طرح طرح کی تہمتیں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 15
سوره فرقان / آیه 3 - 6سوره فرقان / آیه 7 - 10
یہ آیات در حقیقت گزشتہ آیات میں ہونے والی گفتگو کا تتمہ ہیں جس میں وہ شرک اور بت پرستی کے خلاف دلائل پیش کئے گئے ہیں ۔ اس ی طرح بتوں کے بارے میں بت پرستوں کے بے بنیاد دعووں  اور قرآن مجید اور رسولِ پاک کی ذات پر جو تہمتیں لگائی ہیں ان سب کی قلعی کھولی گئی ہے ۔
پہلی آیت در حقیقت مشرکین پر فرد ِجرم عاید کررہی ہے اور ان کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لئے واضح،آسان اور قاطع دلائل کے ساتھ ان سے مخاطب ہے ۔ ان لوگوں نے اس خدا کے علاوہ جس کے اوصاف ابھی بیان ہو چکے ہیں ، دوسروں کوخدا بناللیا ہے وہ تو قطعاًکسی چیز کے خالق نہیں بلکہ خود مخلوق ہیں ( وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِہِ آلِھَةً لاَیَخْلُقُونَ شَیْئًا وَھُمْ یُخْلَقُونَ )۔
معبود حقیقی عالم ہستی کا خالق ہے جبکہ بت پرستوں کا اپنے خدا وٴں کے بارے میں اعتراف ہے کہ وہ کسی چیز کے خالق نہیں بلکہ وہ انھیں خدا کی مخلوق سمجھتے ہیں ۔
جب صورت حال ایسی ہو تو پھر کس بناء پر وہ بت پرستی کرتے ہیں ۔ وہ بت جو اپنے نفع و نقصان ، موت و حیات اور قیامت کے دن جی اٹھنے تک کے مالک نہیں ، وہ دوسروں کو کیا دیں گے(وَلاَیَمْلِکُونَ لِاٴَنفُسِھمْ ضَرًّا وَلاَنَفْعًا وَلاَیَمْلِکُونَ مَوْتًا وَلاَحَیَاةً وَلاَنُشُورًا)۔
جو اصول کسی انسان کے لئے زبر دست اہمیت کے حامل ہیں ، یہی پانچ امور تو ہیں ۔ نفع، نقصان ، موت، زندگی ، اور دوبارہ جی اٹھنا ۔
سچی بات یہ ہے کہ جو ہماری ان پانچ چیزوں کا مالک ہے وہی ہماری عبادت کے لائق ہے تو آیات یہ بت کسی بھی صورت میں خود اپنے ان پانچ امور کے مالک ہیں ؟ چہ جائیکہ اپنے عبادت گزاروں کے ان امور کے مالک بنیں ؟یعنی جب یہ اپنے امور کے مالک نہیں ہیں وہ اپنے بوجھنے والوں کے کس طر ح مالک بن سکتے ہیں ؟
یہ کیسی رذیلانہ حرکت ہے کہ انسان ایسی چیزوں کے پیچھے بھاگتا پھرے اور ان کے سنگ آستاں پر جبہ سائی کرے جو خود اپنے لئے کچھ نیہں رکھتیں چہ جائیکہ دوسروں کے لئے ان کے پاس کچھ ہو؟
یہ بت تو دنیا میں اپنے پوجھنے والوں کی کسی مشکل کو حل نہیں کرسکتے قیامت کے دن کسی کی مشکل کیا حل کریں کریں گے ؟
اس تعبیر سے ظاہر ہو تا ہے کہ مشرکین کا یہ گروہ جو ان آیات میں مخاطب ہے کسی حد تک معاد( روحانی نہ کہ جسمانی ) کا قائل ضرور تھا یا پھر یہ بات ہے کہ باوجود ان کے قیامت پر ایمان نہ ہونے کے قرآن مجید نے اس بات کو مسلم بنا کر ذکر کیا ہے اور دو ٹوک الفاظ میں ان کے ساتھ مخاطب ہے ، عموماًطریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ جب کبھی انسان کو کسی چیز کے منکر سے گفتگو کرنی پڑتی ہے تو وہ اس کے افکار کی پر واہ کئے بغیر اپنے مدعا کو دو ٹوک الفاظ میں بیان کردیتا ہے ۔
پھر اس آیت میں تو ضمنی طور پر معاد پر ایک دلیل بھی بیان کی گئی ہے کیونکہ جب خالق کسی مخلوق کو پیدا کرتا ہے اور اس کے سود وزیاں اور موت و حیات کا مالک ہوتا ہے تو اس تخلیق کا مقصد بھی اس کے پیش نظر ہوتا ہے اور جب تک قیامت تسلیم نہ کیا جائے تو یہ مقصد فوت ہو جاتا ہے کیونکہ اگر انسان کی موت کے ساتھ ہی سب کچھ ختم ہو جائے تو یہ زندگی بے فائدہ او ر بے مقصد ہو گی اور اس بات کی دلیل ہو گی انسان کا خالق صاحبِ حکمت نہیں ہے ۔
آیت میں لفظ”ضرر“ ”نفع“ سے پہلے اس لئے ہے کہ انسان سب سے پہلے ضرر ہی سے خوف کھا تا ہے اورعقلائے عالم کا فیصلہ ہے کہ ” ضرر کا دور کرنا نفع کے حصول سے بہتر ہے “۔
نیز اگر ”ضرر“،” نفع“،”موت“،”حیات“اور”نشور“ کے الفاظ نکرہ کی صورت میں ذکر ہو ئے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بت تو ایک مرتبہ بھی یہ کام نہیں کرسکتے تمام دنیا کے بارے میں وہ کیا کریں گے ؟
اور اگر ” لایملکون“ اور”لایخلقون“ کو ذوی العقول کے لئے استعمال ہونے والے جمع مذکر کے صیغوں میں ذکر کیا گیا ہے ( جبکہ لکڑی اور پتھر کے بت تو ذرہ بھر بھی عقل و شعور نہیں رکھتے )تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس گفتگو سے مراد صرف لکڑی اور پتھر کے بت ہی نہیں بلکہ کچھ لوگ ایسی بھی ہیں جو فرشتوں یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پرستش کرتے ہیں اور چونکہ اس جملے کے معنی میں عاقل اور غیر عاقل اکھٹے ذکر ہوئے ہیں لہٰذا سب کو عاقل کی صورت میں بیان کیا ہے ۔ ادبی اصطلاح میں اسے ”تغلیب“ کا نام دیا جاتا ہے ۔
یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مد مقابل کے عقیدے کے مطابق بات جارہی ہو اور اس طرح سے ان بتوں کی عاجزی اور ناتوانی کو اجاگر کیا جانا مقصود ہو کہ جن چیزوں کو تم صاحب ِ عقل و شعور سمجھتے ہو وہ اپنے سے ضرر کو دور کیوں نہیں کرسکتیں اور منفعت کو کیوں حاصل نہیں کرسکتیں ۔
بعد والی آیت میں کفار کے تجزیہ و تحلیل یا بہتر الفاظ میں پیغمبر اسلام کی دعوت اسلام کے جواب میں ان کے حیلے بہانوں کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے : کافروں نے کہا یہ تو صرف ان کا خود ساختہ جھوٹ ہے اور کچھ لوگوں نے اس بارے میں اس کی مدد کی ہے ( وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا إِنْ ھَذَا إِلاَّ إِفْکٌ افْتَرَاہُ وَاٴَعَانَہُ عَلَیْہِ قَوْمٌ آخَرُونَ)۔
در حقیقت انھوں نے اطاعت حق سے جاچھڑانے کے لئے ان کی مخالفت کرتے تھے ۔پہلے تو انھوں نے آنحضرت پر جھوٹ کی تہمت لگائی اور خاص کر قرآن مجید کی توہیں کے لئے ”ھٰذا“ یعنی ”یہ “ کا کلمہ استعمال کیا ۔
پھر اپنے اس دعوے کو سچا ثابت کرنے کے لئے کہ وہ تنہا ایسا کام نہیں کرسکتے کیونکہ مطالب سے بھر پور الفاظ کے لئے ایک زبر دست علمی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ اس پر آمادہ نہیں تھے کہ اس بات کا کھلم کھلا اعتراف کریں کہ یہ ایک باقاعدہ اساسی پروگرام ہے لہٰذا کہنے لگے کہ : وہ تنہا ایسا کام نہیں کرسکتا بلکہ کچھ لوگوں نے اس سلسلے میں اس کی مدد کی ہے اور ایک با قاعدہ سوچی سمجھی سازش ہے جس کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئیے ۔
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ ”قوم اٰخرون “ (دوسری قوم سے )ان کی مراد یہودیوں کا ایک گروہ تھا ۔ بعض کہتے ہیں کہ مراد اہل کتاب کے تین افراد تھے جن کا نام ”عداس“،”یسار“،اور” حبر “تھا(یا”جبر“)ہے ۔
بہر صورت چونکہ مشرکین مکہ اس قسم کی باتوں سے نا آشنا تھے اور انبیاء ماسلف کی کچھ تاریخی داستانیں اور اس قسم کے کئی دوسرے قصے تھے یہود اور اہل کتاب کے پاس موجود تھے ۔ لہٰذا اس بہتان تراشی میں انہوں نے زبر دستی اہل کتاب کو بھی ملوث کردیا تاکہ اس طرح سے وہ لوگوں کہ اس تاثر کو ختم کر سکیں جو وہ قرآنی آیات سننے سے لیتے تھے ۔
لیکن قرآن مجید نے ان اتہامات کا جواب صرف ایک ہی جملے میں دے دیا ہے اور وہ یہ ہے :یہ کہہ کر وہ ( کافر ) ظلم اوربہت بڑے جھوٹ کے مرتکب ہوئے ہیں ( فَقَدْ جَائُوا ظُلْمًا وَزُورًا)(1) ۔
”ظلم“اس لحاظ سے کہ انہوں نے ایک امین ،پاکیزہ ،مقدس اور حق و صداقت کے پتلے پر تہمت لگائی ہے ( پیغمبر اسلام پر)کہ وہ ( نعوذ باللہ )اہل کتاب کے ایک ٹولے کی مدد سے خدا پر افراء پر دازی اور جھوٹ کے مرتکب ہوتے ہیں اس طرح کا الزام لگا کر انھوں نے لوگوں پر بھی ظلم کیا اور اپنے اوپر بھی ۔”زور“یعنی جھوٹ اور باطل اس بناء پر کہ ان کی باتیں بالکل بے بنیاد تھیں کیونکہ پیغمبر اسلام نے انھیں ایک نہیں کئی بار چیلینج کیا تھا کہ اگر وہ اپنے دعووں میں سچے ہیں تو اس قرآن جیسی کوئی کتاب یا اس کی سورتوں اور آیات جیسی کچھ سورتیں یا آیتیں لے آئیں لیکن وہ ایسا کرنے سے عاجز آگئے تھے اور کچھ بھی پیش نہ کر سکے تھے ۔
اس طرح سے واضح ہو گیا کہ یہ آیات کسی انسانی فکر کی اختراع نہیں بلکہ رب العالمین کا کلام ہیں کیونکہ اگر یہ انسان کا کلام ہوتا تو وہ بھی یہودیوں اور اہل کتاب کی مدد سے اس طرح کی کتاب تیار کرلاتے ۔بنابر ین ان کا عجز ان کے جھوٹ کی اور ان کا جھوٹ ا ن کے ظلم کی دلیل ہے ۔
لہٰذا”فقد جاء وا ظلماً وزوراً“ ایک ایسا جامع اور مانع جواب ہے جو ان کے دعووں کو باطل کردیتا ہے ۔
”زور“(بر وزن ”کور“)اصل میں ”زَور“ بر وزن”غور“)سینے کے بالائی حصہ کے معنیٰ سے لیا گیا ہے پھر اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہونے لگا جو حد اعتدال سے ہٹی ہوئی ہوتی ہے ۔ چونکہ جھوٹ حق سے ہٹ کر باطل کی طرف گیا ہوتا ہے لہٰذا اسے بھی ”زور“کہتے ہیں ۔
بعد والی آیت میں قرآن کے بارے میں کفار و مشرکین کی ایک اور رائے اور بے ہودہ بہانے کو بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے :
انھوں نے کہا یہ تو وہی گزشتہ لوگوں کے افسانے ہیں جسے اس نے قلمبند کیا ہے ( وَقَالُوا اٴَسَاطِیرُ الْاٴَوَّلِینَ اکْتَتَبھَا)۔
وہ کہتے ہیں پیغمبر کے پاس اپنی طرف سے کچھ نہیں ہے خواہ وہ علم ہو یا دانش ، ایجاد ہو یا اختراع ، تو پھر وحی اور نبوت اس کے پاس کہا ں سے آگئے ۔ اس نے تو کچھ لوگوں کی مدد سے چند قصے کہانیوں کو اکٹھا کرکے اس کانام وحی یا آسمانی کتاب رکھ دیا ہے ۔
وہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہر روز دوسرے لوگوں سے مدد حاصل کرتا ہے اور یہ کلمات صبح و شام اسے لکھوائے جاتے ہیں ( فَھِیَ تُمْلَی عَلَیْہِ بُکْرَةً وَاٴَصِیلًا )۔
یعنی وہ ہر صبح و شام جبکہ لوگ بہت کم اپنے گھروں سے باہر نکلتے ہیں اپنے مقصد کو پانے کے لئے لوگوں سے مدد حاصل کرتا ہے ۔
اس قسم کے کلمات در حقیقت گزشتہ آیت میں ان کے بیان شدہ اتہامات کی توحیض اور تشریح ہیں ۔
اس طرح سے انہوں نے چند مختصر سے جملوں میں کچھ خامیاں اور کمزوریاں قرآن مجید کے سر منڈھ دی ہیں :
۱۔ قرآن میں کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ صرف گذشتہ لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں ۔
۲۔پیغمبر اسلام ایک دن بھی دوسرے لوگوں کی مدد کے بغیر اپنا کام انجام نہیں دے سکتے ،بلکہ صبح و شام کچھ باتیں انھیں لکھوادی جاتی ہیں ۔
۳۔ وہ لکھنا پڑھنا جانتے ہیں لہٰذا اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ میں نے کسی سے سبق نہیں پڑھا تو خلاف حقیقت کہتے ہیں ۔
در حقیقت وہ اس قسم کی دروغ گوئی اور ظاہری اتہامات کے ذریعہ لوگوں کو رسول اللہ کے پاس سے ہٹا نا چاہتے تھے جبکہ تمام صاحبان عقل اور اس ماحول کے رہنے والوں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ آپ نے کسی کے سامنے زانو ئے تلمذ تہ نہیں کیا تھا پھر یہ آپ کو نہ تو یہود سے کوئی سرو کار تھا اور نہ کسی اور اہل کتاب سے ، اگر واقعاً آپ صبح و شام کسی سے کچھ حاصل کرتے تو کیونکر ممکن تھا کہ کسی پر یہ بات مخفی رہتی ؟ان سب باتوں سے ہٹ کر قرآنی آیات تو سفر و حضر اور مجمع عام اور تنہائی میں آپ پر نازل ہوتی تھیں۔
ان سب سے قطع نظر قرآن مجید صرف انبیاء ماسلف کی داستانوں پر ہی مشتمل نہیں بلکہ اس میں اعتقادی تعلیمات ، عملی احکام قوانین الہٰی اور کچھ انبیاء عظام کی سر گزشت بھی موجود ہے اور پھر گزشتہ اقوام کی جو داستانیں قرآن مجید میں موجود ہیں وہ عھدین ( تحریف شدہ تورات اور انجیل)اور عربوں کے افسانوں سے بالکل مختلف ہیں ۔ کیونکہ وہ تو خرافات اور فضول باتوں سے بھر پور تھے جبکہ قرآن مجید ان تمام خرافات سے بالکل پاک و پاکیزہ ہے ۔ اس کا بہترین ثبوت یہ ہے کہ اگر دونوں کا باہمی موازہ اور تقابل کیا جائے تو حقیقت امر بخوبی واضح ہو جائے گی(2) ۔
اسی بناء پر اس سلسلے کی آخری آیت میں ان بے بنیاد الزامات کا جوا ب دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے :کہہ دیجئے اسے تو اس نے نازل کیا ہے جو آسمانوں اور زمین کے اسرار و رموز سے اچھی طرح واقف ہے (قُلْ اٴَنزَلَہُ الَّذِی یَعْلَمُ السِّرَّ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ)۔
آیت کا یہ حصہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس کتاب ِ الٰہی کے مضامین اور مختلف اسرار و رموز جن میں علم و دانش بھی ہے اور گزشتہ قوموں کی تاریخ بھی، انسانی ضروریات کی راہنمائی اور قوانین حتیٰ کہ عالم فطرت کے اسرار و رموز اور آئندہ کی خبریں بھی ، یہ سب کچھ اس بات کی دلیل ہے کہ نہ تو یہ انسانی ذہن کی اختراع ہے اور نہ ہی کسی ایرے غیرے کے تعاون سے اسے مرتب کیا گیا ہے بلکہ یہ تو اس ذات کے علم کا نتیجہ ہے جس کے پاس آسمان و زمین کے اسرار موجود ہیں اور جس کا علم ہر چیز پر حاوی ہے ۔
ان کج اندیش مطلب کے بندوں اور جھوٹے دغابازوں کی تمام خیانتوں اور الزام تراشیوں کے باوجود اللہ نے ان کے لئے توبہ کی راہ کھلی رکھی ہے ۔ چنانچہ اسی آیت کے آخر میں فرمایا ہے کہ توبہ اور بازگشت کی راہیں ان سب پر کھلی ہوئی ہیں کیونکہ خدا ہر دور میں غفور و رحیم ہے ( إِنَّہُ کَانَ غَفُورًا رَحِیمًا)۔
اس کی اپنی رحمت کی وجہ سے انبیاء عظام علیھم السلام کو مبعوث کیا اور آسمانی کتابوں کونازل فرمایا ہے اور اپنے غفور ہونے کی بناء پر انسان کے ایمان اور توبہ کے پَر تو میں اس کے بے شمار گناہوں کو معاف فرماتا ہے ۔
1۔”جاء وا“ ” مجئی“ مادہ سے ہے جوعام طور پر ”آنے“ کے معنی میں ہوتا ہے لیکن یہاں پر ”لانے “ کے معنی میں ہے جیسا کہ سورہ یونس کی آیت ۸۱ میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے جادوگروں سے فرمایا:ماجئتم بہ السحر جو کچھ تم لائے ہو وہ جادو ہے ۔
2۔بعض مفسرین کا نظر یہ ہے کہ ” اکتبتھا“سے مراد یہ ہے کہ رسول اللہ نے دوسرے لوگوں کو فرمایا کہ وہ یہ آیات آپ کو لکھوادیں اور اسی طرح ”تملیٰ علیہ“ کا مفہوم یہ ہے کہ وہ لوگ آپ کے سامنے پڑھتے اور آپ یاد کرلیتے لیکن ہمارے پاس کوئی ایسی دلیل نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے ہم ان دونوں جملوں کی ظاہر کے خلاف تفسیر کریں لہٰذا جو تفسیر اوپر متن میں بیان کی گئی ہے زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے ۔ در حقیقت وہ یہ چاہتے تھے کہ آنحضرت کو اس طرح سے متہم کرسکیں کہ وہ تو پڑھے لکھے ہیں اور جان بوجھ کر اپنے آپ کو ان پڑھ بتاتے ہیں ۔
سوره فرقان / آیه 3 - 6سوره فرقان / آیه 7 - 10
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma