حضرت شعیب (علیه السلام) کی سرزمین۔ مدین

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 09
قومِ لُوط کا اخلاقہٹ دھرموں کی بے بنیاد منطق

قوم لوط کی عبرت انگیز داستان ختم ہونے پر قومِ شعیب اور اہلِ مدین کی نوبت آئی ہے، یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے توحید کا راستہ چھوڑ دیا تھا اور شرک وبت پرستی کی سنگلاخ زمین میں سرگرداں ہوگئے تھے، یہ لوگ نہ صرف بُتوں کو پوجتے تھے بلکہ درہم ودینار اور اپنے مال وثروت کی بھی پرستش کرتے تھے اور اسی لئے وہ اپنے کاروبار اور بارونق تجارت کو نادرستی ، کم فروشی اور غلط طریقوں سے آلودہ کرتے تھے ۔
ابتدا میں فرمایا گیا ہے: مدین کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیب کو بھیجا (وَإِلیٰ مَدْیَنَ اٴَخَاھُمْ شُعَیْبًا) ۔
جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں لفظ ”اخاھم“ (ان کا بھائی) اس بنا پر ہے کہ اپنی قوم سے پیغمبروں کی انتہائی محبت کو بیان کیا جائے، نہ صرف اس بناء پر کہ وہ افراد ان کے گروہ اور قبیلے سے تھے بلکہ اس لئے کہ وہ ان کے خیرخواہ اور ہمدرد بھائی کی طرح تھے ۔
مدین (بروزن” مَریَم“) حضرت شعیب (علیه السلام) اور ان کے قبیلے کی آبادی کا نام ہے، یہ شہر خلیج عقبہ کے مشرق میں واقع ہے، اس کے لوگ ااولادِ اسماعیل میں سے تھے، مصر، لبنان اور فلسطین سے تجارت کرتے تھے ۔
آج کل شہر مدین کا نام ”معان“ ہے، بعض جغرافیہ دانوں نے خلیج عقبی کے درمیان سے کوہ سینا تک زندگی بسر کرنے والوں پر مدین کے نام کا اطلاق کیا ہے ۔
تورات میں بھی لفظ ”مدیان“ آیا ہے لیکن بعض قبائل کے لئے (البتہ ایک ہی لفظ شہر اور اہل شہر پر عام طور پر استعمال ہوجاتا ہے) ۔ (۱)
اس پیغمبر اور ہمدرد ومہربان بھائی نے جیسا کہ تمام انبیاء کا آغازِ دعوت میں طریقہ ہے پہلے انھیں مذہب کے اساسی ترین رکن ”توحید“ کی طرف دعوت دی اور کہا:اے قوم! یکتا ویگانہ خدا کی پرستش کروکہ جس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں (قَالَ یَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَا لَکُمْ مِنْ إِلَہٍ غَیْرُہ)، کیونکہ دعوتِ توحید تمام طاغوتوں اور جہالت کی تمام سنتوں کو توڑنے کی دعوت ہے اور اس کے بغیر کسی قسم کی اجتماعی اور اخلاقی اصلاح ممکن نہیں ہے ۔
اس وقت اہل مدین میں ایک اقتصادی خرابی شدید طور پر رائج تھی جس کا سرچشمہ شرک اور بت پرستی کی روح ہے، اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:خرید وفروخت کرتے وقت چیزوں کا پیمانہ اور وازن کم نہ کرو (وَلَاتَنقُصُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیزَان) ۔
”مکیال“اور ”میزان“ پیمانہ اور ترازو کے معنی میں ہے اور انھیں کرنا اور کم فروشی لوگوںکے حقوق ادا نہ کرنے کے معنی میں ہے ۔
ان دونوںکے کاموں کا ان کے درمیان رواج نشاندہی کرتا ہے کہ ان کے کاموں میں نظم ونسق، حساب وکتاب اور میزان وترازو نہیں تھا اور ان کے سرمایہ دار معاشرے میں غارت گری، استثماری اور ظلم وستم کا نمونہ تھا ۔
یہ عظیم پیغمبر اس حکم کے بعد فوراً اس کے وہ علل واسباب کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
پہلے کہتے ہیں:اس نصیحت کو قبول کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اچھائیوں کے دروازے تمھارے لئے کھُل جائیں گے، تجارت کو فروغ حاصل ہوگا، چیزوں کی قیمتیں گر جائیں گی، معاشرے کو سُکھ چین نصیب ہوگا، خلاصہ یہ کہ ”مَیں تمہارا خیر خواہ ہوں “ اور مجھے اعتماد ہے کہ یہ نصیحت تمھارے معاشرے کے لئے خیروبرکت کا سرچشمہ بنے گی (إِنِّی اٴَرَاکُمْ بِخَیْر) ۔
اس جملے کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ہے کہ حضرت شعیب (علیه السلام) کا مقصود یہ تھا کہ” مَیں دیکھ رہا ہوں کہ تم نعمتِ فراواں اور خیرِ کثیر کے حامل ہو “ اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ تم پستی کی طرف مائل ہوکر لوگوں کے حقوق ضائع کرو اورشکرِ نعمت کی بجائے کفرانِ نعمت کرو۔
دوسرا یہ کہ اس سے ڈرتا ہوں کہ شرک، کفرانِ نعمت اور کم فروشی پر اصرار کے نتیجے میں تمھیں محیط ہوجانے والے دن کا عذاب نہ آلے ( وَإِنِّی اٴَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُحِیطٍ) ۔
یہاں ”محیط“ ”یوم“ کی صفت ہے یعنی ایک گھیر لینے والادن، البتہ گھیر لینے والے دن سے مراد اس دن کا گھیر لینے والاعذاب ہے، ہوسکتا ہے یہ عذابِ آکرت کی طرف اشارہ ہو اور اسی طرح دنیا کے گھیر لینے والے عذاب اور سزا کی بھی نشاندہی ہو۔
لہٰذا تمھیں بھی ایسے کاموں کی ضرورت نہیں اور ان کاموں کے باعث عذابِ خدا بھی تمھاری گھات میں ہے اس لئے جس قدر جلد ممکن ہو اپنی حالت ٹھیک کرلو۔
بعد والی آیت پھر ان کے اقتصادی نظام کے بارے میں تاکید کررہی ہے، اگر پہلے شعیب اپنی قوم کو کم فروشی سے منع کرچکے تھے تو آیت کے اس حصے میں لوگوں کے حقوق ادا کرنے کی دعوت دی جارہی ہے، فرمایا: اے قوم! پیمانہ اور میزان کو عدل سے پورا کرو (وَیَاقَوْمِ اٴَوْفُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیزَانَ بِالْقِسْط)، قسط وعدل کا یہ قانون اور ہر شخص کو اس کے حق کی ادائیگی کا یہ ضابطہ تمھارے پورے معاشرے پر حکمران ہوناچاہیئے ۔
پھر اس کے آگے بڑھ کر فرمایا: لوگوں کی چیزوں اوراجناس پرعیب نہ رکھو اور ان میں سے کسی چیز کو کم نہ کرو( وَلَاتَبْخَسُوا النَّاسَ اٴَشْیَائَھُم) ۔
”بخس “(بروزن”نحس“) اصل میں ظلم کرتے ہوئے کم کرنے کے معنی میںہے اور یہ جو ان زمینوںکو ”بخس“ کہا جاتا ہے کہ جو آبیاری کے بغیر کاشت ہوتی ہیں اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ ان کا پانی کم ہے (اور وہ صرف بارش سے استفادہ کرتی ہیں) یا اس لئے کہ ان کی پیداوار پانی والی زمینوں سے کم ہے ۔
اس جملے کے مفہوم کی وسعت پر نگاہ ڈالیں تو یہ سب اقوام وملل کے لئے تمام انفرادی اور اجتماعی حقوق کے احترام کی دعوت ہے، ”بخس حق“ ہر ماحول اور ہر زمانے میں میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہوتا ہے یہاں تک کہ بعض اوقات بلا معاوضہ مدد یا کسی اور صورت میں تعاون اور قرض کے نام پر بھی حقوق غصب کئے جاتے ہیں (جیسا کہ آج کل استعماری اور سامراجی طاقتوں کا طرزِ عمل ہے) ۔
آیت کے آخر میں اس سے بھی آگے بڑھ کر فرمایا گیا ہے: روئے زمین پر فساد نہ کرو(وَلَاتَعْثَوْا فِی الْاٴَرْضِ مُفْسِدِین) ۔
کم فروشی کے ذریعے فساد اور برائی، لوگوں کے حقوق کو غصب کرنے کا فساد اور حقوق پر تجاوز کا فساد، معاشرتی میزان اور اعتدال کو درہم برہم کرنے کا فساد، اموال اور اشخاص پر عیب لگانے کا فساد۔ خلاصہ یہ کہ لوگوں کی حیثیت، آبرو، ناموس اور جان کے حریم پر تجاوز کرنے کا فساد۔
”لا تعثوا“ ”فساد نہ کرو“ کے معنی میں ہے، اس بناء پر اس کے بعد ”مفسدین“ کا ذکر زیادہ سے زیادہ تاکید کی خاطر ہے ۔
مندرجہ بالا دو آیات سے یہ حقیقت اچھی طرح سے واضح ہوتی ہے کہ توحید کا اعقاد اور آئیڈیالوجی کا معاملہ ایک صحیح وسالم اقتصاد کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے، نیز یہ آیات اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اقتصادی نظام کا درہم برہم ہونا معاشرے کی وسیع تباہی اور فساد کا سرچشمہ ہے ۔
آخر میں انھیں یہ گوش گزار کیا گیا ہے کہ ظلم وستم کے ذریعے اور استعماری ہتھکنڈوں سے بڑھنے والی دولت تمھاری بے نیازی اور استغنا کا سبب نہیں بن سکتی بلکہ حلال طریقے سے حاصل کیا ہوا جو سرمایہ تمھارے پاس باقی رہ جائے چاہے وہ تھوڑا ہی ہو اگر خدا اور اس کے رسول پر ایمان کے ساتھ ہو تو بہتر ہے ( بَقِیَّةُ اللهِ خَیْرٌ لَکُمْ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ) ۔
بَقِیَّةُ اللهِ“کی تعبیر اس بنا پر ہے کہ تھوڑا حلال چونکہ خدا کے فرمان کے مطابق ہے لہٰذا ” بَقِیَّةُ اللهِ“ ہے اور یااس لئے ہے کہ حلال کی کمائی نعمتِ الٰہی دوام اور برکات کی بقا کا باعث ہے یا پھر یہ معنوی جزا اور ثواب کی طرف اشارہ ہے کہ جو ابد تک باقی رہتا ہے اگرچہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے فنا ہوجائے گا، سورہ کہف کی آیہ ۴۶ میں ہے:
<وَالْبَاقِیَاتُ الصَّالِحَاتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَخَیْرٌ اٴَمَلًا
اور باقی رہنے والی نیکیاں تمھارے رب کے نزدیک انجام کی حیثیت سے بھی بہتر ہے اور امید وآرزو کے لحاظ سے بھی ۔
یہ بھی اسی طرف اشارہ ہے ۔
إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ“(اگر تم ایمان رکھتے ہو)، یہ تعبیر اس طرف اشارہ ہے کہ یہ حقیقت صرف وہ لوگ سمجھ سکتے ہیں جو خدا، اس کی حکمت اور اس کے فرامین کے فلسفہ پر ایمان رکھتے ہیں ۔
متعدد روایات میں ہے کہ ”بقیة اللہ“ صرف مہدی (علیه السلام) یا بعض دوسرے ائمہ کے وجود کی طرف اشارہ ہے، ان روایات میں سے ایک کتاب ”اکمال الدین“ میں امام باقر علیہ السلام سے منقول ہے، آپ(علیه السلام) نے فرمایا:
اول ما ینطق بہ القائم علیہ السلام حین خرج ھٰذہ الایة ”بَقِیَّةُ اللهِ خَیْرٌ لَکُمْ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ “ ۔
ثم یقال:
انا بقیةاللّٰہ و حجتہ وخلیفتہ علیکم فلا یسلم علیہ مسلم الا قال علیک یا بقیةاللّٰہ فی ارضہ۔

پہلی بات جو حضرت مہدی (علیه السلام) اپنے قیام کے بعد کریں گے وہ یہ آیت ہوگی” بَقِیَّةُ اللهِ خَیْرٌ لَکُمْ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ “۔
اس کے بعد کہیں گے:
مَیں بقیةاللہ ہوں اور تم میں اس کی حجت اور خلیفہ ہوں، لہٰذا اس کے بعد کوئی شخص ایسا نہ ہوگا کہ جو اس طرح سے آپ(علیه السلام) پر سلام نہ کرے گا:السلام علیک یا بقیة اللّٰہ فی ارضہ۔
یعنی ۔اے خدا کی زمین میں بقیةاللہ! آپ پر سلام ہو۔ (2)
ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ آیاتِ قرآن اگرچہ خاص مواقع کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ان کا مفہوم جامع ہے اور یہ ممکن ہے کہ بعد کے زمانوں میں وہ زیادہ اور وسیع مصداق پر منطبق ہوں ۔
یہ صحیح ہے کہ زیرِ بحث آیت میں قومِ شعیب مخاطب ہے اور” بَقِیَّةُ اللهِ“ سے مراد حلال سرمایہ اور منافع اور جزائے الٰہی ہے لیکن ہر نفع بخش موجود کہ جو خدا تعالی کی طرف سے بشر کے لئے باقی ہے اور خیروسعادت کا باعث ہے اسے ” بَقِیَّةُ اللهِ“ شمار کیا جاسکتا ہے ۔
تمام انبیائے الٰہی اور بزرگ ہادی ” بَقِیَّةُ اللهِ“ ہیں، اسی طرح جو مجاہد سپاہی کامیابی کے بعد میدان جنگ سے پلٹ آتے ہیں وہ بھی ” بَقِیَّةُ اللهِ“ ہیں ۔
حضرت مہدی موعود چونکہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے بعد آخری پیشوا اور عظیم ترین انقلابی قائد ہیں” بَقِیَّةُ اللهِ“ کے مصادیق میں سے ایک روشن ترین مصداق ہیں اور ہر کسی سے بڑھ کر اس لقب کے اہل ہیں خصوصا جب کہ آپ(علیه السلام) انبیاء اور ائمہ کے واحد باقی ماندہ ہیں ۔
زیرِ بحث آیت کے آخر میں حضرت شعیب (علیه السلام) کی زبانی بیان کیا گیاہے کہ وہ کہتے ہیں :میری ذمہ داری تو فقط ابلاغ، انذار اور کبردار کرنا ہے ”اور مَیں تمھارے اعمال کا جواب دہ نہیں اور نہ میری یہ ذمہ داری ہے کہ تمھیں یہ راہ اختیار کرنے پر مجبور کروں“تم ہو ، یہ تمھاری راہ ہے اور یہ چاہ ہے (وما انا علےکم بحفیظ)

 

۸۷ قَالُوا یَاشُعَیْبُ اٴَصَلَاتُکَ تَاٴْمُرُکَ اٴَنْ نَتْرُکَ مَا یَعْبُدُ آبَاؤُنَا اٴَوْ اٴَنْ نَفْعَلَ فِی اٴَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ إِنَّکَ لَاٴَنْتَ الْحَلِیمُ الرَّشِیدُ۔
۸۸ قَالَ یَاقَوْمِ اٴَرَاٴَیْتُمْ إِنْ کُنتُ عَلیٰ بَیِّنَةٍ مِنْ رَبِّی وَرَزَقَنِی مِنْہُ رِزْقًا حَسَنًا وَمَا اٴُرِیدُ اٴَنْ اٴُخَالِفَکُمْ إِلیٰ مَا اٴَنْھَاکُمْ عَنْہُ إِنْ اٴُرِیدُ إِلاَّ الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیقِی إِلاَّ بِاللهِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَإِلَیْہِ اٴُنِیبُ۔
۸۹ وَیَاقَوْمِ لَایَجْرِمَنَّکُمْ شِقَاقِی اٴَنْ یُصِیبَکُمْ مِثْلُ مَا اٴَصَابَ قَوْمَ نُوحٍ اٴَوْ قَوْمَ ھُودٍ اٴَوْ قَوْمَ صَالِحٍ وَمَا قَوْمُ لُوطٍ مِنْکُمْ بِبَعِیدٍ۔
۹۰ وَاسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَیْہِ إِنَّ رَبِّی رَحِیمٌ وَدُودٌ۔

ترجمہ

۸۷۔انھوں نے کہا: اے شعیب! کیا تیری نماز تجھے حکم دیتی ہے کہ ہم انھیں چھوڑ دیں کی جن کی ہمارے اباؤ اجداد پرستش کرتے تھے اور جو کچھ ہم اپنے اموال کے لئے چاہتے ہیں اسے انجام نہ دیں، تُو بُرد بار اور رشید مرد ہے ۔
۸۸۔اس نے کہا-: اے میری قوم! اگر میرے پاس پروردگار کی طرف سے واضح دلیل ہو اور اس نے مجھے اچھا رزق دیا ہو (تو کیا مَیں اس کے فرمان کے خلاف عمل کرسکتا ہوں؟)مَیں ہرگز نہیں چاہتا کہ جس چیز سے تمھیں روکتا ہوں اس کا خود ارتکاب کروں مَیں سوائے اصلاح کے ۔ جتنی کہ مجھ میں توانائی ہے ۔ اور کچھ نہیں چاہتا اور مجھے اللہ کے علاوہ توفیق نہیں ہے مَیں نے اس پر توکل کیا ہے اور میری اسی کی طرف بازگشت ہے ۔
۸۹۔اور اے میری قوم ! مبادا میری دشمنی اور مخالفت کے نتیجے میں تم اس انجام میں گرفتار ہوجاؤ کہ جس میں قومِ نوح یا قومِ ہود یا قومِ صالح گرفتار ہوئی ہے اور قومِ لوط تو تم سے زیادہ دور نہیں ہے ۔
۹۰۔اپنے پروردگار سے بخشش طلب کرو اور اس کی طرف رجوع اور توبہ کرو اور میرا پروردگار مہربان ہے اور (توبہ کرنے والوں بندوںکو )دوست رکھتا ہے ۔

 


۱۔ اعلام قرآن،ص ۵۷۳۔
2 -تفسیر صافی میں مذکورہ آیت کے ذیل میں یہ روایت نقل ہے ۔
 

قومِ لُوط کا اخلاقہٹ دھرموں کی بے بنیاد منطق
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma