میں ایسے خدا کی عبادت کرتا ہوں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 15
سوره شعراء / آیه 69 - 82سوره شعراء / آیه 83 - 87
جیسا کہ ہم سورت کی ابتداء میں بتا چکے ہیں کہ خدا وند عالم نے اس سورة میں سات عظیم الشان پیغمبروں کے تفصیلی حالات اور گمراہ لوگوں کی ہدایت کے لئے ان کی معرکة آرائی کا تذکرہ فرمایا ہے تاکہ اس طرح سے ایک تو پیغمبر اسلام اور اس دور کے معدود چند مومنین کے لئے تسلی خاطر ہو، نیز حق کے تمام دشمنوں اور مستکبرین کے لیء تنبیہ کا کام دے ۔
لہٰذا موسیٰ علیہ اسلام اور فرعون کی عبرت آموز داستان کے فوراً بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہدایت بخش سر گزشت اور مشرکین سے ان کی محاذ آرائی کے واقعا کو بیان کرتا ہے اور داستان آ غاز ابراہیم کی اپنے چچا اور گمراہ قوم سے گفتگو کے ساتھ کرتا ہے(1) ۔
سب سے پہلے فرمایا گیا ہے : ان کے سامنے ابراہیم کی خبر پرھو( وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاٴَ إِبْرَاہِیمَ )۔
اس عظیم الشان پیغمبر سے متعلق تمام واقعات میں سے اس حصے کو زور دے کر بیان کیا گیا ہے : جبکہ انھوں نے اپنے باپ ( جیسے چچا) اور اپنی قوم سے کہا: تم کس چیز کی پرستش کرتے :( إِذْ قَالَ لِاٴَبِیہِ وَقَوْمِہِ مَا تَعْبُدُون)۔
یقینا ابراہیم علیہ السلام جانتے تھے کہ وہ کس چیز کی پوجا پات کرتے ہیں لیکن اس سوال سے ان کا مقصد یہ تھا کہ وہ کوئی بات کریں اور اپنے منہ سے اعتراف کریں اور ساتھ ہی”ما“ ( کیا چیز؟) کی تعبیر ایک طرح کی حقارت کا اظہار بھی ہے ۔
جنانچہ ابراہیم علیہ السلام کے سوال کے جواب میں وہ فوراً بولے : ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں اور سارا دن ان پر توجہ رکھتے ہیں اور نہایت ہی ادب اور احترام کے ساتھ ان کی عبادت میں لگے رہتے ہیں (قَالُوا نَعْبُدُ اٴَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَہَا عَاکِفِینَ)۔
اس تعبیر سے ظاہر ہو تا ہے کہ وہ نہ فقط اپنے اس عمل پر شرمندہ نہیں تھے بلکہ اس پر فخر بھی کیا کرتے تھے کیونکہ ” نعبد اصناماً“ ( ہم بتوں کی عبادت اور پرستش کرتے ہیں )کا جملہ اس کے مقصود اور مدعا کے بیان کے لئے کافی تھا ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہ ” فَنَظَلُّ لَہَا عَاکِفِین “ ( ہم سارا سارا دن ان کے آستان پر جبہ سائی کرتے رہتے ہیں )۔
”لفظ ”ظل“ عموماً ایسے کاموں کے لئے بولا جاتا ہے جو دن کو انجام پاتے ہیں اور اسے مضارع کی صورت میں بیان کرنا اس کے استمرار اور دوام کی طرف اشارہ ہے ۔
”عاکف“ عکوف“ کے مادہ سے ہے جس کو معنی کسی چیز کی طرف توجہ کرنا اور اس کی ادب و احترام کے ساتھ معیت اختیار کرنا ہے اور یہاں پر گزشتہ معنیٰ کی تاکید مزید کے لئے ہے ۔
”اصنام“” صنم “ کی جمع ہے جس کا معنیٰ ہے مجمسمہ، جسے سونے یا چاندی یا لکڑی وغیرہ سے بناتے ہیں اور اس کی عبادت کرتے ہیں اور اسے مقدس مردوں اور مقدس عورتوں کامظہر جانتے ہیں ۔
بہر حال ابراہیم علیہ السلام نے ان کی یہ باتیں سن کر ان پر اعتراجات کی بوچھار کردی اور دو زبر دست منطقی اور معتدل جملوں کے ذریعہ انھیں ایسی جگہ لاکھڑا کیا جہاں نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کے مصداق ان سے کوئی جواب نہیں بن پڑتا تھا ۔
آپ علیہ اسلام نے ان سے فرمایا :” جب تم ان کو پکار تے ہوئے تو کیا وہ تمہاری فریاد سنتے بھی ہیں ؟“ ( قَالَ ھَلْ یَسْمَعُونَکُمْ إِذْ تَدْعُونَ )۔
”کیا وہ تمہیں نفع یا نقصان پہنچاسکتے ہیں “(اٴَوْ یَنْفَعُونَکُمْ اٴَوْ یَضُرُّونَ )۔
کم از جو چیز کسی معبود کے لئے ضروری ہے وہ یہی کہ اپنے عابد کی آواز سنے اور مصیبت میں اس کی مدد کو پہنچے یا کم از کم اس کے فرمان کی مخالفت کا خطرہ ہو لیکن ان بتوں میں ذرہ بھی بھی درک و شعور نہیں پایا جاتا اور نہ ہی انسان کی زندگی کے بارے میں وہ کچھ بھی موٴثر ذرائع ہو سکتے ہیں ۔ یہ بت تو بیکار سی دھاتیں ، پتھر یا لکڑی ہی ہیں جنھیں خرافات اور اوہام و خیالات نے اس حد تک پہنچا دیا ہے ۔
لیکن متعصب لوگ بجائے اس کے کہ اس منطقی سوال کا کوئی ٹھوس جواب دیتے وہی پرانا اور بار بار کا دہرایا ہوا جواب پیش کرتے ہیں :انھوں نے کہا ایسی کوئی بات نہیں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے بزرگوں کو ایسا کرتے دیکھا ہے ( قَالُوا بَلْ وَجَدْنَا آبَائَنَا کَذَلِکَ یَفْعَلُونَ)۔
ان کا یہ جواب اپنے جاہل اور ناداں بزرگوں کو اندھی تقلید کر بیان کر رہا ہے وہ جو جواب ابراہیم کو دے سکتے تھے یہی تھا اور بس ۔ یہ ایسا جواب ہے جس کے بطالان کی دلیل خود اسی میں موجود ہے اور کوئی بھی عقل مند انسان اپنے آپ کو اس بات کی اجازت نہیں سے سکتا کہ ہو آں کھیں بند کرکے دوسروں کے پیچھے لگ جائے خاص کر جبکہ آنے والے لوگوں کے تجربے گزشتہ لوگوں سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں اور ان کی اندھی تقلید کا تو کوئی جواز رہتا ہے اور نہ ہی کوئی دلیل ۔
”کذٰلک یفعلون “ ( وہ اس طرح کیا کرتے تھے ) کی تعبیر ان کی اندھی تقلید پر تاکید ِمزید ہے یعنی جو کچھ وہ کیا کرتے تھے ہم بھی کرتے ہیں ، خواہ وہ بتوں کی عبادت ہو یا کسی اور چیز کی ۔
اب جناب ابراہیم علیہ السلام اپنے تیز حملوں کا رخ بتوں کی طرف موڑدیتے ہیں اور ”فرماتے ہیں آیا تم نے ان چیزوں کا مشاہدہ بھی کیا ہے جن کی تم عبادت کرتے ہو“(قَالَ اٴَفَرَاٴَیْتُمْ مَا کُنْتُمْ تَعْبُدُونَ)۔
”تم بھی اور تمہارے گزشتہ آباو ٴ اجداد بھی “( اٴَنْتُمْ وَآبَاؤُکُمْ الْاٴَقْدَمُونَ)۔
”وہ سب کے سب میرے دشمن ہیں سوائے رب العالمین کے “ (فَإِنَّھُمْ عَدُوٌّ لِی إِلاَّ رَبَّ الْعَالَمِین)۔
جی ہاں !وہ سب میرے دشمن ہیں اور میں بھی ان سے صلح نہ کرنے والا ان کا دشمن ہوں ۔
یہ بات بھی قابل گور ہے کہ جناب ابراہیم علیہ اسلام فرماتے ہیں ”میرے دشمن ہیں “ ہر چند کہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ میں بھی ان کا دشمن ہوں لیکن ممکن ہے کہ ان کا یوں فرمانا اس لئے ہو کہ بتوں کی عبادت انسان کی بد بختی ، گمراہی اور دنیا و آخرت کے عذاب کا سبب بن جاتی ہے اور یہ چیز ان کی عداوت میں شمارہوتی ہے ۔
اس کے علاوہ قرآن مجید کی متعدد آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن بت اپنے عبادت گزاروں سے اظہارِ براٴت کریں گے اور ان کی دشمنی پر کمر بستہ ہو جائیں گے حکمِ خداندی کے مطابق وہ گویا ہو کر ان سے اظہار ِ نفرت کریں گے(2) ۔
”رب العالمین“کا استثناء ، باوجودیکہ وہ ان کے معبودوں میں شامل نہیں ( اصطلاح کے مطابق استثناء ئے منقطع ہے )،تو حید خالص کی تاکید کے لئے اور یہ اھتمال بھی ہے کہ ان مشرکین میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوں جو بتوں کے ساتھ ساتھ خداند عالم کی عبادت بھی کیاکرتے تھے اس لئے انھوں نے پر وردگار علم کا ستثناء کیا ہے ۔
”ھم“ کی ضمیر کا ذکر جو عام طور پر صاحبان ِ عقل کی جمع کے لئے استعمال ہوتی ہے بتوں کے لئے اس کا استعمال مندرجہ بالا موضوع کی مناسبت سے ہے ۔
پھر ابراہیم علیہ السلام پر وردگار علم کی صفات اور اس کی مادی اور روحانی نعمتوں کا ذکر فرماتے ہیں تاکہ ان بربتوں سے موازنہ کیا جا سکے جو نہ اپنے عبادت کرنے والوں کی آواز سنتے ہیں او رنہ ہی انھیں کوئی نفع یا نقصان پہنچاسکتے ہیں ۔
سب سے پہلے وہ آفرینش او رہدایت جیسی نعمتوں کا تذکرہ فرماتے ہوئے کہتے ہیں : خدا تو وہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہی مجھے ہدایت بھی کرتا ہے ( الَّذِی خَلَقَنِی فَھُوَ یَہْدِینِی)۔
اس نے عالم تکوین میں بھی مجھے ہدایت کی ہے اور اس زندگی میں بھی مادی اور روحانی وسائل میرے اختیار میں دے دیئے ہیں اور عالم ِ تشریع میں بھی ہدایت کی ہے اور وحی اور آسمانی کتابیں مجھ پر نازل کی ہیں ۔
تخلیق کے ذکر کے بعد کلمہ”فاء“ کا ذکر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہدایت ، خلقت سے جدا نہیں ہے بل کہ اس کے ساتھ ساتھ ہے اور ہر جگہ پیش قدم ہے ”یھدین“ جو فعل مضارع کی صورت میں ہے اس بات کی روشن دلیل ہے کہ ہدایت ہمیشہ اور مستمر ہے اور انسان کو ساری عمر اس کی ضرورت رہتی ہے ۔
گویا ابراہیم علیہ السلام یہ کہہ کر اس حقیقت بیان کرنا چاہتے ہیں کہ میں جب سے پیدا ہوا ہوں اسی کے ساتھ ہوں اور کسی بھی لمحے اس سے جدا نہیں ہوا ہوں اسی موجودگی کو اپنی زندگی میں محسوس کرتا ہوں میں نے اس کی محبت کا طوق اپنے گلے میں ڈالا ہوا ہے وہ جدھر چاہتا ہے مجھے لے جاتا ہے ۔
ربوبیت کے پہلے مرحلے یعنی تخلیق وہدایت کے بیان کے بعد مادی نعمتوں کا تذکرہ فرماتے ہوئے کہتے ہیں ”وہ وہی تو ہے جو مجھے کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی“( وَالَّذِی ہُوَ یُطْعِمُنِی وَیَسْقِینِی )۔
جی ہاں!میں اپنی ساری نعمتیں میرے شامل ِ حال ہیں بلکہ ”جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ مجھے شفاء عنایت فرماتا ہے “( وَإِذَا مَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِینِی)۔
باوجودیکہ بیماری بھی کبھی کبھی خدا کی طرف سے ہوتی ہے لیکن گفتگو میں آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسے بھی اپنی طرف نسبت دی ہے ۔
دنیاوی زندگی کے مراحل کے بعد قوم کو اور آگے بڑھاتے ہوئے جہان ِ آخرت کی حیاتِ جاوید کا تذکرہ فرماتے ہیں تاکہ معلوم ہو جائے کہ ہر جگہ میں اس کے خوان ِ نعمت سے پرورش پارہا ہوں نہ صرف دنیاوی زندگی میں بلکہ آخرت کے عالم میں بھی ۔
چنانچہ فرماتے ہیں : خدا ایسا ہے جو مجھے مارے گا بھی اور پھر دوبارہ زندہ بھی کرے گا ( وَالَّذِی یُمِیتُنِی ثُمَّ یُحْیِینِ )۔
جی ہاں !میری موت بھی اسی کی طرف سے ہے اور مرنے کے بعد پھر نئی زندگی بھی اسی کی جانب سے ہے ۔
اور جب میں عرصہٴ محشر میں قدم رکھوں گا تو میری چشم ِ امید پھر بھی اسی پر ہو گی کیونکہ ”وہ وہی تو ہے جس کے بارے میں مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن میرے گناہ معاف کر دے گا “( وَالَّذِی اٴَطْمَعُ اٴَنْ یَغْفِرَ لِی خَطِیئَتِی یَوْمَ الدِّین)۔
اس میں شک نہیں کہ انبیاء معصوم ہوتے ہیں اور ان کا کوئی گناہ ہی نہیں ہوتا کہ جس کے بخشے جانے کی ضرورت ہو لیکن جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ بعض اوقات ”حسنات الابرار سیئات المقربین“کے مصداق نیک لوگوں کی کئی اچھائیاں ، مقربین ِ بار گاہ کے لئے گناہ شمار کی جاتی ہیں اور کے مقام ِ عظمت کے پیش نظر ان کا ایک اچھا کام بھی قابل ِ مواخذہ ہوتا ہے کیونکہ اس اچھے کام نے اس سے بہتر کے انجام دینے سے روک دیا ہے اسی لئے ترکِ اولیٰ کا نام دیا جاتا ہے ۔
وہ کسی بھی صورت میں اپنے نیک اعمال پر بھروسہ نہیں کرتے کیونکہ یہ اعمال خدا کے لطف و کرم کے مقابلے میں بالکل ناچیز ہیں اور اس کی عطا کردہ نعمتوں کے سامنے ان کا کوئی شمار نہیں بلکہ ان کی ساری توقعات ذاتِ خدا کے ساتھ وابستہ ہوتی ہوتی ہیں اور یہی انقطاع الیٰ اللہ کا آخری مر حلہ ہوتا ہے ۔
قصہ ٴ مختصر جناب ابراہیم علیہ السلام نے معبود حقیقی کی شناخت کے لئے پہلے پر وردگار کی خالقیت کا تذکرہ فرمایا پھر اس کی ربوبیت کے تمام مراحل واضح کئے ۔
ربوبیت کا پہلا مرحلہ ہدایت ہے پھر ”مادی نعمتوں “ کا مرحلہ ہے خواہ وہ نعمتیں حالات کی ساز گاری کی صورت میں ہوں یا رکا وٹوں کے دور کرنے کی وجہ سے اور آخر میں ایک دوسرے جہان میں ”حیات ِ جاوید“ کا مرحلہ ہے ۔ وہاں پر بھی اس کی ربوبیت نعمتوں کی عطا اور گناہوں کی بخشش کی صورت میں جلوہ گرہوگی اس طرح سے خرافات کی پیدا وار ، متعدد خدا وٴں اور مختلف اربات کی خدائی پر خطِ تنسیخ کھنچ جاتا ہے اور صرف ایک اور حقیقی خدا کی بار گاہ میں سر تعظیم جھک جاتا ہے ۔
 1۔ ہم بار ہا کہہ چکے ہیں کہ لفظ”اب “ لغت ِ عرب اور قرآن مجید میں کبھی باپ پر اور کبھی چچا پر بو لا جاتا ہے اور یہاں پر دوسرا معنیٰ مراد ہے (مزید وضاحت کے لئے جلد پنجم اردو ترجمہ ص۲۴۸کی طرف رجوع فرمائیں )۔
2 ۔ مزید وضاحت کے لئے تفسیر نمونہ جلد۱۳، سورہ مریم آیت ۸۲۔
سوره شعراء / آیه 69 - 82سوره شعراء / آیه 83 - 87
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma