مسرفین کی اطاعت نہ کرو

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 15
سوره شعراء / آیه 141 - 152سوره شعراء / آیه 153 - 159

اس سورت میں بیان ہونے والی انبیاء کی داستان ک ایہ پانچواں حصہ ہے جس میں قومِ ثمود اور اس کے پیغمبر جناب صالحعلیہ اسلام کی مختصر سر گزشت بیان کی گئی ہے وہ ”وادی القریٰ “ میں رہتے تھے جو”مدینہ“ اور ”شام“ کے درمیان واقع ہے ۔ یہ قوم اس سر زمین میں خوشحال زندگی بسر کررہی تھی لیکن اپنی سر کشی کی بناء پر صفحہٴ ہستی سے یوں مٹ گئی کہ آج اس کا نام و نشان تک باقی نہیں رہا ۔
اس داستان کا آغاز مکمل طور پر قوم عاد اور قوم ِ نوح کی داستانوں سے ملتا جلتا ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے ، فرمایا گیا ہے : قوم ِ ثمود نے خدا کے رسول کو جھٹلایا ( کَذَّبَتْ ثَمُودُ الْمُرْسَلِینَ )۔
کیونکہ تمام انبیاء کی دعوتِ حق اک جیسی تھی اوراس قوم کا اپنے پیغمبر جناب صالح علیہ اسلام کی تکذیب کرنا درحقیقت تمام رسولوں کی تکذیب کے مترادف تھا۔
اس اجمال کے بعد اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : جبکہ ان کے ہمدرد پیغمبر صالح نے ان لوگوں سے کہا : آیا تقویٰ اختیار نہیں کرتے ہو؟(إِذْ قَالَ لَہُمْ اٴَخُوھُمْ صَالِحٌ اٴَلاَتَتَّقُونَ )۔
وہ جو کہ تمہارے بھائی کی مانند تمہارا ہادی اور راہبر تھا اس کی نظر میں نہ برتری جتانا تھا اور نہ ہی مادی مفادات ، اسی لئے قرآن نے جناب صالح علیہ السلام کو ” اخوھم“سے تعبیر کیا ہے ۔ جناب صالح نے بھی دوسرے انبیاء کی مانند اپنی دعوت کا آغاز تقوی ٰ اور فرض کے احساس سے کیا۔
پھر اپنا تعارف کرواتے ہوئے فرماتے ہیں :” میں تمہارے لئے امین پیغمبر ہو ں“ ۔ میرا ماضی میرے اس دعوی ٰ کی بین دلیل ہے (إِنِّی لَکُمْ رَسُولٌ اٴَمِین)۔
”اسی لئے تم تقویٰ اختیار کرو، خدا سے ڈرو اور میری اطاعت کرو،کیونکہ میرے مد نظر رضائے الہٰی ، تمہاری خیر وخوبی اور سعادت کے سوا اور کچھ نہیں (فَاتَّقُوا اللهَ وَاٴَطِیعُونِی)۔
بنابریں” اس دعوت کے بدلے میں تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا اور نہ ہی تمہاری مجھے کسی چیز کی طمع ہے (وَمَا اٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اٴَجْرٍ )۔
میں تو کسی اور کے لئے کام کرتا ہوں او رمیرا اجر بھی اسی کے پاس ہے ،۔” ہاں تو میرا اجر صرف عالمین کے پر وردگار کے پاس ہے “ ( إِنْ اٴَجْرِی إِلاَّ عَلَی رَبِّ الْعَالَمِینَ)۔
یہ جناب صالح اور ان کی داستان کی ابتدائی حصہ تھا جو دوجملوں میں بیان کیا گیا ہے ۔ ایک دعوت کا پیش کرنا اوردوسرے رسالت کوبیان کرنا ۔
پھر دوسرے حصے میں افراد ِ قوم کی زندگی کے قابل تنقید اور حساس پہلووٴں کی نشاندہی کرتے ہوئے انھیں ضمیر کی عدالت کے کٹہرے میں لاکھڑا کرتے ہیں ، فرماتے ہیں :۔ آیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہمیشہ امن و سکون اور ناز و نعمت کی زندگی بسر کرتے رہو گے ( اٴَتُتْرَکُونَ فِی مَا ھَاھُنَا آمِنِین)۔
کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہاری یہ مادی اور غفلت کی زندگی ہے اور موت ، انتقام اور سزا کا ہاتھ تمہارے گریبانوں تک نہیں پہنچے گا؟
پھر اجمال سے تفصیل کے طریقہ ٴ کار کو کام میں لاتے ہوئے اپنے گزشتہ سر بستہ جملے کی یوں تشریح کرتے ہیں : تم گمان کرتے ہو کہ ان باغات اور چشموں میں ( فِی جَنَّاتٍ وَعُیُون)۔
ان کھیتوں اور کھجور کے درختوں میں کہ جن کے پھل شیریں شادات اور پکے ہوئے ہیں ، ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہو گے ( وَزُرُوعٍ وَنَخْلٍ طَلْعُھَا ھَضِیمٌ) ۔
پھر ان کے پختہ اور خوشحال گھروں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہتے ہیں :۔
تم پہاڑوں کو تراش کر گھر بناتے ہو اور اس میں عیاشی کرتے ہو( وَتَنْحِتُونَ مِنْ الْجِبَالِ بُیُوتًا فَارِہِینَ)۔
”فارہ“،”فرہ“( بر وزن”فرح“) کے مادہ سے ہے جس کا معنی ہے ایسی خوشی جو جہالت او رہوس پرستی پرمبنی ہو اور کبھی کبھار کوئی کام کے ساتھ انجام دینے کے معنی میں بھی آتا ہے اگر چہ دونوں معنی مندرجہ بالا آیت کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں لیکن حضرت صالح کی طرف سے کی گئی ملامت اور سر زنش کو پیش نظر رکھتے ہوئے پہلا معنی زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے ۔
اگر ان تمام آیات کا قوم عاد کے بارے میں نازل ہونے والی گزشتہ آیات سے موازنہ کیا جائے تو معلوم ہ وگا کہ قوم ِ عاد میں خود خواہی ، مقام پر ستی اور خود نمائی جیسی برائیاں تھیں ، جبکہ قوم ثمود شکم کی اسیر اور نازو نعمت بھری خوشحال زندگی سے بہرہ مند تھی لیکن دونوں قومیں ایک ہی منحوس انجام کو پہنچیں ، کیونکہ انھوں نے انبیاء کی دعوت کو ٹھکرا دیا تھا اور خود پرستی کی پستی سے نکل کر خدا پرستی کی معراج کو اختیار نہیں کیا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اپنے کیفر کر دار کی پہنچ گئیں ۔
حضرت صالح علیہ السلام اس تنقید کے بعد انھیں متنبہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :۔ حکم خدا کی مخالفت سے ڈرو اور میری اطاعت کرو (فَاتَّقُوا اللهَ وَاٴَطِیعُونِ)۔
اور مسرفین کا حکم نہ مانو(وَلاَتُطِیعُوا اٴَمْرَ الْمُسْرِفِین)۔
وہی جو زمین میں فساد بر پا کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے( الَّذِینَ یُفْسِدُونَ فِی الْاٴَرْضِ وَلاَیُصْلِحُونَ )۔
اسراف اور فساد فی کا باہمی رابطہ:۔
ہم جانتے ہیں کہ اسراف قانون ِ آفرینش اور قانون تشریع کی حدود سے تجاوز کا نام ہے اور یہ بھی اچھی طرح معلوم ہو کہ کسی صحیح نظام میں حد سے کسی قسم کا تجاوز فساد اور انتشارکا موجب بن جاتا ہے ۔ بالفاظ دیگر اسراف فساد کا سر چشمہ ہے اور اسراف کا نتیجہ فساد ہوتا ہے ۔
البتہ اس بات کی طرف بھی توجہ رہے کہ اسراف کا ایک وسیع مفہوم اور معنی ہے کبھی تو کھانے پینے جیسے زندگی کے سادہ اور عمومی مسائل میں اسراف ہوتا ہے ( جیسا کہ سورہ ٴ اعراف کی آیت ۳۱ میں آیا ہے )۔
کبھی حد سے زیادہ قصاص اور انتقام لینے کے سلسلے میں ہوتا ہے ( جیسے سورہٴ بنی اسرائیل کی آیت ۳۳ میں آیاہے )۔
کبھی حد سے زیادہ خرچ کرنے کے سلسلے میں ہوتا ہے (جیسا کہ سورہ فرقان کی آیت ۶۷ میں آیا ہے )۔
کبھی ایسا فیصلہ کرنے کے مفہوم میں یہ لفظ استعمال ہوتاہے جو جھوٹ اور کذب پر مبنی ہوتا ہے ( جیسا کہ سورہ ٴ مومن کی آیت ۲۸ میں ”مسر ف اور کذب“ ساتھ ساتھ ذکر ہوئے ہیں )۔
کبھی یہ اعتقادات میں ہوتا ہے کہ جو شک و شبہ تک جا پہنچتا ہے ( جیسا کہ سورہ مومن کی آیت ۳۴میں مسرف او رمرتاب اکھٹے آتے ہیں ) کبھی دوسروں پر بر تری حاصل کرنے ، استکبار اور استشمار کے معنی میں آتا ہے (جیسا کہ سورہ ٴ دخان کی آیت ۳۱ میں فرعون کے بارے میں ہے :۔
انہ کان عالیا من المسرفین
وہ بر تری کا خواہاں اور مسرف تھا ۔
اور کبھی ہر قسم کے گناہ کے معنی میں بھی آتا ہے ( جیسا کہ سورہ ٴزمر کی آیت ۵۳ میں ہے ):
قل عبادی الذین اسرفوا علی انفسھم لاتقنطوامن رحمة اللہ ان اللہ یغفر الذنوب جمیعاً
کہہ دیجئے کہ اے میرے بندو! جنھوں نے اپنے آپ پر اسراف کیا ہے خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہونا کیونکہ خدا وند عالم تمام گناہوں کو بخش دے گا ۔
مندرجہ بالا تصریحات کی روشنی میں اسراف اور فساد کا باہمی رابطہ بخوبی روشن ہو جاتا ہے ۔
تفسیر” المیزان“ میں ”علامہ طباطبائی“ کے فرمان کے مطابق یہ کائنات نظم اور صلاح کا ایک مجموعہ ہے حتی کہ اگر کبھی کبھار ان کے اجزاء کوئی تضاد بھی دیکھنے میں آیا ہے تو اس میں بھی بڑی حد تک ملاپ اور ہم آہنگی ہوتی ہے ۔ کائنات کا یہ نظام اہداف صالحہ کی طرف رواں دواں ہے اور اس کے ہر ایک جز کے لئے ایک مقررہ راستہ ہے جس پر وہ گامزل ہے ۔ اب اگر ان میں سے کوئی جز اپنے مدارسے ہٹ جائے اور فساد کے راستے پر چل نکلے تو اس کے اور کائنات کے دوسرے اجزاء کے درمیان تصادم شروع ہو جاتا ہے اگر تو دوسرے اجزاء اسے اس کی اپنی راہ پر واپس لانے میں کامیاب ہو جائیں تو بہتر و گر نہ اسے نابود کردیتے ہیں تاکہ یہ نظام اپنے سفر کو صحیح میں جاری رکھ سکے۔
انسان بھی اس عالم ِ ہستی کا ایک جز ہے اور ا س عمومی قانون سے مستثنیٰ نہیں ہے اگر فطری بنیادوں پر اپنے مدارپر حرکت کرتا رہے او رنظام ہستی سے ہم آہنگ رہے تو اپنے مقدر شدہ سعادت کے ہدف تک پہنچ جاتا ہے لیکن اگر اپنی حد سے تجاوز کر جائے اور ”فساد فی الارض“کی راہ پر گامزن ہو جائے تو پہلے خدا وند عالم اسے متنبہ کرتاہے اور سخت اور دردناک حوادث کے ذریعے اسے متنبہ کرتا ہے ۔چنانچہ سورہ روم کی آیت ۴۱ میں ہے :۔
ظھر الفساد فی البر و البحر بما کسبت ایدی الناس لیذیقھم بعض الذین عملوا لعلھم یرجعون
لوگوں کے اعمال کی وجہ سے جنگلوں اور سمندوں میں فساد طاہر ہ وگیا ، خدا چاہتا ہے کہ لوگوں کے کچھ برے اعمال کی وجہ سے ان کا نتیجہ انھیں چکھائے وشاید کہ وہ پلٹ آئیں۔
لیکن اگریہ تنبیہ بھی کار گر ثابت نہ ہو اور فساد ان کے رگ و ریشہ میں جاگزیں ہ وجائے تو خدا وند عالم”عذاب استیصالی“کے ذریعے زمین کو ان کے وجود سے پاک کر دیتا ہے ۔( المیزان جلد ۱۵ صفحہ۳۳۳)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خداوند عالم نے کس لئے ”اسراف“ کو”فسادفی الارض“ اور عدم اصلاح کے ساتھ ساتھ ذکر کیا ہے ۔
سوره شعراء / آیه 141 - 152سوره شعراء / آیه 153 - 159
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma