قوم صالح کی ہت دھرمی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 15
سوره شعراء / آیه 153 - 159سوره شعراء / آیه 160 - 166

آپ گزشتہ آیات میں گمراہ کے سامنے حضرت صالح علیہ السلام کی منطقی اور خیر خواہی پرمبنی گفتگو ملاحظہ فرماچکے ہیں اب صالح کے جواب میں اس قوم کی گفتگو سینے ۔
انھوں نے کہا: اے صالح ! تم سحر زدہ ہو کر اپنی عقل کھو چکے ہو ،لہٰذا غیر معقول باتیں کرتے ہو( قَالُوا إِنَّمَا اٴَنْتَ مِنْ الْمُسَحَّرِین)۔
اور پھر یہی نہیں بلکہ ”تم توہمارے جیسے بش رہی تو ہو “ اورکوئی بھی عقل اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم اپنے جیسے شخص کی اطاعت کریں( مَا اٴَنْتَ إِلاَّ بَشَرٌ مِثْلُنَا )۔
اگر سچ کہتے ہو تو کوئی نشانی لاوٴ تاکہ ہم تم پر ایمان لے آئیں(فَاٴْتِ بِآیَةٍ إِنْ کُنْتَ مِنْ الصَّادِقِین)۔
”مسحر“ سحر“ کے مادہ سے ہے اور اس کا معنی ہے ” جس پر جادو کیا گیا ہو “ اور ان کایہ عقیدہ تھا کہ بسااوقات جادو گر لوگ جادو کے ذریعے انسان کی عقل و ہوش کو بیکار بنادیتے ہیں صرف انھوں نے جناب صالح پرہی یہ تہمت نہیں لگائی بلکہ اور لوگوں نے بھی دوسرے انبیاء پر ایسی تہمتیں لگائی ہیں ۔حتی کہ خود پیغمبر اسلام کی ذات کو متہم کیا جیسا کہ سورہ فرقان کی آیت ۸ میں ہے :
ان تتبعون الا رجلاً مسحوراً
ظالم لوگ کہتے تھے کہ تم تو اس شخص کی اتباع کرتے ہو جو مسحور ہونے کی بناء پراپنی عقل کھوچکا ہے ۔
جی ہاں ! ان کے ندیک عقل مند انسان وہ ہوتا ہے جو ماحول میں ڈھل جائے ابن الوقت بن جائے اور خود تمام برائیوں پر منطبق ہو جائے اور اگر کوئی انقلابی مردِ خدا فاسد عقائد نظام کے بطلان کے لئے قیام کرتا تو وہ اپنی اس منطق کی رو سے اسے دیوانہ، مجنون اور سحر زدہ کہتے ۔
بعض مفسرین نے ”مسحرین“کے معنی میں اور بھی کئی احتمالات کا ذکر کیا ہے جو اس سے قطعاً مناسبت نہیں رکھتے لہٰذا انھیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔
بہر حال یہ سر کش لوگ حق طلبی کی خاطر نہیں بلکہ حیلے بہانوں کی بناء پر معجزے کے طلبگار ہوئے جس سے ان پر اتمام ھجت ہو جائے ، لہٰذا خدا وند متعال کے حکم کے مطابق جناب صالح علیہ السلام نے کہا: یہ ناقہ ہے جس کے لئے بستی کے پانی میں حصہ ہے اور تمہارے لئے مقرہ دل کا حصہ ہے ( قَالَ ھٰذِہِ نَاقَةٌ لَھَا شِرْبٌ وَلَکُمْ شِرْبُ یَوْمٍ مَعْلُومٍ )۔
”ناقہ“کا معنی ہے اونٹنی ، اور قرآن نے اس اعجاز آمیز حالت کی حامل اونٹنی کے بارے میں مجمل ذکر کیا ہے اس کی تفصیل اور خصوصیت کو بیان نہیں کیا لیکن اتنا ضرورمعلوم ہے کہ وہ ایک عام اور معمولی اونٹنی نہیں تھی۔ بعض مفسرین کے بقول یہ اونٹنی معجزانہ صورت میںپہاڑ کے اندر سے بر آمد ہو ئی اس کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ بستی کا ایک دن کاپانی پی جاتی تھی جیسا کہ آیت میں اور سورہٴ قمر کی آیت ۲۸ میں اسی بات کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔
البتہ اس کی اور خصوصیات بھی مختلف روایات میں ذکر ہو ئی ہیں(1)۔
بہر صورت جناب صالح علیہ السلام کو حکم ِ خدا وندی تھا کہ ان لوگوں کو بتادیں کہ یہ عجیب و غریب اور غیر معمولی اونٹنی ہے جو خدا وند متعال کی بے انتہا قدرتکی ایک نشانی ہے لہٰذا اسے اپنے حال پر ہی رہنے دیں اور فرمایا کہ اسے ذرہ بھر بھی تکلیف نہ پہنچاوٴ، ورنہ عظیم دن کا عذاب تمہیں اپنی لپیٹ میں لے لے گا( وَلاَتَمَسُّوھَا بِسُوءٍ فَیَاٴْخُذَکُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَظِیم)ٍ۔
البتہ وہ سر کش قوم یہ نہیں چاہتیتھی کہ فریب خوردہ لوگ بیدار ہو جائیں کیونکہ لوگوں کی آگاہی کی وجہ سے اس کے مفادات کو خطرہ لاحق تھا لہٰذا ان سرکش اور مجرم لوگوں نے منسوبہ یہ بنا یا کہ اس ناقہ کا ہی کاتمہ کر دیا جائے ”آخر کار اس پر حملہ کر ہی دیا اور ایک ی اچند ضربات سے اس کا کاتمہ کر دیااور پھر اپنے کئے پر نادم ہو گئے “ کیونکہ عذاب ِ الہٰی کو چند قدم کے فاصلے پر دیکھ رہے تھے ، ( فَعَقَرُوہَا فَاٴَصْبَحُوا نَادِمِینَ )(2) ۔
چونکہ اس قوم کی سر کشی ھد سے بڑھ گئی اور عملی طور پر اس نے ثابت کر دیا کہ وہ حق قبول کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہے لہٰذا ارادہ الہٰی اس بات کا متقاضی ہوا کہ زمین کو ا س قوم کے وجود سے پاک کردے ، ایسی حالت میں عذاب ِ الہٰی نے انھیں آلیا( فَاٴَخَذَھُمْ الْعَذَابُ )
اور جیسا کہ سورہ ٴ اعراف کی آیہ ۷۸ اور سورہ ہود کی آیت ۶۷میں اجمالی طور پر مذکورہے کہ پہلے پہل بر دست زلزلے نے ان کی زمین کو لرزا دیا ، جب وہ خواب سے بیدار ہو ئے اور اپنے زانووٴں کے بل بیٹھ گئے تو حادث نے انھیں مہلت نہ دی ،گر جدار بجلی بہت ہی زور کے ساتھ کڑکی اور دیوار وں کو ان کے اوپر گرا دیا اور اسی حالت میں انھوں نے عجیب و غریب وحشت کے ساتھ جان دی۔
اس داستان کے آخر میں وہی کچھ کہتا ہے جو قوم ِ نوح اور قومِ ابراہیم کی سر گزت کے آخرمیں کہتا ہے :۔
قومِ صالح کی اس داستان میں آیت اور درسِ عبرت ہے کہ اس عظیم پیغمبر نے کس قدر پامردی ، صبر اور عمدہ منطق کا مظاہرہ کیا اور روسیاہ لوگوں نے کس حد تک سر کشی ، ہٹ دھرمی اور مخالفت کااظہار کیاکہ بآخرہ وہ اپنے منحوس انجام کو جا پہنچے، لیکن ان میں سے اکثر لوگ ایمان نہیں لائے (إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَةً وَمَا کَانَ اٴَکْثَرُھُمْ مُؤْمِنِین)۔
یقیناًکوئی بھی شخص قدرتِ خدا پر غالب نہیں آسکتا! جیساکہ اس کی یہ قدرت ِ کاملہ دوستوں بلکہ دشمنوں تک پہنچنے کے لئے اس کی رحمت میں مانع نہیں ہوسکتی لہٰذا ”تمہارا پر وردگار عزیز اور رحیم ہے “۔( وَإِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیزُ الرَّحِیمُ )(3) ۔
1۔اس بارے میں مزید تفصیلات کے لئے تفسیر نمونہ جلد ۹ سورہ ہود کی آت ۶۱ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں ۔
2 ۔’عقروا“۔ عقر“(بر وزن”قفل“) کے مادہ سے ہے جس کا اصلی معنیٰ کسی چیز کی اساس اور بنیاد ہے ۔ جس کا ایک معنی تو ”سرکاٹنے“ کا ہے اور دوسرا ”جانور کے پے” کرنے کا ہے ۔(یعنی جانور کے پاوٴں کے نچلے حصے کو کاٹنا اور زمین پر گرا دینا )۔
3 ۔روایات کے مطابق جس نے ناقہٴ صالح کو قتل کیا وہ ایک شخص تھا جبکہ یہ عمل قرآن مجید میں ” فعل جمع“کی صورت میں بیان ہوا ہے اوراور یہ اس لئے ہے کہ دوسرے لوگ اس کے ہم عقیدہ ، ہم آزار اور اس کے عمل پر راضی تھے یہیں سے ایک بنیادی قاعدے کی راہ کھلتی ہے کہ مذہبی اور عقیدتی رشتہ مختلف لوگوں کو ایک ہی لڑی میں منسلک کردیتا ہے اس کی مزید تفصیل کے لئے تفسیر نمونہ جلد ۹ سورہٴ ہود کی آیت ۵۶ کی طرف رجوع فرمائیں ۔
سوره شعراء / آیه 153 - 159سوره شعراء / آیه 160 - 166
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma