بعض مفسرین نے مندرجہ بالا آیات میں سے پہلی شان نزول کے بارے میں یہ روایت بیان
کی ہے کہ مشرکین کے کچھ سر غنے آنحضرت کی خدمت میں آکر کہنے لگے اے محمد !تو ہم
سے کیا چاہتا ہے ؟ اگر حکومت کی ضرورت ہے تو ہم تجھے اپنا حاکم اور سر پرست بناتے
ہیں اگر مال چاہتے ہو تو ہم تجھے مال دئے دیتے ہیں وغیرہ ۔لیکن جب آپ نے ان کی کسی
پیش کش کو بھی قبول نہ کیا اور نہ ہی ان کی خواہشات کے سامنے سر تسلیم خم کیا تو
لگے وہ مختلف قسم کی الزام تراشی کرنے اور کہنے لگے کہ تو خدا کا رسول کیسے ہو سکتا
ہے جبکہ تو کھانا کھاتا ہے اور بازار میں بھی آیا جاتا ہے ؟
وہ آنحضرت کو کھانا کھانے پر مطعون کرنے لگے کیونکہ ان کے خیال میں پیغمبر کو
فرشتہ ہو نا چاہیئے تھا وہ آپ کو بازار آنے جانے پر ملامت کرنے لگے کیونکہ وہ
کسریٰ اور قیصر اور دوسرے جابر بادشاہوں کے بارے میں جانتے تھے کہ انھوں کبھی بھی
بازار میں قدم نہیں رکھا جبکہ آنحضرت کا عام لوگوں کے ساتھ بازار میں میل میلاپ
اور اٹھنا بیٹھنا تھا ۔ جس سے وہ لوگوں کو خدا کے امر و نہی کی تبلیغ فرمایا کرتے
تھے چنا نچہ مکار لوگوں نے اعتراض کرنا شروع کردیا کہ وہ ہم پر حکمرانی کے خواب
دیکھ رہا ہے جبکہ اس کی روش اور طریقہ کار باد شاہوں کے بر عکس ہے تو ایسے موقع پر
اوپر والی آیت نازل ہوئی اور اس حقیقت کو واضح کردیا کہ پیغمبر اسلام کی سیرت
سابقہ انبیاء جیسی ہے (1) ۔
1۔ اگر چہ روایت بالا کا مضمون بہت سی تفاسیر میں آیا ہے لیکن ہم نے جو کچھ اوپر ذکر کیا ہے اس روایت کے مطابق ہے جسے قرطبی نے اپنی تفسیر کی جلد ۷ ص۷۲۱پر درج کیا ہے ۔