مکتب کا رشتہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 09
تفسیرقوم ثمود کا انجام

یہ امر توجہ طلب ہے کہ اسلامی روایات میں ہے جس نے ناقہ کو مارا تھا وہ صرف ایک شخص تھا لیکن اس کے باوجود قرآن اس کام کی نسبت حضرت صالح (علیه السلام) کے تمام مخالفین کی طرف دیتا ہے اورجمع کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے کہتا ہے :”فعقروھا“ ۔
یہ اس بنا پر ہے کہ قرآن کسی امر پر باطنی طور پر راضی ہونے اور اس کے مکتبی رشتے کو اس میں شرکت سمجھتا ہے، در حقیقت اس کام کی سازش انفرادی نہ تھی، یہاں تک کہ جس نے اس پر عمل کیا تھا اس نے فقط اپنی قوت کے سہارے ایسا نہیں کیا تھا بلکہ اس کے پیچھے جمعیت کی طاقت تھی اور وہی اسے حوصلہ دے رہی تھی، یقینا ایسے کام کو انفرادی قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ یہ ایک گروہی اور جماعتی کام شمار ہوگا ۔
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
وانما عقر ناقة ثمود رجل واحد فعمھم اللّٰہ بالعذاب لما عموہ بالرضا ۔
ناقہ صالح کو ایک شخص نے قتل کیا تھا، خدا نے تمام سرکش قوم کو عذاب کیا کیونکہ وہ سب اس پر راضی تھے 1) ۔
اسی مضمون کی یا اس کی مانند متعدد دیگر روایات پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام سے منقول ہیں، ان سے اسلام کے نزدیک مکتبی رشتے اورفکری ہم آہنگی کی بنیاد پر بننے والے پروگراموں کی بہت زیادہ اہمیت واضح ہوتی ہے، نمونہ کے طور پر ان روایات کا کچھ حصہ ہم ذیل میں پیش کرتے ہیں:
قال رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وآلہ وسلّم
من شھد امراً فکرھہ کان کمن غاب عنہ، ومن غاب عن امرفرضیہ کان کمن شھدہ۔
جو شخص کسی کام کو دیکھے لیکن اس سے متنفر ہو تو وہ اس شخص کی طرح ہے جو اس سے غائب ہو اور جو کسی کام سے غائب ہو لیکن دلی طور پر اس پر راضی ہو تو وہ اس شخص کی طرح ہے جو اس وقت حاضر تھا اور اس میں شریک تھا ۔ (2)
امام علی ابن موسیٰ رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:
لو ان رجلا قتل فی المشرق فرضی بقتلہ رجل بالمغرب لکان الرضی عند اللّٰہ عز وجل شریک القاتل۔
جب کوئی شخص مشرق میں قتل ہو اورایک شخص مغرب میں رہتے ہوئے اس کے قتل پر راضی ہو تو خداکے ہاںوہ قاتل کا شریک ہے ۔ (3)
حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے، آپ نے فرمایا:
الراض بفعل قوم کالداخل معھم فیہ وعلی کل داخل فی باطل اثمان اثم العمل بہ واثم الرضا بہ۔
جو شخص کسی گروہ کے فعل پر راضی ہو وہ اس شخص کی طرح ہے جو اس کام میں ان کا شریک ہو لیکن جس نے عملا شرکت کی ہے اس کے دو گناہ ہیں، ایک عمل گناہ کا اور دوسرااس عمل پر راضی ہونے کا گناہ ہے ۔ (4)
مکتبی اور فکری رشتے کی گہرائی کو جاننے کے لئے اور سمجھنے کے لئے اس میں زمان ومکان کی کوئی قید نہیں، نہج البلاغہ میں موجود حضرت علی علیہ السلام کے اس پر معنی اور ہلا دینے والے کلام کی طرف توجہ کرنا کافی ہے:
جب حضرت امیرالمومنین (علیه السلام) نے میدان جمل میں جنگ کی آگ بھڑکانے والے باغیوں پر فتح پالی اور آپ کے اصحاب وانصار شرک وجاہلیت کے خلاف اسلام کی اس کامیابی پر خوش ہوئے تو ان میں سے ایک شخص عرض کرنے لگا:
میری کتنی خواہش تھی کہ میرا بھائی اس میدان میں موجود ہوتا اور وہ بھی دشمن پر آپ کی کامیابی کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ۔
امام(علیه السلام) نے اس کی طرف رخ کیا اورفرمایا:
اھوی اخیک معنا؟
یہ بتاؤ کہ تمھارے بھائی کا دل اور آرزو ہمارے ساتھ تھی؟
فقال نعم۔
اس نے عرض کیا: جی ہاں ۔
تو امام (علیه السلام) نے فرمایا:
فقدشھدنا
(فکر مت کرو) وہ بھی اس میدان میں شریک تھا ۔
اس کے بعد آپ (علیه السلام) نے فرمایا:
ولقد شھدنا فی عسکرنا ھذا اقوام فی اصلاب الرجال وارحام النساء سیرعف بھم الزمان ویقوی بھم الایمان۔
تجھے اس سے بھی بڑھ کر بتاؤں، آج ہمارے لشکر میں ان گروہوں نے بھی شرکت کی ہے جو ابھی اپنے باپوں کے صلب اور ماؤں کے رحم میں ہیں (اور ابھی انھوں نے اس دنیا میں قدم نہیں رکھا)لیکن وقت گزرنے کے ساتھ عنقریب وہ دنیا میں آئیں گے اور ان کی قوت وطاقت سے قوت ایمان میں اضافہ ہوگا ۔ (5)
اس میں شک نہیں کہ جو لوگ کسی کام میں شریک ہوتے ہیں اور اس کی تمام مشکلات و زحمات کو برداشت کرتے ہیں وہ ایک خاص امتیاز کے حامل ہیں لیکن اس کامعنی یہ نہیں کہ دوسرے بالکل اس میں شریک نہیں ہوتے بلکہ کیا اس زمانے میں اور کیا آئندہ زمانوں میں جو اشخاص بھی فکر ونظر اور مکتب ومذہب کے اعتبار سے اس کام سے منسلک ہیں وہ ایک لحاظ سے اس میں شریک ہیں ۔
یہ مسئلہ شاید کسی عالمی مکتب میں اپنی نظیر ومثیل نہ رکھتا ہو، جو کہ ایک اہم اجتماعی حقیقت کی بنیاد پر استوار ہے اور وہ یہ ے کہ جو لوگ طرزِ فکر میں دوسروں سے مشابہت رکھتے ہیں اگرچہ ان کے انجام دئےے ہوئے کسی معین کام میں شریک نہ ہوں تاکہ ہم یقینی طور اپنے ماحول اور زمانے میں اس سے ملتے جلتے کام انجام دیں گے کیون کہ انسان کے اعمال ہمیشہ اس کے افکار کا پرتو ہوتے ہیں، ممکن نہیں کہ انسان کسی مکتب کا پابند ہواور وہ اس کے عمل میں واضح نہ ہو۔
اسلام پہلے قدم پر ہی روح انسانی میں اصلاحات جاری کرتاہے تاکہ مرحلہ عمل کی خودبخود اصلاح ہوجائے، جو دستور ہم نے ستور بالا میں ذکر کیا ہے اس کے مطابق جب ایک مسلمان کو پتہ چلتا ہے کہ فلاں نیک کام یا بد کام انجام پارہا ہے تو اس کے بارے میں فوراً ایک صحیح موقف اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے اور وہ اپنے قلب وروح کو نیکیوں کا ہمنوا بناتا ہے اور برائیوں سے نفرت کرتا ہے، یہ اندرونی کاوش یقینا اس کے اعمال پر اثرانداز ہوگی اور اس کا فکری تعلق ایک عملی رشتے کی صورت میں نمودار ہوجائے گا ۔
آیت کے آخر میں حضرت صالح (علیه السلام) نے قوم کی سرکشی، نافرمانی اور اس کے ہاتھوں قتل ناقہ کے بعد اسے خطرے سے آگاہ کیا اور “کہا کہ پورے تین دن تک اپنے گھروں میں جس نعمت سے چاہو استفادہ کرو اور جان لو کہ ان تین دنوں کے بعد عذاب الٰہی آکے رہے گا“( فَقَالَ تَمَتَّعُوا فِی دَارِکُمْ ثَلَاثَةَ اٴَیَّامٍ)،” اس بات کو حتمی سمجھو، میں جھوٹ نہیں کہہ رہا یہ ایک سچا اورحقیقی وعدہ ہے“( ذٰلِکَ وَعْدٌ غَیْرُ مَکْذُوب ) ۔

 

۶۶ فَلَمَّا جَاءَ اٴَمْرُنَا نَجَّیْنَا صَالِحًا وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَہُ بِرَحْمَةٍ مِنَّا وَمِنْ خِزْیِ یَوْمِئِذٍ إِنَّ رَبَّکَ ھُوَ الْقَوِیُّ الْعَزِیزُ۔
۶۷ وَاٴَخَذَ الَّذِینَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ فَاٴَصْبَحُوا فِی دِیَارِھِمْ جَاثِمِین۔
۶۸ کَاٴَنْ لَمْ یَغْنَوْا فِیھَا اٴَلَاإِنَّ ثَمُودَ کَفَرُوا رَبَّھُمْ اٴَلَابُعْدًا لِثَمُودَ۔
ترجمہ
۶۶۔جب (اس قوم کی سزا کے بارے میں) ہمارا حکم آپہنچا تو صالح اور اس پر ایمان لانے والوں کو ہم نے اپنی رحمت کے ذریعے ( اس دن کی رسوائی سے نجات بخشی) کیونکہ تیرا پروردگار قوی اور ناقابل شکست ہے ۔
۶۷۔اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا انھیں( آسمانی) صیحہ نے آلیا اور وہ اپنی ہی گھروں میں منہ کے بل گرکر مرگئے ۔
۶۸۔اس طرح سے کہ گویا وہ ان گھروں کے باسی ہی نہ تھے، جان لو کہ قوم ثمود نے اپنے پروردگار کا انکار کیا تھا، دور ہو قوم ثمود (رحمت پروردگار سے) ۔

 


1۔ نہج البلاغہ، کلام ۲۰۱۔
2۔ وسائل االشیعہ، ج۱۱، ص ۴۰۹۔
3۔ وسائل االشیعہ، ج۱۱، ص ۴۱۰۔
4۔ وسائل االشیعہ، ج۱۱، ص ۴۱۱۔
5۔ نہج لبلاغہ، کلام ۱۲۔
تفسیرقوم ثمود کا انجام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma