چند اہم نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 09
زوجہ مصر کی رسوائیزوجہ مصر کی ایک اور سازش

۱۔ شاہد کون تھا؟
شاہد کون تھا کہ جس نے یوسف اور  مصر کی فائل اتنی جلدی درست کردی اور مہر لگادی اور بے گناہ کو خطا کار سے الگ کردکھایا، اس بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔
بعض نے کہاہے کہ وہ  مصر کی بیوی کے رشتہ داروں میں سے تھا اور لفظ”من اھلھا“ اس پر گواہ ہے اور قائدتاً ایک حکیم، دانش مند اور سمجھدار شخص تھا اس واقعے میں کہ جس کا کوئی عینی شاہد نہ تھا اُس نے شگافِ پیراہن سے حقیقت معلوم کرلی، کہتے ہیں کہ یہ شخص  مصر کے مشیروں سے تھا اور اس وقت اس کے ساتھ تھا ۔
دوسری تفسیر یہ ہے کہ وہ شیر خوار بچہ تھا، یہ بچہ  مصر کی بیوی کے رشتہ داروں میں سے تھا، اس وقت یہ بچہ وہی قریب تھا یوسف نے  مصر سے خواہش کی کہ اس سے فیصلہ کروالو،  مصر کو پہلے تو بہت تعجب ہوا کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے لیکن جب وہ شیر کوار حضرت عیسیٰ کی طرح گہوارے میں بول اٹھا اور اس نے گنہگار کو بے گناہ سے الگ کرکے معیار بتایاتو وہ متوجہ ہوا کہ یوسف ایک غلام نہیں بلکہ نبی ہے یا نبی جیسا ہے ۔
وہ روایات کہ جو اہل بیت (علیه السلام) اور اہلِ تسنن کے طریقے سے منقول ہیں ان میں اس ایک دوسری تفسیر کی طرف اشارہ ہے، ان میں سے ایک روایت ابن عباس نے رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے نقل کی ہے، آپ نے فرمایا:
چار افراد نے بچپن میں بات کی، فرعون کی آرایش کرنے والی کا بیٹا، یوسف کا شاہد ، صاحبِ جریح اور عیسیٰ بن مریم۔(1)
تفیر علی بن ابراہیم میں بھی امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے:
شہادت دینے والا چھوٹا بچہ گہوارے میں تھا ۔(2)
لیکن توجہ رہے کہ مندرجہ بالا دونوں احادیث میںسے کسی کی بھی سند محکم نہیں ہے بلکہ دونوں مرفوعہ ہیں ۔
تیسرا احتمال یہ ذکر کیا گیا ہے کہ شاہد وہی کُرتے کا پھٹا ہونا تھا کہ جس نے زبانِ حال میں شہادت دی، مگر کلمہ”من اھلھا“ (شاہد  کی بیوی کے خاندان میں سے تھا) کی طرف توجہ کرنے سے یہ احتمال بہت بعید نظر آتاہے بلکہ یہ کلمہ اس احتمال کی نفی کرتا ہے ۔
۲۔  مصر نے خفیف رِ عمل کیوں ظاہر کیا؟
اس داستان میں جو مسائل انسان کی توجہ اپنی طرف مبذول کرتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایسے اہم مسئلہ میں  مصر  مصر نے صرف ایک ہی جملے پر قناعت کیوں کی، جب کہ یہ اس کی عزت وناموس کا معاملہ تھا، اس نے صرف اتنا ہی کہا کہ اپنے گناہ پر استغفار کرو کہ تُو خطا کاروں میں سے تھی ۔
شاید یہی مسئلہ سبب بنا کہ اپنے اسرار فاش ہونے کے بعد  مصر کی بیوی نے اشراف اور بڑے لوگوں کی بیویوں کو ایک خاص محفل میں دعوت دی اور ان کے سامنے اپنے عشق کی داستان کو صراحت سے اور کھول کر بیان کیا ۔
کیا رسوائی کے خوف نے  کو آمادہ کیا کی وہ اس معاملے کو طول نہ دے یا یہ کہ طاغوتی حکمرانوں کے لئے یہ کام اور عزت وناموس کی حفاظت کوئی زیادہ اہمیت نہیں رکھتی کیونکہ وہ گناہ ، برائی اور بے عفتی میں اس قدر غرق ہوتے ہیں کہ اس بات کی ان کی نظر میں حیثیت اور وقعت ختم ہوچکی ہوتی ہے ۔
دوسرااحتمال زیادہ قوی معلوم ہوتا ہے ۔
۳ بحرانی لمحات میں نصرتِ الٰہی
داستانِ یوسف کا یہ حصہ ہمیں ایک اور بہت بڑا درس دیتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ ایسے انتہائی بحرانی لمحات میں پروردگار کی وسیع حمایت انسانی مدد کو آپہنچتی ہے ۔
جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے-:
۔۔۔۔۔یَجْعَلْ لَہُ مَخْرَجًا، وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَایَحْتَسِب۔
خدا اس کے لئے نجات کی راہ پیدا کردے گا اور اسے ا یسی جگہ سے رزق دے گا کہ جہاں سے وہم بھی نہ ہو،(طلاق:۲،۳)۔
اسی کے مصداق ایسے ذرائع سے کہ انسان جن کے متعلق سوچتا بھی نہیں کہ کوئی امید کی کرن پیدا ہوگی، خدائے تعالیٰ کی مدد ہوتی ہے ۔
کیا خبر تھی کی کُرتے کا پھٹنا حضرت یوسف (علیه السلام) کی پاکیزگی اور برائت کی سند بن جائے گا، وہی واقعات کو جنم دینے والا کُرتہ کہ جو ایک یوسف (علیه السلام) کے بھائیوں کو پھٹنا نہ ہونے کی وجہ سے باپ کے حضور ذلیل ورسوا کرتا ہے لیکن دوسری طرف یہ کُرتہ  کی ہوس آلود بیوی کو پھٹا ہونے کی وجہ سے خوار کرتا ہے اور تیسری طرف حضرت یعقوب (علیه السلام) کی بے نور آنکھوں کے لئے نورِ آفرین بن جاتا ہے اور اس کی بوئے آشنائی نسیمِ صبحگاہی کے ہمراہ مصر سے کنعان تک سفر کرتی ہے اور پیرِ کنعان کو خوش خبری لے کر آنے والے سوار کی خبر دیتی ہے ۔
بہرحال خدا تعالے کے ایسے پوشیدہ الطاف ہیں کہ جن کی گہرائی سے کوئی شخص آگاہ نہیں ہے اور جس وقت اس کے لطف کی بادِ صبا چلتی ہے تو منظر اس طرح سے بدل جاتے ہیں کہ سمجھدار ترین افراد بھی جس کی پیش گوئی کے قابل نہیں ہوتے ۔
کُرتہ اگرچہ بہت چھوٹا ہوتا ہے لیکن ایک اہم چیز ہے بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ مکڑی کے جالے کے چند تار ایک ملت کی زندگی کو ہمیشہ کے لئے تبدیل کردیتے ہیں جیسا کہ ہجرتِ رسول کے وقت غارِ ثور پر ہوا ۔
۴۔ مصر کی بیوی کا منصوبہ
مندرجہ بالا آیات میں عورتوں کے مکر کی طرف اشارہ ہوا ہے (البتہ ایسی عورتیں جو زوجہ  مصر کی طرح بے لگام اور ہوس ران ہوں) اور اس مکر وفریب کو ”عظیم“ قرار دیا گیا ہے (ان کیدکن عظیم
تاریخ میں اور تاریخ ہی کے تسلسل میں ایسی بہت سی داستانیں موجود ہیں، اس سلسلے میں بہت سی باتیں منقول ہیں کہ جن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہوس باز عورتیں اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے ایسے ایسے منصوبے بناتی ہیں جو بے نظیر ہوتے ہیں ۔
مندرجہ بالا داستان میں ہم نے دیکھا ہے کہ زوجہ  مصر نے عشق میں شکست کھانے کے بعد اور اپنے آپ کو رسوائی کے آستانے پر پاکر کس طرح بڑی مہارت سے اپنی پاک دامنی اور یوسف کی آلودگی کو پیش کیا، یہاں تک کہ اس نے یہ بھی نہیں کہا کہ یوسف نے میری طرف برا ارادہ کیا بلکہ اسے مسلم امر کے طور فرض کیا اور صرف ایسے شخص کی سزا کے متعلق سوال کیا اور ایسی سزا کا ذکر کیا جو صرف قید پر موقوف نہ تھی بلکہ اس کی کوئی حد نہ تھی ۔
اسی واقعے میں ہم بعد میں دیکھے گے کہ جب مصر کی عورتوں نے سرزنش کی اور اپنے غلام سے اس کے بے قرار عشق پر انگلی اٹھائی تو اس نے کس طرح اپنی برائت کے لئے انتہائی مکارانہ اور سوچے سمجھے طریقے سے حیران کن چال چلی ۔
اور یہ ایسی عورتوں کے مکر کے بارے میں ایک اور تاکید ہے ۔

 

۳۰ وَقَالَ نِسْوَةٌ فِی الْمَدِینَةِ امْرَاٴَةُ الْ تُرَاوِدُ فَتَاھَا عَنْ نَفْسِہِ قَدْ شَغَفَھَا حُبًّا إِنَّا لَنَرَاھَا فِی ضَلَالٍ مُبِینٍ ۔
۳۱ فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَکْرِھِنَّ اٴَرْسَلَتْ إِلَیْھِنَّ وَاٴَعْتَدَتْ لَھُنَّ مُتَّکَاٴً وَآتَتْ کُلَّ وَاحِدَةٍ مِنْھُنَّ سِکِّینًا وَقَالَتْ اخْرُجْ عَلَیْھِنَّ فَلَمَّا رَاٴَیْنَہُ اٴَکْبَرْنَہُ وَقَطَّعْنَ اٴَیْدِیَھُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلّٰہِ مَا ھٰذَا بَشَرًا إِنْ ھٰذَا إِلاَّ مَلَکٌ کَرِیمٌ ۔
۳۲ قَالَتْ فَذَلِکُنَّ الَّذِی لُمْتُنَّنِی فِیہِ وَلَقَدْ رَاوَدتُّہُ عَنْ نَفْسِہِ فَاسْتَعْصَمَ وَلَئِنْ لَمْ یَفْعَلْ مَا آمُرُہُ لَیُسْجَنَنَّوَلَیَکُونَ مِنَ الصَّاغِرِینَ۔
۳۳ قَالَ رَبِّ السِّجْنُ اٴَحَبُّ إِلَیَّ مِمَّا یَدْعُونَنِی إِلَیْہِ وَإِلاَّ تَصْرِفْ عَنِّی کَیْدَھُنَّ اٴَصْبُ إِلَیْھِنَّ وَاٴَکُنْ مِنَ الْجَاھِلِینَ۔
۳۴ فَاسْتَجَابَ لَہُ رَبُّہُ فَصَرَفَ عَنْہُ کَیْدَھُنَّ إِنَّہُ ھُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیم۔


ترجمہ

۳۰۔شہر کی بعض عورتوں نے کہا: زوجہ  مصر اپنے جوان (اپنے غلام)کو اپنی طرف دعوت دیتی ہے اور اس جوان کا عشق اس کے دل کی گہرائیوں میں اتر گیا ہے، ہم دیکھتی ہیں کہ وہ کھلی گمراہی میں ہے ۔
۳۱۔جس وقت ( مصر کی بیوی)کو ان کے خیال کی خبر ہوئی تو اس نے انہیں بلوایا(اور انہیں دعوت دی) اور ان کے لئے قیمتی تکیوں سے مجلس آراستہ کی اور ہر ایک کے ہاتھ میں (پھل کاٹ نے کے لئے) چھری تھمادی اور اس موقع پر (یوسف سے )کہا: ان کی محفل میں داخل ہو، جب ان کی نگاہ اس پر پڑی تو وہ دنگ رہ گئیں اور (بے اختیار )انہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے اور کہا حاشاللّٰہ یہ بشر نہیں ہے یہ تو کوئی بزرگوار فرشتہ ہے ۔
۳۲۔( کی بیوی نے) کہا: یہ وہی ہے جس (کے عشق )کی بناء پر تم نے مجھے سرزنش کی ہے، جی ہاں ! مَیں نے اسے اپنی طرف دعوت دی ہے مگر یہ بچ نکلا اور جو کچھ مَیں کہتی ہوں اس نے انجام نی دیا تو یہ اندان میں جائے گا تو یقینا ذلیل وخوار ہوگا ۔
۳۳۔(یوسف) نے کہا: پروردگارا! جس طرف یہ لوگ مجھے بلاتے ہیں اس سے قید خانہ مجھے زیادہ محبوب ہے اور اگر تونے ان کی چالوں کو مجھ سے دور نہ کیا تو مَیں ان کے دام میں پھنس جاؤں گا اور جاہلوں میں سے ہوجاؤں گا ۔
۳۴۔اس کے پرور دگار نے اس کی دعا قبول کرلی اور ان عورتوں کی چالیں اس سے دور کردیں کیونکہ وہ سننے اور جاننے والا ہے ۔

 


1۔تفسیر المنار، ج۱۲،ص ۲۸۷۔
2۔تفسیر نورالثقلین، ج۲،ص ۴۲۲۔
 

 

زوجہ مصر کی رسوائیزوجہ مصر کی ایک اور سازش
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma