نباتات میں زوجیّت

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 15
سوره شعراء / آیه 7 - 9سوره شعراء / آیه 10 - 15

گزشتہ آیات میں تشریعی آیات یعنی قرآن مجید سے کفار کی روگردانی کا تذکرہ تھا ان آیات میں ان کے تکوینی آیات( کائناتمیں موجود خدا کی نشانیوں) سے اعراض کا ذکر ہے انہوں نے آنحضرت کاکلام سننے سے صرف کانوں ہی کو بند نہیں کر رکھا تھا بلکہ اپنے اطراف میں موجود حق کی نشانیوں کو دیکھنے سے بھی آنکھوں کو محروم رکھا ہوا تھا ۔
فرمایا گیا ہے : کیا انہوں نے زمین کی طرف نہیں دیکھا کہ ہم نے کتنی کثیر مقدار میں مختلف قسم کی نباتات پیدا کی ہیں کہ جن میں نر بھی ہیں او رمادہ بھی ، خوبصورت و زیبا بھی ہیں اور فائندہ مند بھی( اٴَوَلَمْ یَرَوْا إِلَی الْاٴَرْضِ کَمْ اٴَنْبَتْنَا فِیہَا مِنْ کُلِّ زَوْجٍ کَرِیمٍ)(1) ۔
یہاں پر نباتات کے بارے میں لفظ ”زوج“ لایا گیا ہے اور یہی چیز غور طلب ہے اگر چہ اکثر مفسرین نے زوج کو نوع اور صنف کے معنی میںلیا ہے اور ازواج کا معنی انواع اور اصناف کیا ہے لیکن اگر ہم اسے اس کے مشہور معنیٰ میں لیں یعنی ہر چیز کا جوڑا جوڑا رو اس میں کیا حرج ہے ؟اس سے عالم نباتات میں زوجیت اور جوڑا ہونے کی طرف اشارہ ملتا ہے ۔
گزشتہ زمانے میں لوگوں نے کم و بیش اس حد تک سمجھ رکھا تھا کہ نباتات کی بعض قسمیں نر اور مادہ پر مشتمل ہیں اور نباتات کو ثمر آور بنانے کے لئے تلقیح کے عمل سے استفادہ کرتے تھے اور کم از کم کھجور کے درخت کی حد تک تو یہ بات مسلم تھی ۔
لیکن باعدہ طور پر سب سے پہلے سویڈن کا مشہور و معروف ماہر نباتات مسٹر”لینے“ اٹھارویں صدی عیسوی میں حقیقت دریافت کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ نباتات کی دنیا میں تقریباًیہ ایک عام قانون ہے اور عام حیوانات کی طرح نباتات بھی نر اور مادہ کے نطفے کی آمیزش سے ثمر آور ہوتے ہیں اور ان کی نسل بڑھتی ہے ۔
لیکن اس سائنس دان کی دریافت سے صدیوں پہلے قرآن نے مختلف آیات میں کئی مرتبہ نباتات کے جوڑا جوڑا ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے ( زیر نظر آیات، سورہٴ رعد کی آیت ۴، سورہٴ لقمان کی آیت ۱۰ اور سورہ ق کی آیت ۷ اسی کی طرف اشارہ کررہی ہیں)اور یہ قرآن کا ایک عالمی معجزہ ہے ۔
”کریم “ کا لفظ در اصل ہر قیمتی اور قابل قدر چیز کے معنی میں آتا ہے جوکبھی تو انسانوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اور کبھی نباتا ت کے لئے ۔ حتی کہ بعض اوقات ” خط“ کو بھی ”کریم“ لفظ کے ساتھ موصوف کیا جاسکتا ہے جیسا کہ حضرت سیلمان علیہ السلام کے خط کے بارے میں ملکہ سبا نے کہاتھا ” انی القی الیّ کتاب کریم “(نمل/۲۹)
کریم نباتات سے مراد مفید نباتات ہیں۔ اگر چہ تمام نباتات مفید ہیں اور یہ افادیت علم اور سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ مزید جاگر ہوتی جائے گی ۔
بعد والی آیت میں مزید تاکید اور بیشتر وضاحت کے طور پر قرآن فرماتا ہے : ان قیمتی نباتات کی تخلیق میں خدا کے وجود پر واضح نشانی موجود ہے ( إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَةً)۔
اس حقیقت کی طرف توجہ کی جائے کہ یہ مٹی جو بظاہر ایک بے قیمت سی چیز ہے لیکن اگر اسے ایک مقررہ ترکیب حاصل ہو جائے تو یہ قدرت ِ الہٰی کا یک عظیم شاہکار بن جاتی ہے جس سے رنگا رنگ خوب صورت پودے ، پھول ، ثمر آور درخت اور مختلف خواص کے حامل انواع و اقسام کے میوے حاصل کئے جس سکتے ہیں۔
لیکن یہ دل کے اندھے اس قدر غافل اور بے خبر ہیں کہ اس قدر عظیم آیات کو دیکھنے کے باوجود غفلت کاشکار ہیں کیونکہ کفر اور ہٹ دھرمی ان کے دل میں راسخ ہو چکے ہیں ۔ بنابریں آیت کے اختتام پر فرمایا گیا ہے :ان میں سے اکثر لوگ تو کبھی بھی مومن نہیں تھے (وَمَا کَانَ اٴَکْثَرُھُمْ مُؤْمِنِینَ)۔
یعنی یہ بے ایمانی ان کی ایک راسخ صفت بن چکی ہے لہٰذا اگر وہ ان آیات سے فائدہ نہ اٹھائیں توتعجب نہیں کرنا چاہئیے کیونکہ فعل کی اہلیت اور لیاقت بھی تو تاثیر کی اصل شرط ہے جیسا کہ قرآن مجید کے بارے میں ہم پڑھتے ہیں کہ وہ ”ھدیً للمتقین“ ( یعنی متقیوں کے لئے سببِ ہدایت)ہے( بقرہ/۲)۔
زیر بحث آیات کے سلسلے میں آخری کڑی میں تنبیہ اور تشویق کے ساتھ امید اور خوف کا منظر پایا جاتا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : تیرا پر وردگار عزیز اور رحیم ہے (وَإِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیزُ الرَّحِیم)۔
”عزیز“اس طاقت ور کو کہتے ہیں جو ناقابلِ شکست ہوتا ہے ۔خدا اس لئے عزیز ہے کہ وہ اپنی عظیم نشانیاں دکھانے پر بھی قادر ہے اور جھٹلانے والوں کی سرکوبی بھی بڑی آسانی کے ساتھ کرسکتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ رحیم ہے اور اس کی وسیع رحمت ہر جگہ کو گھیرے ہوئے ہیں کہ اگر ایک مختصر سے لمحہ میں بھی تہ دل کے ساتھ اس کی بار گاہ کی طرف رجوع کیا جائے تو یہی کافی ہے کہ انسان پر اس کی نظر ِکرم ہو جائے اور وہ اس کے تمام گزشتہ گناہوں پر بخشش کا قلم پھیر دے ۔
”عزیز“ کو ”رحیم“ پر شاید اس لئے مقدم کیا گیا ہے کہ اگر رحیم کو عزیز پر مقدم کرتا تو شاید اس سے کمزوری کا احساس ہوتا لیکن عزیز کے مقدم کرنے سے یہ بات روشن ہو جاتی ہے کہ وہ انتہائی قدرت کے باوجود رحیم اور نہایت ہی مہر بان ہے ۔
 1۔عموماً ایسا ہوتا ہے ”روٴیت“ کا مادہ ”الیٰ“ کے ساتھ ایک مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے ، بلکہ بعض اوقات دو مفعولوں کی طرف بھی متعدی ہوتا ہے اور اگر یہاں پر ”الیٰ “ کے ساتھ متعدی ہو ا ہے تو اس وجہ سے ہے کہ یہ نگاہ کرنے کے معنی میںہے جو غور وفکر کے ساتھ دیکھنے کی طرف اشارہ ہے ۔
سوره شعراء / آیه 7 - 9سوره شعراء / آیه 10 - 15
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma