میری اجرت تمہاری ہدایت ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 15
سوره فرقان / آیه 56 - 59 ۱۔ اجر رسالت
جیسا کہ سابقہ آیات کے مطالعہ سے معلوم ہوچکا ہے کہ بت پرستوں کا ان بتوں کی پرستش پر اصرار رہا ہے جو نہ تو کسی قم کا نفع پہنچاسکتے ہیں اور نہ نقصان ۔لہٰذا زیر بحث آیات میں خدا وند عالم ان ہٹ دھرم اور متعصب لوگوں کے مقابلے میں پیغمبر نے خدائی فریضے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے :ہم نے تو تجھے صرف خوشخبری دینے والا اورڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے ( وَمَا اٴَرْسَلْنَاکَ إِلاَّ مُبَشِّرًا وَنَذِیرًا)(1) ۔
اگر ان لوگوں نے تیری دعوت اسلام کو قبول نہ کیا تو تیرا کوئی قصور نہیں کیونکہ تو نے اپنا بشارت اور نذارت کا فریضہ انجام دے دیا ہے اور آمادہ دلوں کو خدا کی طرف دعوت دے دی ہے ۔
یہ فرمان ایک تو رسالتمآب کے خدائی فریضے کو نمایا ں کررہا ہے اور دوسرے آنحضرت کے دل کو تسلی دے رہ اہے اور ساتھ ہی گمراہ لوگوں کو ایک طرح کی تنبیہ بھی کی جاری ہے ۔
اس کے بعد پیغمبر اکرم کو حکم دیا جا رہا ہے کہ ان سے کہہ دے کہ میں اس قرآن اور تبلیغ دین کے بدلے میں کسی اجرت کا مطالبہ نہیں کرتا (قُلْ مَا اٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اٴَجْرٍ)۔
قرآن مزید فرماتا ہے :جو اجرت میں ان سے چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ لوگ خدا کا راستہ اختیار کریں ( إِلاَّ مَنْ شَاءَ اٴَنْ یَتَّخِذَ إِلَی رَبِّہِ سَبِیلًا )۔
یعنی اگر تم ہدایت پاجاوٴ تو بس میری یہی اجرت ہے اور یہ ہدایت بھی اپنے ارادے اور مرضی کے ساتھ نہ کہ کسی کے مجبور کرنے سے۔ یہ ایک دلچسپ تعبیر ہے جو آنحضرت کی پیروکاروں کے ساتھ دوستی اور محبت کی انتہا کو واضح کر رہی ہے کہ وہ اپنی اجرت اور مزدوری امت کی سعادت اور خوش بختی میں سمجھتے ہیں(2) ۔
ظاہر ہے کہ امت کی ہدایت ، پیغمبر اکرم کے بہت بڑے معنوی اجر کا سبب بنتی ہے کیونکہ ”الدال علیٰ الخیر کفاعلہ“ یعنی جو شخص نیکی کی ہدایت کرتا ہے گویاوہ نیکی کررہا ہوتا ہے ۔
اس آیت کی تفسیر میں اور بھی بہت سے احتمال ذکر کئے گئے ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بہت سے مفسرین کا نظریہ ہے کہ آیت کا معنیٰ یوں ہے :۔
”میں تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا مگر یہ کہ تم خود اپنی مرضی کے مطابق اپنے اموال راہ ِخدا میں ضرورت مندوں پر خرچ کرو(3)۔
لیکن پہلی تفسیر آیت کے معنی ٰ کے زیادہ نزدیک ہے ۔
جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ” علیہ“ کی ضمیر قرآن اور دین ِ اسلام کی تبلیغ کی طرف لوٹ رہی ہے کیونکہ یہاں دعوت کی اجرت و مزدوری کے بارے میں گفتگو ہو رہی ہے ۔
یہ جملہ جہاں پر مشرکین کے بہانوں کا توڑ پیش کررہا ہے وہاں پر یہ بھی واضح کررہا ہے کہ اس دعوت ِ الہٰی کو قبولیت نہایت سادہ و آسان اور ہر شخص کے بغیر کسی تکلیف اور خرچے کے ممکن الحصول ہے ۔
یہ بجائے خود آنحضرت کی سچائی اور پاکیزگیٴ فکر کے لئے شاید ناطق ہے ۔ کیونکہ جھوٹے مدعی یہ کام براہ ِ راست یا بالواسطہ اجر کے بغیر انجام نہیں دیتے ۔
اس کے بعد والی آیت آنحضرت کی حقیقی پناہ گاہ کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتے ہے تو اس خدا پر توکل کئے رکھ جو زندہ ہے اور جسے کبھی موت نہیں آئے گی (وَتَوَکَّلْ عَلَی الْحَیِّ الَّذِی لاَیَمُوتُ)۔
گویا جب آپ کی پناہ اور والی و سر پرست ایسی ذات ہے جو ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گی تو پھر نہ تو آپ کو کسی قسم کی اجرت کی ضرورت ہے اور نہ ہی دشمن کے نقصان پہنچانے اور ان کی چالوں سے خوف کھانے کی ۔
اور جب صورت ِ حال یہ ہے تو ” اس کی تسبیح بجا لا“ اور اسے ہر قسم کے عیب و نقص سے مبرا اور منزہ سمجھ اور تمام کمالات پر اس کی حمد و ستائش کر( وَسَبِّحْ بِحَمْدِہِ )۔
در حقیقت اس جملے کو پہلے کی علت سمجھنا چاہئیے کیونکہ جب وہ ہر قسم کے عیب و نقص سے پاک اور ہر حسن و کمال سے آراستہ ہے تو وہی اس قابل ہے کہ اس پر توکل کیا جائے ۔
پھر فرمایا گیا ہے :دشمنوں کی تخریب کاری اور سازشوں سے گھبرانہیں کیونکہ یہ بات کوئی کم نہیں کہ خدا وند عالم اپنے بندوں کے گناہوں سے آگاہ ہے اور جب بھی چاہے گا ان کی پکڑ کرے گا (وَکَفَی بِہِ بِذُنُوبِ عِبَادِہِ خَبِیرًا )۔
بعد والی آیت کائنات میں پر وردگار عالم کی قدرت اور اس قابل اعتماد پناہ گاہ کی ایک اور صفت بیان کر رہی :وہ خدا وہ ہے جس نے آسمانوں ، زمین اور جو کچھ ان کے درمیان موجود ہے ان سب کوچھ دنوں ( چھ مرحلوں) میں پیدا کیا ہے :( الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَا فِی سِتَّةِ اٴَیَّامٍ )۔
پھر وہ عرش قدرت پر متمکن ہوا اور کائنات کانظام چلا نے لگا (ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْش)۔
جو ذات اس وسیع قدرت کی مالک ہے وہ اپنے اوپر توکل کرنے والوں کو ہر خطرے اور حادثے میں ہر طرح کی گزند سے محفوظ رکھ سکتی ہے ۔ کیونکہ کائنات کی ہر چیز اسی نے پیدا کی ہے اور کائنات کا ہرقسم کا نظام بھی اسی کے قبضہ ٴ قدرت میں ہے ۔
ضمنی طور پر اس بات کی وضاحت بھی کرتے چلیں کہ کائنات کی مرحلہ اور تخلیق اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ خدا وند عالم کسی بھی کام میں جلدی نہیں کرتا ۔اگر تیرے دشمنوں کو فوراًنہیں دیتا تو اس کی وجہ یہی ہے کہ انھیں مہلت دیتا ہے تاکہ وہ اپنی اصلاح کرلیں پھر یہ کہ عجلت تو وہ کرے جسے کسی چیز کے ضائع ہو جانے اور ہاتھ سے نکل جانے کا خطرہ ہو اور یہ بات خدائے قادر و متعال کے لئے فرض بھی نہیں کی جاسکتی ۔
کائنات کی چھ دنوں میں تخلیق اور یہ کہ ایسے مقامات پر ”دن “ سے مراد ” مرحلہ“ ہے اور ممکن ہے یہ مرحلہ لاکھوں اور کروڑوں سال پر مشتمل ہو ، اس سلسلے میں ہم نے تفسیر نمونہ کی چھٹی جلد میں سورہٴ اعراف کی آیت ۵۴ کی تفسیرکے ذیل میں اور دوسری زبانوں کے ادب کی رو سے تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے اور ان چھ مراحل کو بھی واضح کیا ہے ۔
نیز”عرش“ کا معنیٰ اور ” استویٰ علی العرش“کا مفہوم بھی وہاں بیان ہوچکا ہے ۔
آیت کے آخر میں فرمایا گیاہے :وہ خدا رحمن ہے (الرحمن)۔
وہ وہ خداجس کی رحمت عامہ تمام کائنات پر محیط ہے اور فرماں بر دار اور نافرمان،،مومن اور کافر سب اس کے کوان نعمت سے بہرہ ورہورہے ہیں ۔
اب جب کہ تیرا خدا وہ ہے جو بخشنے والا ، قدرت مند اور توانا ہے ”اگرمانگنا چاہتا ہے تو اسی سے مانگ کیونکہ وہ اپنے بندوں کی ضروریات کو جانتا ہے(فَاسْاٴَلْ بِہِ خَبِیرًا)۔)
در حقیقت یہ جملہ گزشتہ آیات کا ایک نتیجہ ہے جس سے یہ بتا نا مقصود ہے کہ اسے رسول ! تو انھیں بتا دے کہ میں تم سے اجر رسالت نہیں مانگتا اور اس خدا پر بھروسہ رکھ جو ان تمام صفات کا جامع ہے ۔وہ قادر بھی ہے اور رحمن بھی ، علیم بھی ہے اور خبیر بھی اور جو خدا ان صفات کا مالک ہے اسی خدا سے سب کچھ طلب کر۔
مفسرین نے اس جملے کی کچھ اور تفسیریں بھی کی ہیں اور یہاں پر سوال کرنے کو پوچھنے کے معنی میں لیا ہے نہ کہ مانگنے اور درخواست کرنے کے معنی ٰ میں ۔ان کے کہنے کے مطابق اس جملے کا مفہوم یہ ہوگا ” اگر تخلیق کائنات اور قدرت ِ پروردگار کے بارے میں سوال کرنا چاہتے ہو تو خود اسی سے پوچھو کیونکہ وہ ہر چیز سے باخبر ہے “۔
بعض مفسرین نے کہا ہے کہ سوال کامعنی ٰ پوچھنا ہے اور”خبیر “ سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہیں یا حضرت محمد مصطفیٰ ہیں یعنی اگر خدا کی صفات کے بارے میں پوچھنا چاہتے ہو تو جبرائیل سے پوچھویا حضرت رسالت مآب سے ۔
البتہ یہ آخری تفسیر بہت ہی بعید معلوم ہوتی ہے اور اس سے پہلے والی تفسیر بھی گزشتہ آیات سے چنداں مناسبت نہیں رکھتی ۔ سب سے پہلی تفسیر یعنی سوال سے مراد خدا سے مانگنے اور اس سے درخواست کرنے کے ہیں ،یہی زیادہ مناسب ہے (4) ۔
1۔ بعض مفسرین کے نزدیک ”نذیر “ مبالغے کا صیغہ ہے جبکہ ”مبشر“ صرف اسم فاعل ہے ۔ تعبیر کے اختلاف کا مقصد شاید یہ ہو کہ پیغمبر اکرم کو ایسے لوگوں کو سامنا تھا جو اپنی گمراہی پر سخت ڈٹے ہوئے تھے فطری طور پر آپ کو انھیں ڈرانا ہی چاہئیے تھا(تفسیر روح المعانی اسی آیت کے ذیل میں )۔
2 ۔بنابریں اس آیت میں ”استثنائے متصل “ ہے ہر چند کہ بادی النظر میں منقطع دکھائی دیتا ہے ۔
3 ۔ ایسی صورت میں ” استثنائے منقطع “ہو گا۔
4۔ اس تفسیر کے مطابق ” بہ“ میں ”ب“زائدہ ہے ۔ لیکن دوسری تفاسیر کے مطابق ”ب“ ”عن“ کے معنیٰ میں ہے ۔
سوره فرقان / آیه 56 - 59 ۱۔ اجر رسالت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma