بہت بڑے دعوے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 15
سوره فرقان / آیه 21 - 24اعمال صالح کی تباہی

ہم بتا چکے ہیں کہ توحید اور قیامت پر عقیدہ رکھنے کے نتیجے میں انسان پر جو فرائض عائد ہوتے ہیں اور اسے جو ذمہ داریاں نبھا نے پڑتی ہیں ان سے جان چھڑانے کے لئے ہٹ دھرم مشرکین نے پیغمبر ِخداکی ذات پرمختلف قسم کے اعتراضات شروع کردیتے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ پیغمبر ہماری طرح کھا تا پیتا کیوں ہے اورکیوں ہماری طرح بازار میں آتا جاتا ہے ؟ اس کا جواب ہم ابھی ابھی پڑھ چکے ہیں ۔
ان آیات میں ان مشرکین کے دو اور دو اعتراضات کا تذکرہ ہے اور ساتھ ہی ان کا جواب بھی پیش کیا گیا ہے ۔
پہلے تو فرمایا گیا ہے :جو لوگ ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے (اور قیامت کا انکارکرتے ہیں )کہتے ہیں کہ ہم پر فرشتے کیوں نہیں نازل ہوتے یا اپنے پروردگار کو ہم اپنی آنکھوں سے کیوں نہیں دیکھ پاتے (وَقَالَ الَّذِینَ لاَیَرْجُونَ لِقَائَنَا لَوْلاَاٴُنزِلَ عَلَیْنَا الْمَلَائِکَةُ اٴَوْ نَرَی رَبَّنَا )۔
بالفرض مان لیا کہ پیغمبر بھی ہماری طرح عمومی زندگی گزار سکتے ہیں لیکن یہ بات تو ماننے کے قابل نہیں ہے کہ وحی کا فرشتہ ان کے پاس آئے اور ہم نہ دیکھ پائیں اگر فرشتہ ظاہری طور پر ہمیں نظر آئے اور آپ کی نبوت کی تصدیق کرے یا وحی کا کچھ حصہ ہمارے سامنے بیان کرے تو اس میں کیا حرج ہے ؟
یا اگر ہم خدا کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں تو ہمارے شک و شبہ کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہے ۔ یہی باتیں بار بار سوال کی صورت میں ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں اور محمد کی دعوت کو قبول کرنے سے روکتی رہتی ہیں ۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ قرآن مجید ایسے معترضین کو ” لاَیَرْجُونَ لِقَائَنَا“کے عنوان سے موصوف کرتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان بے بنیاد باتوں کا سر چشمہ آخرت پر ایمان سے انکار اور خدا کی طرف سے عائد ہونے والی ذمہ داریوں سے فرار ہے ۔
سوہ حجر کی آیت ۷ میں بھی اسی سے ملتی جلتی گفتگو موجود ہے ، کفار کہتے ہیں :
لوما تاٴتینا بالملائکة ان کنت من الصادقین
اگر تو اپنے قول میں سچا ہے تو ہمارے پاس فرشتے کیوں نہیں لاتا تاکہ وہ آکر تیری تصدیق کریں ۔
اسی سورہ فرقان کے آغاز میں بھی ہم پڑھ چکے ہیں کہ مشرکین کہتے تھے :۔
لولا انزل الیہ ملک فیکون معلہ نذیراً
تیرے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نازل نہیں کیا گیا تاکہ وہ بھی لوگوں کو ڈراتا۔
جبکہ ایک حق طلب انسان کسی بات کے ثبوت کے لئے صرف دلیل ہی طلب کرتا ہے اس دلیل کی نوعیت خواہ کچھ بھی ہو ، جب اسلام کے عظیم الشان پیغمبر نے قرآن سمیت متعدد معجزات پیش کرکے اپنی دعوت کی حقانیت اورصداقت کو روز روشن کی طرح ثابت کردکھا یا تو پھر ان بے بنیاد باتوں اور حیلے بہانوں کا کیا معنیٰ؟
پھر یہ کہ وہ لوگ نبوت کی تحقیق اور ثبوت کے بارے میں ایسی باتیں نہیں کرتے تھے اس کی بہترین دلیل یہ ہے کہ انھوں نے خدا کو دیکھنے کا مطالبہ کرکے اسے ایک قابل رویت جسم کی حد تک گرادیا ۔ وہی بے بنیاد مطالبہ جو بنی اسرائیل کے مجرم لوگوں نے کیا تھا اور اس کا شافی جواب بھی سن لیا تھا اس کی تفصیل سورہ ٴ اعراف کی آیت ۱۴۳ میں گزر چکی ہے ۔
لہٰذا قرآن مجید ایسے مطالبات کا جواب زیر بحث آیت میں دے رہا ہے : انھوں نے اپنے بارے میں تکبر سے کام لیا ہے اور غرور، تکبر اور خود پسندی کا شکار ہو گئے ہیں (لَقَدْ اسْتَکْبَرُوا فِی اٴَنفُسِھِمْ)۔
انھوں نے طغیان اور سر کشی کی ، بہت بڑی سر کشی ( وَعَتَوْا عُتُوًّا کَبِیرًا)۔
”عتو“(”غلو“کے وزن پر ہے )جس کا معنی ٰ ہے اطاعت سے ایسی رو گردانی اور حکم کی خلاف ورزی کہ جس کے ساتھ دشمنی اور ہٹ دھر می بھی شامل ہو ۔
”فی انفسھم “کی تعبیر ممکن ہے اس معنی میں ہو کہ وہ خود اپنے بارے تکبر اور خود پسندی کا شکار ہیں یہ معنیٰ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ تکبر اور غرور کو تو اپنے دل میں چھپاتے ہیں ہیں اور اس قسم کے حیلے بہانوں کو آشکار کرتے ہیں ۔
ہمارے اس دور میں بھی کئی ایسے لوگ موجود ہیں جو اس زمانے کے مشرکین کی منطق کو دہرارہے ہیں کہ جب تک ہم خدا کو اپنی آنکھوں سے اور روح کے آپریشن کے ذریعے نہ دیکھ لیں اس وقت تک نہیں مانےں گے دونوں کے خیالات کا ایک ہی سر چشمہ ہے اور وہ ہے تکبر اور سر کشی ۔ -
اصولی طور پر جو لو گ شناخت کا معیار صرف حس اور تجربے ہی کو جانتے ہیں تقریباًایسی ہی باتیں کرتے رہتے ہیں ۔ تمام مادہ پرست افراد(Melerialists)اسی گروہ میں شامل ہیں ۔ حالانکہ ہماری حس تو اس کائنات کے مادے کے صرف تھوڑے سے حصے کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔
اس کے بعد قرآن دھمکی کی صورت میں فرماتا ہے کہ جو فرشتوں کے دیکھنے کا مطالبہ کررہے ہیں آکرکار انہیں دیکھ ہی لیں گے لیکن اس دن دیکھیں گے کہ جس دن مجرمین کے لئے خوشخبری نہیں ہوگی ( کیونکہ وہ دن ان کے اعمال کی سخت سزا کا دن ہوگا)(یَوْمَ یَرَوْنَ الْمَلَائِکَةَ لاَبُشْرَی یَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِین)(۱) ۔
یقینااس دن فرشتوں کو دیکھ کر وہ خوش تو نہیں ہو ں گے بلکہ جونہی وہ ان فرشتوں کے ہمراہ عذاب کی علامات دیکھیں گے تو اس قدر وحشت زدہ ہوجائیں گے کہ ایسے جملے زبان پر لائیں گے جو خطرناک مواقع پر لوگوں کو دیکھ کر کہا کرتے تھے چنانچہ وہ کہیں گے کہ ہمیں امامن دوہمیں معاف کردو( وَیَقُولُونَ حِجْرًا مَحْجُورًا)۔
اس میں شک نہیں ہے کہ انھیں اپنے حتمی برے انجام سے نہ تو یہ جملہ بچا سکے گا اور نہ ہی کوئی دوسرا جملہ کیونکہ جو آگ خود انہوں نے بھڑ کائی ہے وہ انھیں ہر صورت میں اپنی طرف کھینچ لے گی اور جن برائیوں کا وہ دنیا میں ارتکاب کرچکے ہیں وہ مجسم ہو کر ان کے سامنے آجائیں گی اور خود کردہ را علاجے نیست ۔
”حِجر“(بر وزن ”قشر“)اس علاقے کوکہا جاتا ہے جس کے ارد گرد پتھر چن دئے جائیں اور اس طرح سے اس کی حد بندی کردی جائے کہ اس حدود میں کوئی شخص داخل نہ ہو سکے ۔ ” حجر اسماعیل “ کو اس لئے حجر کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے ارد گرد دیوار بنا کر باقی جگہ سے اسے علیحدہ کر دیا گیا ہے ۔ عقلکو بھی حجر کہتے ہیں کیونکہ انسان کو غلط کاموں سے روکتی ہے اسی لئے سورہٴ فجر کی آیت ۵ میں ہے :۔
حل فی ذٰلک قسم لذی حجر
ان باتوں میں صاحبان عقل کے لئے قانع کرنے والی قسم ہے ۔
نیز قول صالح کو ”اصحاب ِ حجر“ کہا گیا ہے جیسا کہ قرآن مجید کی سورہٴ حجر آیت ۸۰ میں ہے کیونکہ وہ پہاڑوں کے اندر اپنی رہائش کے لئے پتھروں کے بہت ہی پختہ مکانات تراش کر ان میں محفوظ ہو جا یا کرتے تھے ۔
یہ تو تھا لفظ ”حجر “ کے بارے میں میں ، رہا ”حجراً محجوراً“ کے بارے میں یہ تو عربوں کی ایک اصطلاح ہے کہ جب ان کا کسی ایسے شخص سے سامنا ہو جائے جس سے وہ ڈرتے ہوں تو امان حاصل کرنے کے لئے یہ جملہ کہتے ہیں ۔
خصوصاً عربوں میں یہ رسم تھی کہ جن حرمت والے مہینوں میں جنگ ممنوع ہوئی تھی اگر کسی شخص کا سامنا کسی ایسے شخص سے ہو جاتا جس کے متعلق یہ احتمال ہوتا کہ شاید یہ شخص حرمت کی پابندی کو توڑ کر جنگ کا آغاز کردے گا اور اس طرح سے دوسرے فریق کو صدمہ ہو گا تو دوسرا فریق یہی جملہ زبان پر لاتا تو اسے امان دے دی جاتی ۔ اس طر جسے ہر قسم کی وحشت و پریشانی اور اضطراب دور ہو جاتا ۔بنابر ین ”حجراً محجوراً“کا یہ معنی ہوگا میں ایسی امان چاہتا ہوں جس میں کوئی تبدیلی نہ ہو“(۲)۔
آیت میں موجود افعال کی مناسبت ،، جملے کا تاریخی سفر اور عربوں میں اس کا استعمال بھی اسی بات کا متقاضی ہے ہر چند کہ بعض لوگوں نے یہ احتمال بھی ظاہر کیا ہے کہ یہ بات کہنے والے فرشتے ہوں گے جن کا مقصد” مشرکین کو رحمت الہٰی سے محروم کرنا “ ہو گا۔
بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ بات کہنے والے مجرم لوگ ہی ہوں گے جو ایک دوسرے سے حجراًمحجوراًکہیں گے لیخں بہتر اور ظاہر وہی پہلا معنی ٰ ہے جسے بہت سے مفسرین نے بھی اختیار کیا ہے یا پھر اسے اولین تفسیر کے نام سے یاد کیا ہے(۳) ۔
رہی یہ بات کہ مجرمین کس دن فرشتوں سے ایسی ملاقات کریں گے تو مفسرین نے اس بارے میں دو احتمال ظاہر کئے ہیں
بعض کہتے ہیں کہ وہ موت کا دن ہے جب وہ موت کے فرشتوں کو دیکھیں گے جیسا کہ سورہٴ انعام کی آیت ۹۳ میں ہے :۔
ولو تریٰ اذالظالموں فی غمرات الموت و الملائکة باسطوا ایدیھم اخرجوا انفسکم ۔
اگر تم ظالم کو دیکھو گے کہ جب وہ موت کی موجوں میں پھنسے ہوئے ہوں اور موت کے فرشتے اپنے ہاتھ پھیلائے ان سے کہ رہے ہوں کہ نکالو اپنی جانیں
بعض مفسرین نے اس دن سے قیامت کا دن مراد لیا ہے کیونکہ اس دن مجرم اورگناہ گار لوگ عذاب کے فرشتوں کے سامنے کھڑے کئے جائیں گے اور اپنی آں کھوں سے ان کا مشاہدہ کریں گے ۔
آیات میں قیامت کے ذکر کے پیش نظر اور خاص کر ”یومئذٍ“ کے جملے کو مد نظر رکھ کر یہی فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ اس دن سے مراد قیامت کا دن آیت کے مفہوم سے زیادہ نزدیک ہے ۔
بعد والی آیت آخرت میں مجرمین کے اعمال کی کیفیت کو مجسم کرکے کہتی ہے : ہم ان کے ان اعمال کی طرف آگے بڑھیں گے جو وہ انجام دے چکے ہوں گے اور ان اعمال کو غبار کے ذرّوں کی مانند ہوا میں بکھیر دیں گے ( وَقَدِمْنَا إِلَی مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاہُ ھَبَاءً مَنْثُورًا)۔
راغب نے مفردات میں لکھا ہے کہ ”عمل“ سے مراد وہ ہر کام ہے جو ارادے کے ساتھ انجام دیا جائے لیکن ” فعل “ کا معنیٰ عام ہے خواہ وہ ارادے سے انجام دیا جائے یا بغیر ارادے کے ۔ یعنی عمل ارادی کا موں کا نام ہے اور فعل ارادی اورغیر ارادی دونوں کا نام ہے(۴) ۔
”قدمنا“ ”قدوم“سے ہے جس کا معنیٰ ” وارد ہونا “ یا ”کسی چیز کی تلاش میں نکلنا “ ہے یہاں پر موضوع کے یقینی اور تاکیدی ہونے پر دلیل ہے یعنی یہ بات مسلم اور یقینی ہے کہ انھوں نے جو اعمال بھی اپنے ارادے اور اختیار سے انجام دئے ہیں خواہ وہ ظاہرا ً کارِخیر ہی کیوں نہ ہوں ، ان کے کفر اور شرک کی وجہ سے ہم ان کے تمام اعمال کو غبار کے ذرّوں کی مانند ہوا میں بکھیر کر نیست و نابود کر دیں گے ۔
1۔ ممکن ہے کہ اس جگہ ”لا“ نفی کے معنی میں ہو جیسا کہ بہت سے مفسرین کہتے ہیں ۔ یہ احتمال بھی ہے کہ شاید یہ نفرین کے لئے استعمال ہوا ہو تو ایسی صورت میں اس جملہ کا معنی ٰ یہ ہوگا کہ ” اس دن مجرمین کے لئے خوشخبری نہ ہو“۔
2۔ادبی نکتہ نظر سے ”حجراً“ فعل مقدر کا مفعول ہے اور ”محجوراً“ اس مفعول کی تاکید کے طور پر ہے اس جملے کی اصل یوں ہوگی:۲
اطلب منک منعاً لا سبیل الیٰ رفعہ و دفعہ
جو کچھ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ ”حجراًمحجوراً“کا یہ جملہ کہنے والے گناہ گار جہنمی لوگ ہوں گے ۔
۳۔اسی آیت کے ذیل میں ملاحظہ ہو تفسیر المیزان، فخر رازی۔ تفسیر فی ظلال القرآن اور تفسیر ابوفتوح رازی ۔
۴۔ راغب نے یہ فرق ”عمل“کے مادہ میں ذکر کیا ہے جبکہ ”فعل “کے مادہ میں ا س کے بر عکس کہا ہے لیکن دونوں کلموں کے استعمال کے پیش نظر یہ فرق صحیح معلوم ہو تا ہے البتہ ممکن ہے کہ کچھ استثنائی موارد بھی ہوں جیساکہ کام کرنے والے بیلوں کو ”عوامل“ کہا جا تا ہے ۔
سوره فرقان / آیه 21 - 24اعمال صالح کی تباہی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma