دیوانگی کی تہمت اور قید کی دھمکی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 15
سوره شعراء / آیه 23 - 29سوره شعراء / آیه 30 - 37

جب موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو دوٹوک اور قاطع جواب دے دیا اور جس سے وہ لا جوا ب اور عاجز ہو گیا تو اس نے کلام کا رخ بدلا اور موسیٰ علیہ السلام نے جو یہ کہا تھا کہ ” میں رب العالمین کا رسول ہوں “تو اس نے اسی بات کو اپنے سوال کا محور بنا یا اور کہا یہ رب العالمین کیا چیز ہے ؟( قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ الْعَالَمِینَ )۔
بہت بعید ہے کہ فرعون نے واقعاًیہ بات مطلب سمجھنے کے لئے کی ہو بلکہ زیادہ تر یہی لگتاہے کہ اس نے تجاہل ِ عارفانہ سے کام لیاتھا اور تحقیر کے طور پر یہ بات کہی تھی ۔
لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بیدار اور سمجھ دار افراد کی طرح اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ دیکھا کہ گفتگو کو سنجیدگی پر محمول کریں اور سنجیدہ ہو کر اس کا جواب دیں ار چونکہ ذات ِ پروردگار ِ عالم انسانی افکار کی دسترس سے باہر ہے لہٰذا انھوں نے مناسب سمجھا کہ اس کے آثار کے ذریعے استدلال قائم کریں لہٰذا انھوں نے آیاتِ آفاقی کا سہارا لیتے ہوئے فرمایا: وہ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے سب کا پر وردگار ہے اگر تم یقین کا راستہ اختیار کرو( قَالَ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا إنْ کُنتُمْ مُوقِنِینَ)۔
اتنے وسیع و عریض اور باعظمت آسمان و زمین اور کائنات کی رنگ برنگی مخلوق جس کے سامنے تو اور تیرے چاہنے والے اور ماننے والے ایک ذرہ ناچیز سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے ،میرے پر وردگار کی آفرینش ہے اور ان اشیاء کا خالق و مدبر اور ناظم ہی عبادت کے لائق ہے نہ کہ تیرے جیسی کمزور اور ناچیز سی مخلوق ۔
اس کی حقیقت کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ بت پرستوں کا عقیدہ تھا کہ موجودات عالم میں میں سے ہر ایک چیز کا علیحدہ علیحدہ رب ہے ار وہ کائنات کے مختلف نظاموں کا مجموعہ سمجھتے تھے لیکن موسیٰ علیہ السلام کی گفتگو اس حقیقت کی طرف اشارہ کررہی ہے کہ پوری کائنات پر حکم فرما ایک ہی نظام اس بات کی دلیل ہے کہ تمام کائنات کا صرف اور صرف ایک رب ہے ۔
” ان کنتم موقین“کا جملہ شاید اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ موسیٰ علیہ السلام فرعون اور اس کے ساتھیوں کو سمجھا نا چاہتے ہوں کہ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ اس سوال سے تمہارا مقصد درکِ حقیقت نہیں ہے لیکن اگر تمہیں حقیقت کی تلاش ہو اور تمہارے عقل اور شعور بھی ہو تو جو استدلال میں نے کیا ہے وہی کافی ہے ۔ ذرا اپنی آنکھوں کو کھولوں اور ایک لحظہ ان آسمانوں ،زمین اور ان کے آثار کو غور سے دیکھو تاکہ تمہیں حقیقت کا پتہ چل جائے اور کائنات کے بارے میں اپنے نظر یئے کی اصلاح کرلو۔
لیکن عظیم آسمانی معلم کے اس قدر محکم بیان اور پختہ گفتگو کے بعد بھی فرعون خواب غفلت سے بیدار نہ ہو اور اس نے اپنے ٹھٹھے مذاق اور استہزاء کو جاری رکھا اور مغرور مستکبرین کے پرانے طریقہ کار کو اپناتے ہوئے اپنے اطراف میں بیٹھنے والوں کی طرف منہ کرکے کہا: کیا سن نہیں رہے ہو ( کہ یہ شخص کیا کہہ رہا ہے )( قَالَ لِمَنْ حَوْلَہُ اٴَلاَتَسْتَمِعُونَ )۔
معلوم ہے کہ فرعون کے گرد کون لوگ بیٹھتے ہیں اسی قماش کے لوگ توہیں۔ صاحبان زور اور زر ہیں یا پھر ظالم اور جابر کے معاون۔
عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں :
وہاں پر فرعون کے اطراف میں پانچ سو آدمی موجود تھے ،جن کا شمارفرعون کے خواص میں ہوتا تھا۔( تفسیر الفتوح رازی ، اسی آیت کے ذیل میں )
اس طرح کی گفتگو سے فرعون یہ چاہتا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کی منطقی اور دلنشیں گفتگو اس گروہ کے تاریک دلوں میں ذرہ بھر بھی اثر نہ کرے اور لوگوں کویہ باور کروائے کہ ان کی باتیں بے ڈھنگی اور ناقابل فہم ہیں ۔
مگر جناب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی منطقی اور جچی تلی گفتگو کو بغیر کسی خوف و خطر کے جاری رکھتے ہوئے فرمایا: وہ تمہارا رب بھی ہے اور تمہارے آباوٴ اجداد کا بھی رب ہے ( قَالَ رَبُّکُمْ وَرَبُّ آبَائِکُمْ الْاٴَوَّلِینَ )۔
در حقیقت یہ بات ہے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام نے پہلے تو آفاتی آیات کے حوالے سے استدلال کیا اب یہاں پر ”آیات النفس“ اور خودانسان کے اپنے وجود میں تخلیق خالق کے اسرار اور انسانی روح اور جسم میں خدا وند عالم کی ربوبیت کے آثار کی طرف اشارہ کر رہے ہیں تاکہ یہ عاقبت نا اندیش مغرور کم از کم اپنے بارے میں تو کچھ سوچ سکیں خود کو اور پھر اپنے خدا کو پہچان سکیں ۔
لیکن فرعون اپنی ہٹ دھرمی سے پھر بھی باز نہ آیا اور اب استہزاء اور مسخرہ پن سے چند قدم آگے بڑھ جاتا ہے اور موسیٰ علیہ اسلام کو جنون اور دیوانگی کا الزام دیتا ہے چنانچہ اس نے کہا :جو پیغمبر تمہاری طرف آیا ہے بالکل دیوانہ ہے ( قَالَ إِنَّ رَسُولَکُمْ الَّذِی اٴُرْسِلَ إِلَیْکُمْ لَمَجْنُونٌ)۔
وہی تہمت جو تاریخ کے ظالم اور جابر لوگ خدا کے بھیجے ہوئے مصلحین پر لگا تے رہتے تھے ۔
یہ بھی لائق توجہ ہے کہ یہ مغرور فریبی اس حد تک بھی روادار نہ تھا کہ کہے ”ہمارا رسول“ اور ”ہماری طرف بھیجا ہوا“ بلکہ کہتا ہے ”تمہارا پیغمبر “ اور تمہاری طرف بھیجا ہوا “ کیونکہ ”تمہارا پیغمبر “ میں طنز اور سہزاء پایا جاتا ہے اور ساتھ ہی اس میں غرور اور تکبر کا پہلو بھی نمایا ں ہے کہ میں اس بات سے بالا تر ہوں کہ کوئی پیغمبر مجھے دعوت دینے کے لئے آئے اور موسیٰ علیہ اسلام پر جنون کی تہمت لگانے سے اس کا مقصد یہ تھا کہ جناب موسی ٰ علیہ اسلام کے جاندار ودلائل کو حاضرین کے اذہان میں بے اثر بنایا جائے ۔
لیکن یہ نارواتہمت موسیٰ کے بعد حوصلوں کو پست نہیں کرسکی اور انھوں نے تخلیقاتِ عالم میں آثار الہٰی اور آفاق و انفس کے حوالے سے اپنے دلائل کو برابر جاری رکھا اور کہا : وہ مشرق و مغرب اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے سب کا پروردگار ہے اگر تم عقل و شعورسے کام لو( قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَیْنَھُمَا إِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُونَ )۔
اگر تمہارے پاس مصر نامی محدود سے علاقے میں چھوٹی سی ظاہری حکومت ہے تو کیا ہوا؟ میرے پروردگار کی حقیقی حکومت تو مشرق و مغرب اور اس کے تمام درمیانی علاقے پر محٰط ہے اور ا س کے آثار پر محیط ہے اور ا س کے آثار ہر جگہ موجودات ِ عالم کی پیشانی پر چمک رہے ہیں اصولی طور پر خود مشرق و مغرب میں آفتاب کا طلوع و غروب اور کائنات ِ عالم پر حاکم نظام ِ شمسی ہی اس کی عظمت کی نشانیاں ہیں لیکن عیب خود تمہارے اندر ہے کہ تم عقل سے کام نہیں لیتے بلکہ تمہارے اندر سوچنے کی عادت ہی نہیں ہے ( یاد رہے کہ ” ان کنتم تعقلون “ کا جملہ بھی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر تمہاری گزشتہ اور موجودہ زندگی میں سوچ بچار کا طریقہ ہوتااور تم کچھ سوچ بچار سے کام لیتے تو یقینا اس حقیقت کو بھی پالیتے )۔
در حقیقت یہاں پر حقیقت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی طرف جنون کی نسبت کا بڑے اچھے انداز میں جواب دیا ہے در اصل وہ یہ کہنا چاہپتے ہیں کہ دیوانہ میں نہیں ہوں بلکہ دیوانہ اور بے عقل وہ شخص ہے جو اپنے پر وردگار کے ان تمام آثار اور نشانات کو نہیں دیکھتا۔
عالم وجود کے ہر درو دیوار پر ذات پر وردگار کے اس قدر عجیب و غریب نقوش موجود ہیں پھر بھی جو شخص ذات ِ پر وردگار کے بارے میں نہ سوچے اسے خود نقش ِ دیوار ہونا چاہئیے۔
یہ ٹھیک ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے پہلی بار ہی آسمانوں اور زمین کی طرف اشارہ کیا ہے چونکہ آسمان و زمین بہت بلند اور زمین نہایت اسرار آمیز ہے لیکن آخر میں آکر ایک ایسے نقطے پر انگلی رکھی جس سے کوئی شخص بھی انکار نہیں کرسکتا تھا اور ہر شخص کا روزانہ اس سے واسطہ رہتا ہے اور وہ ہے سورج کا روز مرہ طلوع و غروب کامنظم پروگرام جس کے متعلق کوئی شخص بھی یہ کہنے کی جراٴت نہیں کرسکتا کہ میں ہی اسے منظم کرنے والاہوں ۔
”مابینھما“ ( جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے )کی تعبیراس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مشرق اور مغرب کے درمیان وحدت اور ارتباط ِ باہم پایاجاتا ہے جس طرح آسمان اور زمین کے باہمی ارتباط کی طر ف اشارہ گزر چکا ہے اور ” ربکم و رب اٰبائکم الاولین “ کے بارے میں بھی یہی کہاجائے گا کہ موجودہ اور سابقہ نسلوں کے درمیان ایک وحدت و ہم آہنگی بر قرار ہے ۔
ان طاقتور دلائل نے فرعون کو بوکھلا دیا، ان اس نے اسی حربے کا سہا را لیا جس کا سہا را ہر بے منطق اور طاقتور لیتا ہے اور جب وہ دلائل سے عاجز آجاتا ہے تو اسے آزمانے کی کوشش کرتا ہے :فرعون نے کہا اگر تم نے میرے علاوہ کسی اور کو معبود بنایا تو تمہیں قیدیوں میں شامل کردوں گا (قَالَ لَئِنْ اتَّخَذْتَ إِلَھًَا غَیْرِی لَاٴَجْعَلَنَّکَ مِنْ الْمَسْجُونِین)۔
میں تمہاری اور کوئی بات نہیں سننا چاہتا میں تو صرف ایک ہی عظیم الٰہ اور معبود کو جانتا ہوں اور وہ میں خود ہوں اگر کوئی شخص اس کے علاوہ کہتا ہے تو بس سمجھ لے کہ اس کی سز یا تو موت ہے یا عمر قید جس میں زندگی ہی ختم ہو جائے ۔
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ ” المسجونین “ میں الف لام عہد کے لئے ہے جو ایک مخصوص زندان کی طرف اشارہ جس میں جو شخص بھی گیا زندہ سلامت واپس نہیں آیا۔۱
”تفسیر المیزان“ ” تفسیر رازی“ اور تفسیر روح المعانی“اسی آیت کے ذیل میں ۔
در حقیقت فرعون چاہتا تھا کہ اس قسم کی تیز و تند گفتگو کرکے موسیٰ علیہ السلام کو ہراساں کرے تاکہ وہ ڈر کر چپ جائیں کیونکہ اگر بحث جاری رہے گی تو لوگ اس سے بیدار ہو ں گے اور ظالم و جابر لوگوں کے لئے عوام کی بیداری اور شعور سے بڑھ کر کوئی چیز خطرناک نہیں ہوتی۔
سوره شعراء / آیه 23 - 29سوره شعراء / آیه 30 - 37
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma