معبودوں اور گمراہ عابدوں کو جھگڑا

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 15
سوره شعراء / آیه 88 - 104۱۔ ”قلب سلیم“ ہی نجات کا سر مایہ ہے

گزشتہ گفتگو کی آخری آیت میں روزِ قیامت اور معاد کے مسئلے کی طرف ایک مختصر سا اشارہ تھا لیکن زیر نظر کئی آیات میں قیامت کے منظر کی جامع تصویر کشی کی گئی ہے اور اس بازار میں جس اہم ترین سودے کے خریدار پائے جاتے ہیں اس کا بھی ذکر موجود ہے اور مومن ، کافر، گمراہ اور شیطانی ٹولے کے افراد کا بھی ذکر ہے آیات کے ظاہر سے بھی معلوم ہوتاہے کہ یہ توصیف اور تشریح حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی دعا کا تمتمہ اور ضمیمہ ہے اور اکثر مفسرین بھی یہی کہتے ہیں لیکن بعض مفسرین کا احتمال یہ ہے کہ زیر نظر تمام آیات خدا کی گفتگو کا حصہ ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی دعا کے فوراً بعد ان کی گفتگو کی وضاحت اور تکمیل کے طور پر آئی ہیں لیکن یہ احتمال ضعیف ہے ۔
صورت حال خواہ کچھ ہو قرآن سب سے پہلے کہتا ہے :قیامت کا دن وہ دن ہے ، جس میں کوئی بھی مال اور اولاد کسی قسم کا فائدہ نہیں پہنچائیں گے ( یَوْمَ لاَیَنْفَعُ مَالٌ وَلاَبَنُونَ)۔
در حقیقت جب دنیاوی زندگی کے دو اہم سرمائے ، یعنی مال اور افرادی وقت اپنے صاحب کے لئے ذرہ بھر بھی مفید ثابت نہیں ہوں گے تو صاف ظاہر ہے کہ باقی دنیاوی سرمایہ جس کا شمار ان کے بعد ہوتا ہے قطعاًکوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا ۔
ظاہر ہے کہ یہاں مال اور اولاد سے مراد ایسا مال اور اولاد نہں ہے جس سے رضائے الہٰی کے حصول کاکام لیاجائے ، بلکہ ان کے مادی پہلو پر گفتگو کی جارہی ہے یعنی اس دن مادی سرمایہ کسی مشکل کو حل نہیں کر سکے گا ، لیکن اگر یہ چیزیں ، یعنی مال اور اولاد راہ الہٰی میں کام آجائیں تو وہ مادی سرمایہ نہیں کہلائیں گی بلکہ وہ رنگ الہٰی اور ”صبغة اللہ “ میں رنگ جائیں گی اور ”الباقیات الصالحات“ میں ان کا شمار ہو نے لگے گا۔
پھر استثناء کے عنوان سے بات کو آگے بڑھا تا ہے : مگر جو شخص قلب ِ سلیم لے کر اللہ بار گاہ میں پیش ہو (اس کا دل ہر قسم کے شرک و کفر اور گناہوں کی آلائش سے پاک صاف اور صحیح و سالم ہو)( إِلاَّ مَنْ اٴَتَی اللهَ بِقَلْبٍ سَلِیمٍ )۔
تو معلوم ہوا کہ قیامت کے دن جو سرمایہ بوٴنجات دے گا وہ قلب سلیم ہے اور بس ۔کیا ہی جامع اور عمدہ تعبیر ہے ۔ یہ ایک ایسی تعبیر ہے جس میں خالص ایمان بھی پایا جاتا ہے اورپاک نیت اور ہر قسم کا نیک عمل بھی ۔ کیونکہ اس طرح کے پاک و پاکیزہ دل کا ثمرہ بھی پاک اور پاکیزہ ہو گا ۔دوسرے لفظوں میں جس طرح انسان کا دل اور روح ا س کے اعمال میں موثر ہوتے ہیں اس کے اعمال کا بھی اس کے دل و جان پر وسیع ردّ عمل ہوتا ہے اور انھیں اپنے رنگ میں رنگ دیتے ہیں ۔ اعمال خواہ رحمانی ہوں یا شیطانی ان کا دل و جان پر ضرور اچر ہوتا ہے ۔
پھر جنت اور جہنم کی تشریح کرتے ہوئے قرآن فرماتا ہے :اس وقت بہشت پر ہیز گاروں کے نزدیک کر دی جائے گی۔( وَاٴُزْلِفَتْ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِینَ)(1) ۔
اور جہنم گمراہ لوگوں کے لئے ظاہر ہو گی ( وَبُرِّزَتِ الْجَحِیمُ لِلْغَاوِینَ) ۔
در حقیقت یہ سب کچھ ان لوگوں کے جنت یا جہنم میں داخل ہونے سے پہلے ہوگا اور ان دونوں گروہوں میں سے ہر ایک اپنے اپنے ٹھانے کا منظر نزدیک سے دیکھ لے گا ۔مومن مسرور و شاد مان اور گمراہ مبہوت و وحشت زدہ ہوں جائیں گے اور یہ ان کی پاداش اور جزا و سزا کا پہلا مرحلہ ہو گا ۔
پھر دلچسپ بات یہ ہے کہ قرآن یہ نہیں کہہ رہا کہ پرہیز گاروں کو بہشت کے زندیک کردیا جائے گا بلکہ فرمایاتا ہے بہشت کوان کے قریب کر دیاجائے گا اور یہ ان متقین کی عظمت اور بلندی ٴ درجات کی طرف اشارہ ہے ۔
یہ نکتہ بھی قابل ِ گور ہے کہ ”غاوین“ (گمراہ لوگ) کی تعبیروہی ہے جو شیطان کی داستان میں آچکی ہے کہ جب شیطان بار گاہ الٰہی سے دھتکار دیا گیا اور خدا نے فرمایا:
ان عبادی لیس لک علیھم سلطان الا من اتبعک من الغاوین “
تجھے میرے بندوں پر تسلط حاصل نہیں ہوگا ، مگر جولوگ گمراہ ہیں وہ تیری پیروی کریں گے ۔ (حجر/ ۴۲)۔
پھر اس گفتگو کاتذکرہ کرتا ہے جس کے ذریعے اس گمراہ گروہ کوسر زنش اور عتاب کیا جائے گا۔ فرماتاہے انھیں کہا جائے گا کہ کہاں ہیں تمہارے وہ معبود کہ جن کی تم عبادت کیا کرتے تھے ( وَقِیلَ لَھُمْ اٴَیْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْبُدُون)۔
وہی معبود جو خدا کے علاوہ تھے ( مِنْ دُونِ اللهِ )۔
اب جبکہ ان شدید مصائب اور سختیوں میںتم گھرے ہوئے ہو تو کیا وہ تمہاری مدد کر رہے ہیں (ھَلْ یَنْصُرُونَکُمْ)۔
کسی کو تمہاری امداد کے لئے بلا رہے ہیں یا کوئی ان کی امدا کو آرہا ہے ( اٴَوْ یَنْتَصِرُونَ )(2) ۔
لیکن وہ اس سوال کا کوئی جواب نہیں دے سکیں گے اور نہ ہی کسی کو ان سے اس قسم کی توقع ہے ۔
اس موقع پر تمام معبودوں کو اکھٹا کرکے ان کے گمراہ عابدوں کے ساتھ انھیں جہنم میں ڈال د اجائے گا ( فَکُبْکِبُوا فِیھَا ھُمْ وَالْغَاوُونَ) ۔
بعض مفسرین کے بقول ان میں سے ہرایک کو دوسرے پر اوندھے منہ ڈالا جائے گا ۔
اور اسی طرح ابلیس کے لشکری تمام کے تمام ( وَجُنُودُ إِبْلِیسَ اٴَجْمَعُونَ)۔
در حقیقت یہ تینوں گروہ یعنی بت، بتوں کے پجاری اور شیطان کے لشکری جوکہ ان گناہوں کے دلال ہیں سب کے سب دوزخ میں جمع کئے جائیں گے لیکن اس طرح کہ انھیں یکے بعد دیگرے جہنم میں ڈالا جائے گا ۔
چونکہ”کبکبوا“ در اصل ”کب“ کے مادہ سے ہے جس کا معنی ٰ ہے کسی چیز کو گڑھے میں منہ کے بَل ڈالنا اور ”کب“ کو مکرر صورت (کبکب) میں لانا ان کو جہنم میں لڑھکا نے کے معنیٰ بیان کرتا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کو دوزخ میں ایسے ڈالا جائے گا جس طرح کسی پتھر کو ڈالا جاتا ہے کہ اسے ایک بلند مقام سے گرایا جائے تو پہلے وہ درے میں آکر گرے گاپھر ایک اور جگہ پھر وہاں سے کسی اور جگہ اسی طرح گرتے گرتے وہ گہرے کھڈے میں جاپڑے گا (3) ۔
بعید نہیں کہ اس کلمہ کو ”کبکبوبہ“ (دونوں کاف پر پیش کے ساتھ ) سے لیا گیا ہو جو عربی میں انسانوں کی جماعت یا گھوڑوں کے ٹولے کے معنی میں ہے اور کبھی اسے فارسی میں ”دبدبہ“ بھی استعمال کرتے ہیں جس کے معنی بھی لوگوں کے پاوٴں کی یا ڈھول یا باجے وغیرہ کی صدا ہے ۔
لیکن یہ بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ ان کے بعد ان جہنمیوں کی باہمی تلخ کلامی اور جھگڑے فساد کی منظر کشی کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے :وہ جہنم میں آپس میں لڑائی جھگڑا کریں گے اورکہیں گے (قَالُوا وھُمْ فِیھَا یَخْتَصِمُونَ )۔
جی ہاں وہ گمراہ عابد کہیں گے: خدا کی قسم ہم تو کھلم کھلا گمراہی میں تھے ( تَاللهِ إِنْ کُنَّا لَفِی ضَلاَلٍ مُبِینٍ )(4) ۔
لیکن تم جھوٹے معبودوں کو رب العالمین کے برابر سمجھتے تھے ( إِذْ نُسَوِّیکُمْ بِرَبِّ الْعَالَمِینَ)(5) ۔
لیکن سوائے مجرمین کے ہمیں کسی نے بھی گمراہ نہیں کیا ( وَمَا اٴَضَلَّنَا إِلاَّ الْمُجْرِمُونَ)۔
وہی مجرمین جو ہمارے معاشرے کے سرغنے تھے جنہوں نے اپنے مفادات کی خاطر ہمیں قربانی کا بکرا بنا یا اوربد بختی کے اس مقام پر لے آئے ۔
لیکن فسوس کہ ہماری شفاعت کرنے والے موجود نہیں ( فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِینَ)۔
اور ہی کوئی گرم جوش اور محبت کرنے والا دوست جو ہماری مدد کرسکے ( وَلاَصَدِیقٍ حَمِیمٍ)۔
خلاصہ یہ کہ جس طرح ہم دنیا میں سمجھتے تھے کہ ہمارے معبود ہماری مدد کریں گے لیکن ایسا نہیں ہے اور وہ ہماری مدد نہیں کر رہے اور نہ ہی ہمارے دوستوں میں مدد کا یارا ہے ۔
قابل غور بات یہ بھی ہے کہ گزشتہ آیت میں ”شافعین “ جمع اور”صدیق“ مفرد کی صورت میں آیا ہے ممکن ہے کہ یہ تفاوت اس لئے ہوکہ گمراہوں کا یہ گروہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھے گا کہ جو مومنین دنیا میں لغزشوں کا شکار تھے آج انھیں انبیاء ، اوصیاء ملائکہ اور دوسرے شفاعت کرنے والے دوستوں کی شفاعت نصیب ہو رہی ہے ، تو وہ بھی یہی آرزو کریں گے کہ اسے کاش !کہ ان کا بھی کوئی شفاعت کرنے والا اور دوست ہوتا۔
رہا ”صدّیق“ تو بعض مفسرین کی تصریح کے مطابق ”صدیق“اور عدو“ کا اطلاق مفرد پر بھی ہو تا ہے اور جمع پر بھی ۔
لیکن بہت جلد ان کو اس حقیقت کا پتہ چل جائے گا کہ اب افسوس کا کوئی فائدہ نہیں اور نہ ہی وہاں پر کوئی نیک عمل کر کے اپنی کوتاہیوں کی تلافی کی جا سکتی ہے لہٰذا وہ دنیا میں واپس آنے کی آرزو کریں گے :اگر ہم دنیا میں دوبارہ پلٹ جائیں تو مومنوں میں سے ہوں گے ( فَلَوْ اٴَنَّ لَنَا کَرَّةً فَنَکُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ )۔
یہ ٹھیک کہ وہاں پر اور اس دن ایمان لے آئیں گے ، لیکن ان کا یہ ایمان ایک طرح سے مجبوری والا ایمان ہوگا ۔
ایمان وہ موٴثر ،تعمیری اور قابل قبول ہوتا ہے جو اختیاری ہواور اسی جہان میں ہو۔ جس سے ہدایت بھی حاصل ہو اور اعمال، صالحہ بھی سر زد ہوں ۔
لیکن یہ آرزو بھی کسی صورت میں کوئی مشکل حل نہیں کرے گی طریقہٴ الٰہیہ کسی کو واپس پلٹنے کی اجازت نہیں دے گا اور وہ خود بھی اس حقیقت کو سمجھتے ہوں گے اور کملہ”لو“اسی بات کی دلیل ہے (6) ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی گمراہ قوم کے ساتھ گفتگو، بار گاہ رب العزت میں ان کی دعا روز قیامت کی کفیت بیان کرنے کے بعد خدا وند عالم نے تمام لوگوں کے لئے نتیجہ کے طور پر آخر میں وہی دو آیات ذکر کی ہیں جو موسیٰ علیہ اسلام او رفرعون کی داستان کے آخر میں ذکر کی ہیں اور اسی سورہ میں دوسرے انبیاء کی داستانوں میں بھی آئی ہیں۔ چنانچہ فرمایا گیا ہے : اس ماجرے میں خدا کی عظمت و قدرت اور گمراہ لوگوں کے دردناک انجام اور مومنین کی کامیابی میں بہت بڑی نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر مومن تھے ( إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَةً وَمَا کَانَ اٴَکْثَرھُمْ مُؤْمِنِینَ )۔
اور تمہارا پر وردگارناقابل تسخیر اور بے حد مہر بان ہے ( وَإِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیزُ الرَّحِیمُ )۔
اس قسم کے جملوں کو بار بار اس لئے دہرا یا جاتا ہے تاکہ اس طرح سے پیغمبر اسلام اور اس زمانے کے تھوڑے سے مسلمانوں کی تسلی خاطر کے اسباب فراہم کئے جاسکیں ، نیز اس لئے بھی کہ کسی دور میں بھی مومن اقلیت گرماہ اکثریت سے وحشت نہ کرے اور خدا کی عزت و رحمت کے ذریعے اپنے آپ کو مشغول اور سرگرم رکھے ۔ نیز یہ گمراہ لوگوں کے لئے ایک قسم کی تنبیہ اور اس بات کی طرف اشارہ بھی ہے کہ اگر انھیں کچھ ڈھیل دی جارہی ہے تو اس لئے نہیں کہ خدا وند عالم کمزور ہے بلکہ اس لئے ہے کہ وہ رحیم ہے ۔
1۔”ازلفت“ ”زلفی“ (بروزن”کبری“)قرب اور نزدیکی کے معنی ٰ میں ہے۔
2۔ ممکن ہے ”ینتصرون“ اپنے لئے مدد طلب کرنے کی طرف یا دوسروں کے لئے مدد طلب کرنے کی طرف یا ہر دو کے لئے مد د کی درخواست کی طرف اشارہ ہو کیونکہ بعد والی آیات میں ہے کہ معبود اور عابد دونوں جہنم میں ڈالے جائیں گے ۔
3۔ موجودہ فارسی میں ”کبکبہ“سواروں کی جماعت یاگھوڑوں اور انسانوں کے اکھٹا چلنے کی صدا کو کہا جاتا ہے اور یہ شان و شوکت اور عظمت وجلال کے لئے کنایہ ہے (فرہنگ معین )۔
4 ۔”ان کنا“ میں ” ان “ مثقلہ سے مخففہ بن کر استعمال ہوا ہے جو در اصل ”انا کنا“تھا۔
5۔ ہو سکتا ہے کہ یہاں پر ”اذ“ طرفیت کے معنی ٰ میں ہو او رہو سکتا ہے کہ وہ تعلیلیہ ہو ۔
6 ۔”لو“حرف شرط ہے اور عام طور پر وہاں بولا جاتا ہے جہاں پر شرط محال ہو ۔
سوره شعراء / آیه 88 - 104۱۔ ”قلب سلیم“ ہی نجات کا سر مایہ ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma