چند قابل توجّہ نکات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 09
گزشتگان کے واقعات کے مطالعہ کے چار اثراتچند ضروری امور

۱۔ علمِ غیب خدا سے مخصوص ہے:
جیسا کہ ہم ساتویں جلد میں سورہٴ اعراف کی آیہ ۱۸۸ اور پانچویں جلد میں سورہٴ انعام کی آیہ۵۰ کے ذیل میں تفصیل سے بیان کرچکے ہیں کہ اس میں شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ اسرارِ نہاں اور اسرارِ گزشتہ وآئندہ پر آگاہی اور ان کا علم خدا کے ساتھ مخصوص ہے، قرآن مجید کی مختلف آیات بھی اس حقیقت پر شاہد ہیں کہ وہ اس صفت میں اکیلا ہے اور اور کوئی شخص اس کی مانند نہیں ہے ۔
یہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ بعض آیاتِ قرآن میں علمِ غیب کے کچھ حصّوں کی نسبت انبیاء کی طرف دی گئی ہے یا بہت سی آیات ورمایات میں پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم، حضرت علی علیہ السلام اور دیگر آئمہ معصومین علیہم السلام کے بارے میں ہم پڑھتے ہیں کہ وہ حضرات بعض اوقات آنے والے واقعات اور اسرارِ نہاں کی خبر دیتے تھے تو یہ جاننا چاہیے کہ یہ بھی خدائی تعلیم سے ہوتا ہے ۔
وہی ہے کہ جب مصلحت دیکھتا ہے تو اسرارِ غیب کا کچھ علم اپنے خاص بندوں کو تعلیم دیتا ہے لیکن یہ علم ذاتی ہے اور لامحدود بلکہ تعلیمِ الٰہی کے ذریعے سے ہے اور اتنا ہی ہوتا ہے جتنا وہ اپنے ارادے سے عطا کرتا ہے ۔
اس وضاحت سے ان تمام بدگوئی کرنے والوں کا جواب واضح ہوجاتا ہے کہ جو شیعہ عقیدے پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ انبیاء اور آئمہ کو عالم الغیب جانتے ہیں ۔
خدا نہ صرف انبیاء اور آئمہ کو مناسب موقع اور محل پر اسرارِ غیب تعلیم کرتا ہے بلکہ بعض اوقات ان کے علاوہ افراد کو بھی اس قسم کی تعلیم دیتا ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہٴ گرامی کے بارے میں قرآنِ حکیم میں ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان سے کہا: ڈرو نہیں ہم یہ بچہ تمھاری طرف پلٹادیں گے اور اسے انبیاء میں سے قرار دیں گے ۔
قرآنی الفاظ میں:
<وَلَاتَخَافِی وَلَاتَحْزَنِی إِنَّا رَادُّوہُ إِلَیْکِ وَجَاعِلُوہُ مِنَ الْمُرْسَلِینَ
یہاں تک کہ پرندے اور دوسرے جانور ضروریاتِ زندگی کے ماتحت مخفی اسرار سے آگاہی حاصل کرلیتے ہیں، حتّیٰ کہ نسبتاً مستقبل بعید کے واقعات سے بھی آگاہ ہوجاتے ہیں کہ جس کا تصور ہمارے لئے مشکل اور پیچیدہ ہے اور یوں بعض مسائل جو ہمارے لئے غیب شمار ہوتے ہیں ان کے لئے غیب نہیں ہیں ۔
۲۔ عبادت خدا کے لئے مخصوص ہے:
مندرجہ بالا آیت میں عبادت خدا کے لئے مخصوص ہونے کے بارے میں ایک لطیف دلیل بیان ہوئی ہے اور وہ یہ کہ اگر پرستش عظمت اور صفاتِ جمال وجلال کی بناء پر ہے تو یہ صفات سب سے بڑھ کر خدا میں موجود ہیں اور دوسرے اس کے مقابلے میں ناچیز وحقیر ہیں، عظمت کی سب سے بڑی نشانی علمِ لامحدود اور قدرت بے پایاں ہے کہ جن کے بارے میں زیرِ نظر آیت کہتی ہے کہ یہ دونوں اس کے ساتھ مخصوص ہیں اور اگر پرستش مشکلات کے موقع پر معبود کی پناہ لینے کی خاطر ہے تو یہ اہلیت اس میں ہے کہ جو بندوں کی تمام ضروریات، حاجات اور اسرارِ غیب سیے باخبر ہو اور ان کی دعا قبول کرنے اور ان کی آرزووٴںکو پورا کرنے کی قدرت رکھتا ہو، اسی بناء پر توحیدِ صفات توحیدِ عبادت کا سبب بن جاتی ہے ۔ (غور کیجیے گا) ۔
۳۔ تمام تر سیر وسلوک کا خلاصہ:
بعض مفسّرین نے کہا ہے کہ پروردگار کی عبودیت کے ذریعے انسان کی تمام تر سیر وسلوک کا خلاصہ زیرِ بحث آیت کے دو لفظوں میں بیان کردیا گیا ہے، یعنی ”فَاعْبُدْہُ وَتَوَکَّلْ عَلَیْہِ“ کیونکہ عبادت چاہے عام عبادات کی طرح جسمانی ہو یا روحانی، مثلاً عالمِ آفرینش اور نظامِ اسرارِ ہستی میں غور وفکر، وہ اس سیر وسلوک کا آغاز ہے اور توکل یعنی طور تمام امور کو خدا کے سپرد کرنا کہ جو ایک طرح سے ”فَنَا فِی اللّٰہ“ ہے اس سیر کا آخری نقطہ ہے ۔
اس تمام راستے میں ابتداء سے لے لے انتہا تک توحیدِ صفات کی طرف توجہ راہرو کی مدد کرتی ہے اور کوشش وعشق سے ملی ہوئی جستجو پر ابھارتی ہے ۔
پروردگار! ایسا کر کہ ہم تجھے تیری صفاتِ جمال وجلال کے پہچانیں اور ایسا کر کہ ہم آگاہی اور علم کے ساتھ تیری طرف حرکت کریں ۔
پروردگار! ہمیں توفیق دے کہ ہم خلوص کے ساتھ تیری عبادت کریں اور عشق کے ساتھ تجھ پر توکّل کریں ۔
پروردگار! اس سختی کے زمانے میں جبکہ ہمارے عظیم الشان اسلامی انقلاب کے بعد روز افزوں مشکلات نے ہر طرف سے ہمیں گھیر رکھا ہے اور دشمن اس انقلاب کے نور کو بجھادینے کے درپے ہیں، ہماری امید صرف تو ہے اور ان مشکلات کے حل کے لئے ہمارا سہارا تیری ذاتِ پاک ہے ۔
پروردگار! یہاں تک کا راستہ ہم نے طے نہیں کہ بلکہ تیری آشکار اور مخفی تائیدیں تھیں کہ جنھوں اس مرحلے تک پہنچنے کے لئے ہر جگہ ہمیں توانائی بخشی، جو راستہ باقی رہ گیا ہے اس میں بھی ہمیں اس عظیم نعمت سے محروم نہ فرما، اپنا لطفِ خاص ہم سے دُور نہ کر اور ہمیں اس کی بھی توفیق دے کہ ہم اس تفسیر کو کہ جو تیری عظیم آسمانی کتاب کی طرف ایک نیا دریچہ کھولتی ہے تکمیل تک پہنچائیں ۔

 


 

۱۔ جو کچھ کہا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ”ھٰذہ“ ضمیر کا مرجع ”ابناء الرسل“ ہیں یہ مرجع ضمیر کے قریب بھی ہے، عبارت میں اس کا ذکر بھی ہے اور آیت میں موجودمباحث سے مناسبت بھی رکھتا ہے، اس امر کی طرف توجہ کرتے ہوئے ضمیر کا ایسے مرجع کی طرف لوٹنا بالکل واضح ہے ۔

سورہٴ ہود کی تفسیر اختتام کو پہنچی

 

 

گزشتگان کے واقعات کے مطالعہ کے چار اثراتچند ضروری امور
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma