پاجاتی ہے اور گرداتِ بلا میں پھنس جانے والے چھٹکارا حاصل کرجاتے ہیں ۔
متعدد روایات میں ہے کہ یہ آیت حضرت علی اور اہلبیت اطہار علیہم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے، ایک روایت میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
اس آیت سے مراد ہم ہیں(3) ۔
اس میں شک نہیں کہ آئمہ اہل بیت علیہم السلام اس آیت کے روشن مصداق ہیں اور یہ مصداق آیت کے مفہوم کی اس وسعت میں مانع نہیں ہے کہ دوسرے مومن بھی مختلف مراتب کے تحت دوسرے لوگوں کے پیشوا ہوں ۔
بعض مفسرین نے اس آیت سے یہ استفادہ کیا ہے کہ معنوی ، روحانی اور خدائی رہبری اور پیشوائی کی درخواست نہ صرف مذموم نہیں بلکہ ممدوح اور پسندیدہ بھی ہے (4) ۔
یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ لفظ«امام“ اگر چہ مفرد ہے لیکن بعض اوقات جمع کے معنی میں بھی آتا ہے اور اس آیت میں بھی ایسا ہیں ہے ۔
ان تیرہ صفات کو مکمل کرنے کے بعداللہ کے ان خاص بندوں کی مجموعی خصوصیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مختصر لفظوں میں ان کا اجر بیان فرمایا گیا ہے:یہی وہ لوگ ہیں جنہیں صبر و استقامت کے بدلے میں بہشت کے بلند درجات جزا کے طور پر دئے جائیں گے ( اٴُوْلَئِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا)۔
«غرفة“ « غرف“(بروزن«حرف“)کے مادہ سے ہے جسکا معنی کسی چیز کا اٹھانا اور حاصل کرنا ہوتا ہے اور غرفة اس چیز کو کہتے ہیں جسے اٹھائیں اور حاصل کریں(جیسے انسان پینے کے لئے چشمہ سے پانی حاصل کرتا ہے )۔بعد ازاں اس کا اطلاق عمارت کے بالائی حصہ پر ہونے لگا اور اس آیت میں بہشت بریں کے بلند و بالادرجات کے لئے کنایہ ہے ۔
چونکہ «عباد الرحمن “دنیا میں ان صفات کے حامل ہونے کی بناپر مومنین کی اگلی صفوں میں اور ان کے پیش پیش ہوتے ہیں لہٰذا آخرت میں بی بہشت میں ان کے درجات دیگر مومنین سے بلند و بالا ہونے چاہئیں ۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ انھیں یہ بلند درجات اس لئے عطا ہو ں گے کہ وہ راہ ِ خدا میں صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ممکن ہے اس جگہ پر یہ سوال پیدا ہوکہ آیا صفت مذکورہ تیرہ صفات کے علاوہ ہے ؟لیکن حقیقت میں یہ کوئی نئی صفت نہیں بلکہ مذکورہ صفات کے نفاذ اور اجراء کی محافظ ہے آیا خدا کی بندگی ،خواہشاتِ نفس سے نبرد آزمائی،جھوٹی شہادت کے نزدیک نہ جانا ، تواضع اور فروتنی اپنا اور اس قسم کی دیگر صفات ، صبر اور استقامت کے بغیر امکان پذیر ہیں ؟
جب ہم یہاں پر پہنچے ہیں تو ہمیں حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا یہ مشہور فرمان یاد آجاتا ہے کہ :
الصبر من الایمان کالراٴس من الجسد
صبر و استقامت کو ایمان میں وہی درجہ حاصل ہے جو سر کو بد ن میں ہوتا ہے ۔
بدن کی بقا سر کی بقا پر منحصر ہے کیونکہ تمام اعضائے انسان کا مرکز ی نقطہ اس کا مغز ہوتا ہے جو سرمیں واقع ہے ۔
بنابریں یہاں پر صبر کا مفہوم نہایت وسیع ہے ۔
مشکلات کے مقابلے میں استقامت اور شکیبائی، پر وردگار عالم کی اطاعت کی راہ ، سرکش اور منہ زور ہواو ہوس اور خواہشات ِ نفسانی کے ساتھ جہاد اور نبرد آزمائی،گناہ کے اسباب و عوامل کے سامنے ڈٹ جانا ، غرض اس قسم کے تمام امور اس میں جمع ہیں ۔
اگر بعض روایات میں صبر کااطلاق صرف فقر و فاقہ پر ہوا ہے اور مالی محرومی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے تو یقینا اس کا ایک یہ مصداق بیان ہوا ہے ۔
پھر اضافہ فرمایا گیا ہے :بہشت کے ان بلند مقامات پر انھیں تحیہ اور سلام پیش کیا جائیگا(وَیُلَقَّوْنَ فِیھَا تَحِیَّةً وَسَلَامًا)۔
اہل بہشت ،وہاں پر ایک دوسرے کو سلام اور تحیہ پیش کریں گے اور فرشتے بھی ان کا سلام و تحیہ سے استقبال کریں گے اور ان سب سے بڑھ کر خود خدا انھیں سلام اور تحیہ کہے گا ۔جیسا کہ سورہ ٴ یٰس ٓ کی آیت ۵۸میں ہے :
و سلام قولا من رب رحیم
ان کے لئے ان کے رحیم پروردگار کی طرف سے سلام ہے ۔
سورہ رعد کی آیت ۲۳، ۲۴ میں ہے :
و الملائکة ید خلون علیھم من کل باب سلام علیکم
فرشتے ان کے پاس ہر دَر سے داخل ہوں گے اور انھیں «سلام علیکم “ کہیں گے ۔
آیا اس مقام پر «تحیت “اور« سلام “کا ایک معنیٰ ہے یا مختلف معانی ؟ مفسرین نے اس بارے میں مختلف آراء کا اظہار کیا ہے لیکن اگر ان میں ذراسی توجہ کی جائے تو معلوم ہو گا کہ «تحیت“ کسی کو زندگی کی دعا دینے کے معنی میں ہوتا ہے اور «سلام“ کسی کو سلامتی کی دعا دینے کے معنی میں ہوتا ہے ۔ بنابریں اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کریں گے کہ پہلا لفظ «تحیت“ زندگی کی دعا کے عنوان سے ہے اور دوسرا لفظ« سلام “ زندگی کے ساتھ سلامتی کے لئے ہے ہر چند کہ یہ دونوں کبھی ایک معنی میں بھی آتے ہیں ۔
البتہ عرف میں «تحیت“ نے زیادہ وسیع معنی پیدا کر لیا ہے اور وہ ہے ہر ایسی گفتگو جوکسی جگہ پر کسی کے داخل ہوتے ہی خوشی ،احترام اور اس کے اظہار ِ محبت کے طور پر فرمایا گیا ہے :وہ بہشت میں ہمیشہ رہیں گے اور وہ کیا ہی خوب ٹھکا نا اور کیسی ہی بہترین اقامت گاہ ہے (خَالِدِینَ فِیھَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا)۔
1۔ تفسیر نور الثقلین جلد ۴ ص۴۳۔
2۔اس بات کا شاہد عرب کے ایک شاعر کا شعر ہے جسے قرطبی نے اپنی تفسیر میں بھی نقل کیا ہے 2
فکم سخنت بالامس عین قریرة و قرت عیون دمعھا الیوم ساکب
کل ٹھنڈی آنکھیں گرم ہو گئیں لیکن آج پھر وہی انکھیں ٹھنڈی ہوگئی ہیں کہ جن سے آنسو جاری ہیں ۔
3 ۔ ان روایات کو علی بن براہیم اور صاحب «نور الثقلین “ نے اپنی تفسیروں میں اسی آیت کے ذیل میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے ۔
4۔ ملاحظہ ہو تفسیر قرطبی اور تفسیر فخر رازی ۔
سوره فرقان / آیه 72 - 76سوره فرقان / آیه 77
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma