دعا کی اہمیّت

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 15
سوره فرقان / آیه 77دعا ، خود سازی اور خدا شناسی کا راستہ

یہ آیت سورہ فرقان کی آخری آیت ہے جودر حقیقت تمام سورت کا خلاصہ اور نتیجہ ہے ۔ساتھ ہی «عباد رحمن“ کی صفات کا خلاصہ بھی ہے پیغمبر اکرمکو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : ان سے کہہ دو کہ میرا پر وردگار تمہیں کوئی وزن اور اہمیت نہ دیتا اگر تم دعا نہیں کرتے (قُلْ مَا یَعْبَاٴُ بِکُمْ رَبِّی لَوْلاَدُعَاؤُکُمْ ) ۔
«یعبوٴا“ کا صیغہ «عباٴ“(بر وزن «عبد“) سے مشتق ہے جس کا معنی وزن اور بوجھ ہے بنابریں«لا یعبوٴا“ کا معنی بنے گا « کسی قسم کا وزن نہیں دیتا “جسے دوسرے لفظوں میں کہیں گے «پر واہ نہیں کرتا، اہمیت نہیں دیتا “۔ اگر چہ دعا کے معنیٰ کے سلسلے میں یہاں پر بہت سے احتمالات پائے جاتے ہیں لیکن ان کی بنیاد ایک ہی بنتی ہے ۔
بعض کہتے ہیں کہ دعا کا معنیٰ وہی مشہور دعا ہے جو مانگی جاتی ہے بعض نے اسے ایمان کے معنی میںلیا ہے اور بعض نے عبادت ،بعض نے توحید، بعض نے شکر اور بعض نے مشکلات میں خدا کو پکا رنے کے معنی میں لیا ہے لیکن ان سب کی بنیاد وہی خدا پر ایمان اور اس کی طرف توجہ ہے ۔
بنابریں آیت کامفہوم کچھ یوں ہوگا کہ جوچیز تمہیں وزن دے رہی ہے اور اللہ رب العزت کی بارگاہ میں تمہاری قدر و قیمت بنارہی ہے وہ خدا پر ایمان،اس کی ذات کی طرف توجہ اور ا س کی بندگی ہے ۔
اس کے بعد فرمایا گیا ہے :تم نے خدا کی آیات اور اس کے پیغمبروں کی تکذیب کی یہی تکذیب تمہارا دامن پکڑے گی اور تمہیں کبھی نہیں چھوڑے گی(فَقَدْ کَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ یَکُونُ لِزَامًا)۔
ممکن ہے یہ سوال کیا جائے کہ اس آیت کے آغاز اور اختتام میں تضاد پایا جاتا ہے یا کم از کم ابتداء اور انتہاء میں کوئی باہمی رابطہ دکھائی نہیں دیتا لیکن اگر ذرا سا بھی غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اصل مقصد یہ ہے کہ تم گزشتہ زمانے میں آیات الہٰی کی تکذیب کر چکے ہو اور انبیاء کو جھٹلا چکے ہو ۔اگر اب تم خد اکی طرف لوٹ کے نہیں آوٴگے اور ایمان اور بندگی کا راستہ اختیار نہیں کروگے تو خدا کے نزدیک تمہاری کوئی وقعت اور حیثیت نہیں ہوگی اور تمہارے جھٹلانے کی سزا تمہیں دامن گیر ہو گی(1) ۔

یہاں پر ایک تیسری تفسیر بھی بیان کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس بیان کا مقصد یہ ہے کہ تم بنی نوعِ انسان نے غالب طور پر تکذیب کا راستہ اختیار کررکھا ہے لہٰذا خدا کے نزدیک تمہاری کوئی قدر و قیمت نہیں ہے سوائے عباد الرحمن کی ایک مخصوص اقلیت کہ جو خدا کی طرف متوجہ ہیں اور اسے خلوص ِ دل سے پکارتے ہیں (اگر چہ یہ تفسیر معنی اور مطلب کے لحاظ سے توصحیح ہے لیکن آیت کے ظاہر کے ساتھ قطعاًہم آہنگ نہیں ہے کیونکہ « دعاوٴ کم و کذبتم“ میں ضمیر ظاہراً ایک گروہ کی طرف لوٹتی ہے نہ کہ دو گروہوں کی طرف ۔(غور کیجئے گا )۔
ان واضح شواہد میں سے ایک شاہد جو اس تفسیرکی تائید کررہا ہے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی ایک حدیث ہے کہ جب آنجناب علیہ اسلام سے سوال کیا گیا کہ :
کثرة القرائة فضل اوکثرة الدعائ
قرآن مجید کی کثرت سے تلاوت افضل ہے یا کثرت سے دعا مانگنا ؟
تو آپعلیہ اسلام نے ارشاد فرمایا :
کثرة الدعاء افضل
کثرت سے دعا مانگنا فضیلت زیادہ رکھتا ہے ۔
پھر آپعلیہ اسلام نے یہی آیت تلاوت فرمائی(2) ۔
1 مندرجہ بالا آیت ان آیات میں شمار ہو تی ہے جن کے بارے میں مفسرین نے بہت کچھ گفتگو کی ہے اور ہم نے جو تفسیر اوپر بیان کی ہے وہ واضح ترین تفسیر ہے لیکن کچھ دوسرے مشہور مفسرین نے اس کی اور بھی تفسیریں بیان کی ہیں جن کاخلاصہ کچھ اس طرح بنتا ہے :۔
خدا کو تمہاری کوئی پرواہ نہیں ہے کیونکہ تم نے اس کی آیات کو جھٹلا یا ہے مگر یہ کہ وہ انہیں ایمان کی طرف بلاتا ہے ( اس تفسیرکے مطابق مصدر کو مفعول کی طرف مضاف کیا گیا ہے اور اس کا فاعل ایک ضمیر ہے جو «ربی“ کی طرف لوٹ رہی ہے لیکن جس تفسیر کو ہم نے منتخب کیا ہے اس کے مطابق مصدر کو فاعل کی طرف مضاف کیا گیا ہے اور مصدر کو سہل کی ضمیر کی طرف بظاہر مضاف کیا جاتا ہے مگر یہ کہ اس کے خلاف کوئی قرینہ پایا جائے ۔
2 ۔«تفسیر صافی “اسی آیت کے ذیل میں ۔ اس روایت کو تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ دوسری تفسیروں نے بھی نقل کیا ہے اس کے علاوہ اور روایات بھی ملتی ہیں جن میں سے بعض کو شیخ نے امالی میں اور بعض کو علی بن ابراہیم نے اپنی تفسیر میں اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے ۔
سوره فرقان / آیه 77دعا ، خود سازی اور خدا شناسی کا راستہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma