آسمانی برج

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 15
سوره فرقان / آیه 60 - 62سوره فرقان / آیه 63 - 67

چونکہ گزشتہ آیات میں خدا وند عالم کی عظمت ، قدرت اور وسعت ِ رحمت کے بارے میں گفتگو تھی لہٰذا زیر نظر آیات میں فرمایا گیا ہے :جب ان سے کہا جاتا ہے :جب ان سے کہاجاتا ہے کہ اس رحمن خدا کو سجدہ کرو جس کی رحمت نے تمہارے سارے وجود کو ڈھانپا ہوا ہے تو وہ تکبر اور غرور یا ٹھٹھا مذاق سے کہتے ہیں رحمن کیا چیز ہے ؟
(وَإِذَا قِیلَ لَھُمْ اسْجُدُوا لِلرَّحْمَانِ قَالُوا وَمَا الرَّحْمَانُ )۔
”رحمن “کو قطعاً نہیں پہچانتے اس کلمہ کا مفہوم ہمارے لئے واضح نہیں ہے ۔
” کیا ہم ایسی چیز کو سجدہ کریں جس کا تو ہمیں حکم دیتا ہے “(اٴَنَسْجُدُ لِمَا تَاٴْمُرُنَا)۔
ہم کسی کا حکم نہیں مانیں گے اور کسی ایسے ویسے کی اطاعت نہیں کریں گے ۔
وہ یہ بات کرتے ہیں اور خدا وند عالم سے ان کی نفرت اور دوری میں اضافہ ہو جاتا ہے ( وَزَادَھُمْ نُفُورًا )۔
اس میں شک نہیں کہ خدا کے حضور خشوع و خضوع کے اظہار اور سجدہ کی ادائیگی کی دعوت کے لئے خدا کے ناموں میں سے بہترین اور پر کشش کام ” رحمن“ ہے ۔جس میں رحمت کا معنی ٰ اپنے جامع اور وسیع مفہوم کے ساتھ پایا جاتا ہے لیکن یہ دل کے اندھے اور متعصب بجائے اس کے اس دعوت کا کوئی مثبت جواب دیتے الٹا اس دعوت کا مذاق اڑانے لگے اور حقارت کے ساتھ کہنے لگے کہ رحمن کیا چیز ہے ؟(سورہ شعراء آیت ۲۳) ایسے لوگ اتنابھی نہیں کرتے کہ کہیں ”وہ کون ہے ؟“
اگر چہ بعض مفسرین کا نظر یہ یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت کے عربوں کو اس بات کا قطعاً علم نہیں تھا کہ ”رحمن “ بھی خدا کے ناموں میں سے ایک نام ہے چنانچہ جب انھوں نے یہ نام آنحضرت کی زبان سے سنا تو تعجب سے کہنے لگے کہ ” ہم کسی کو رحمن کے نام سے نہیں پہچانتے ہاں البتہ یمامہ میں ایک شخص رہتا ہے جس کا نام رحمن ہے ۔(ان کی مراد نبوت کا جھوٹا مدعی مسیلہ کذاب تھا جسے لوگ ” رحمن “ کہتے تھے )۔
لیکن یہ بات بہت ہی بعید نظر آتی ہے کیونکہ اس نام کا مادہ اور صیغہ دونوں عربی ہیں اور حضرت رسالتمآب ان کے سامنے ہر صورت کے آغاز میں ” بسم اللہ الرحمن الرحیم “کہا کرتے تھے اور یہ کلمہ ان کے لئے کوئی اجنبی نہیں تھا لہٰذا ان کا مقصدبہانہ طرازی اور مذاق اڑانے کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔
بعد والا جملہ اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں :کیا ہم تیری اطاعت کریں اور تیرے کہنے کے مطابق سجدہ کریں (انسجد لما تاٴمرنا)۔
لیکن چونکہ خدا ئی رہبروں کی تبلیغ صرف آمادہ دلوں پر ہی اثر کرتی ہے او ردل کے اندھے اور متعصب لوگ اس سے نہ صرف یہ کہ بہرہ اندوز نہیں ہوتے بلکہ ان کی نفرت میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے کیونکہ آیاتِ قرآنی بھی بارام ِ نعمت کی طرح ہوتی ہیں جو باغ میں تو سبزہ اور پھولوں کی افزائش کا سبب بنتی ہے اور شورہ زار زمین میں خس و خاشاک کی روئیدہ گی کا (1) ۔
بعد والی آیت در حقیقت ان کے اس سوال کا جواب ہے جو وہ کہتے تھے ”رحمن “ کیا چیز ہے ؟اگر چہ انھوں نے یہ بات تمسخر کے طور پر کہتے تھی لیکن قرآن اس کا سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے کہتا ہے :بابرکت اور صاحبِ عظمت ہے وہ خدا جس نے آسمانوں میں بُرج بنائے ہیں ( تَبَارَکَ الَّذِی جَعَلَ فِی السَّمَاءِ بُرُوجًا )۔
”بروج“ ”برج“ کی جمع ہے جو ظہور یعنی ظاہر ہونے کے معنیٰ میں ہے لہٰذا شہر کی چار دیواری یا فوجی مرکز کے اطراف کی دیوار میں جو جگہ سب سے بلند اور نما یا ں ہوتی ہے اسے ”برج“ کہتے ہیں اسی بناپر جب عورت اپنی زینت اور آرائش کو نما یاں کرتی ہے تو اس وقت ” تبرجت المراٴة“ کہتے ہیں ۔
اور یہی کلمہ بلند و بالا محلات کے لئے بھی بولا جاتا ہے ۔
بہر حال آسمانی بروج، فلک کی مخصوص صورتوں کی طرف اشارہ ہے کہ سال کے ہر موسم اور ہر موقع پر چاند اور سورج ان میں سے کسی نہ کسی کے مقابل ہوتے ہیں مثلاًجب کہا جاتا ہے کہ سورج بُرجِ حمل میں ہوتا ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ مذکرہ بُرج کی صورت فلکی کے برابر واقع ہے یا جب کہتے ہیں کہ قمر در عقرب ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ کرّماہ عقرب کی صورت فلکی کے سامنے ہے ( فلکی صورتیں ستاروں کے ان مجموعوں کہتے ہیں جو ہمیں خاص صورتوں میں دکھائی دیتے ہیں )۔
اس طرح سے یہ چاند اور سورج کی آسمانی منزلوں کی طرف اشارہ کر رہی اور اس کے بعد کہتی ہے : اور ان بر جوں میں روشن چراغ اور ضیا پاش چاند بنایا ہے(وَجَعَلَ فِیھَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُنِیرًا)(2) ۔
یہ آیت در حقیقت آسمان میں چاند اور سورج کی صحیح صحیح رفتار اور ان کے جچے تلے نظام کو واضح کررہی ہے ( البتہ ہماری نگاہ میں یہ تبدیلیاں در حقیقت سورج کے گرد زمین کے چکر لگانے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں ) اوریہ نظام اس قدر صحیح اور منظم ہے جو لاکھوں کروڑوں سال سے کسی کم و کاست کے بغیر اس کائنات پر حکم فرماہے حتیٰ کہ باخبر منجمین آج سے سیکڑوں سال بعد تک کی سورج اور چاند کی حرکت کے بارے میں ایک مقررہ دن اور مقررہ ساعت کی پیشینگوئی کرسکتے ہیں ،ان عظیم آسمانی کروں پر حکم فرمایہ نظام پروردگار عالم کے مدبر، عالم اور صاحب ِ حکمت ہونے پر دلالت کررہا ہے ۔
آیا ان واضح نشانیوں اور چاند اور سورج کو ”سراج“ایسے چراغ کے معنیٰ میں ہوتا ہے جس کی روشنی خود اس کے اندر سے پیدا ہوتی ہے اور یہ تعریف سورج کی کیفیت سے مطابقت رکھتی ہے ۔ کیونکہ سائنسی تحقیقات کے مطابق کے مطابق سورج کا نور اس کے اپنے وجود سے ہے ، بر خلاف چاند کے ، کیونکہ اس کا نور سورکیی بدولت ہے ۔لہٰذا قمر کو منیر( روشنی دینے والا) کی صفت سے موصوف کیا گیا ہے ہر چند کہ اس کا نور دوسرے کامرہونِ منت ہے ۔( اس بارے میں تفسیر نمونہ کی آٹھویں جلد میں سورہٴ یونس کی پانچویں اور چھٹی آیت کے ذیل میں تفصیل سے گفتگو کی جاچکی ہے ) ۔
زیر نظر آخری آیت میں ایک بار پھر خدا وند عالم کی صفات کا تذکرہ کیا گیا ہے اور نظام کائنات کے ایک اور حصے کو بیان کیا گیا ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :
”خدا تو وہ ہے جس رات اور دن کو ایک دوسرے کا جانشین مقرر فرمایا ہے یہ ان لوگوں کے لئے جو اللہ کو یاد کرنا چاہتے ہیں یا شکر بجا لانا چاہتے ہیں (وَہُوَ الَّذِی جَعَلَ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ خِلْفَةً لِمَنْ اٴَرَادَ اٴَنْ یَذَّکَّرَ اٴَوْ اٴَرَادَ شُکُورًا)۔
شب و روز پر حاکم یہ عجیب اور حیرت انگیز نظام کہ ہمیشہ رات اور دن ایک دوسرے کے قائم مقام ہوتے ہیں لاکھوں کروڑوں سال سے چلا آرہا ہے اگر یہ نظم و نسق نہ ہوتا تو نور اور حرارت یا تاریکی ظلمت کی وجہ سے انسانی زندگی تباہ او ربرباد ہوکر رہ جاتی ، جو لوگ خدا کی معرفت حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے یہ ایک اچھی اور عمدہ دلیل ہے ۔
ہم جانتے ہیں کہ سورج کے گرد زمین کی گر دش کرنے کی وجہ سے رات اور دن پیدا ہوتے رہتے ہیں اور یہ تدریجی اور منظم تبدیلی کہ جس سے دائما ً ایک میں کمی اوردوسرے میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ زمین اپنے محور کے گرد اپنے مدار پر گھومتی رہتی ہے جس سے چار موسم پیدا ہوتے ہیں ۔
اگر ہماری زمین کا کرہ اپنی موجودہ حرکت سے زیادہ تیز یا آہستہ حرکت کرتا تو پہلی صورت میں راتیں لمبی ہوتیں جس سے دنیا کی ہر چیز منجمد ہوکر رہ جاتی اور دن اس قدر طویل ہوتے کہ سورج کی چمک تمام چیزوں کو جلا کر رکھ دیتی اوردوسری صورت میں شب و روز کا مختصر فاصلہ ان کی تمام تاثیر کو بے اثر بنا دیتا۔ اس کے علاوہ مرکز سے گریز کی طاقت میں اس قدر اضافہ ہو جاتا کہ وہ روئے زمین پر موجود تمام چیزوں کو کرّہ ارضی سے باہر پھینک دیتی ۔
خلاصہ کلام یہ کہ اس نظام کا مطالعہ ایک تو انسان کے اندر خدا شناسی کے فطرت کو بیدار کرتا ہے ( شاید”یادِخدا “کا اشارہ بھی اس حقیقت کی طرف ہے)دوسرے اس کے اندر شکر گزاری کی روح کو زندہ کرتا ہے جس کی طرف ” اوارادشکوراً“ کے جملے سے اشارہ کیا گیا ہے ۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اس آیت کی تفسیر میں حضرت رسالت ماٴب اور آئمہ اطہار علیہم السلام سے کچھ روایات ذکر ہوئی ہیں ۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں :
رات اور دن کا ایک دوسرے کا جانشین ہونا ، اس لئے ہے کہ اگر انسان ان میں سے کسی ایک میں اپنے عبادت ِ الٰہی جیسے فریضے میں کو تاہی کرے تو دوسرے میں اس کی تلافی یا قضا کرلے ۔
ممکن ہے کہ یہ آیت کی دوسری تفسیر ہو چونکہ قرآنی آیات کے کئی باطنی مفاہیم ہوتے ہیں لہٰذا اس کا پہلے معنی ٰ سے کوئی اختلاف نہیں ہے ۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک حدیث میں ہے :
”جو عبادت یا اطاعت تم سے رات کو چھوٹ جائے اس کی دن میں قضا کر لیا کرو، کیونکہ خدا وند عالم فرماتا ہے :
وھو الذی جعل الیل و النھار خلفة لمن اراد ان یذکر او اراد شکراً
یعنی انسان اپنے رات کے چھوٹے ہوئے فرائض کو دن میں اور دن کے چھوٹے ہوئے فرائض کو رات کے وقت بجا لائے(3) ۔
اسی طرح کی روایت فخر الدین رازی نے بھی حضرت رسول ِپاک سے نقل کی ہے ۔
1۔ بنابریں ”زاد“ کا فاعل وہی سجدہ کا حکم دیتا ہے جس نے دل کے ان بیماروں پر الٹا اثر کیا ہے ہر چند کہ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس کے بعد پیغمبر اکرم اور مومنین نے سجدہ کیا اور یہ بات ان کی مزید دوری کا سبب بن گئی اس لئے ”زاد“ کا فاعل سجدہ ہے لیکن پہلا معنی ٰ زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ۔
2 ۔ تفسیر بالا کے مطابق ”فیھا‘ ‘ کی ضمیر ”سماء“ کی طرف لوٹ رہی ہے اور ہونا بھی ایسا ہی چاہئیے کیونکہ اہم موضوع تو ایک مخصوص نظام کے تحت بروج میں سورج اور چاند کی گر دش ہے ،نہ صرف آسمان میں بر جوں کی موجود گی ۔
3 تفسیر نور الثقلین جلد ۳ ،اسی آیت کے ذیل میں بحوالہ ” من لا یحضر الفقیہ“۔
سوره فرقان / آیه 60 - 62سوره فرقان / آیه 63 - 67
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma