مصر کے محل میں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 09
سرزمینِ مصر کی جانبچند اہم نکات

حضرت یوسف (علیه السلام) کی بھرپور داستان جب یہاں پہنچی کہ بھائی انہیں کنویں میں پھینک چکے تو ہر صورت بھائیوں کے ساتھ ساتھ والا مسئلہ ختم ہوگیا، اب اس ننھے بچے کی زندگی کا ایک نیا مرحلہ مصر میں شروع ہوا، اس طرح سے کہ آخرکار یوسف مصر میں لائے گئے، وہاں انہیں فروخت کے لئے پیش کیا گیا، کیونکہ یہ نفیس تحفہ تھا لہٰذا معمول کے مطابق ” مصر“ کو نصیب ہواکہ جو درحقیقت فرعونوں کی طرف سے وزیر یا وزیرِ اعظم تھا اور ایسے ہی لوگ ”تمام پہلوؤں سے ممتاز اس غلام“ کی زیادہ سے زہادہ قیمت دے سکتے تھے، اب دیکھتے ہیں کہ  مصر کے گھر یوسف (علیه السلام) پر کیا گزرتی ہے ۔
قرآن کہتا ہے:جس نے مصر میںیوسف کو خریدا اس نے اپنی بیوی سے اس کی سفارش کی اور کہاکہ اس غلام کی منزلت کا احترام کرنا اور اسے غلاموں والی نگاہ سے نہ دیکھنا کیونکہ ہمیں امید ہے کہ مستقبل میں ہم اس غلام سے بہت فائدہ اٹھائیں گے یا اسے فرزند کے طور پر اپنا لیںگے(وَقَالَ الَّذِی اشْتَرَاہُ مِنْ مِصْرَ لِامْرَاٴَتِہِ اٴَکْرِمِی مَثْوَاہُ عَسیٰ اٴَنْ یَنفَعَنَا اٴَوْ نَتَّخِذَہُ وَلَدًا )۔(۱)
اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ  مصر کی کوئی اولاد نہ تھی اور وہ بیٹے کے شوق میں زندگی بسر کررہا تھا، جب اس کی آنکھ اس خوبصورت اور آبرومند بچے پر پڑی تو اس کا دل آیا کہ یہ اس کے بیٹے کے طور پر ہو ۔
اس کے بعد قرآن مزید کہتا ہے: اس طرح اس سرزمین میںہم نے یوسف کو متمکن اور صاحب نعمت واختیار کیا(وَکَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوسُفَ فِی الْاٴَرْضِ
یہ ”تمکین فی الارض“ اس بناء پر تھا کہ یوسف کا مصر میں آنا اور خصوصاً  مصرکی زندگی میں قدم رکھنا ان کی آئندہ کی انتہائی قدرت کے لئے تمہید تھا اور یا اس بنا پر تھا کہ  مصر کے محل کی زندگی کنویں کی تہ کی زندگی سے کوئی موزانہ نہ تھا ، وہ تنہائی، بھوک اور وحشت کی شدت کہاں اور یہ سب نعمت اور آسائش اور آرام وسکون کہاں ۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے:ہم نے ایسا اس لئے کیا تاکہ اسے احادیث کی تاویل کی تعلیم دیں ( وَلِنُعَلِّمَہُ مِنْ تَاٴْوِیلِ الْاٴَحَادِیثِ
” تَاٴْوِیلِ الْاٴَحَادِیثِ“سے مراد ہے، جیسا ہے کہ پہلے بھی اشارہ کیا جا چکا ہے تعبیرِ خواب کا علم ہے کہ جس کے ذریعے یوسف آئندہ کے اسرار کے اہم حصے سے آگاہ ہوسکتے تھے اور یا اس سے مراد وحی الٰہی ہے کنونکہ حضرت یوسف (علیه السلام) کی خدائی آزمائشوں کی سنگلاخ گھاٹیوں سے گزر کر دربارِ مصر میں پہنچنے تک ایسی قابلیت پیدا کرلی تھی کہ حاملِ رسالت ووحی ہوں ۔
لیکن پہلا احتمال زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے ۔
آیت کے آخر میں ارشاد ہوتا ہے:خدا اپنے کام پرمسلط اور غالب ہے، لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے( وَاللهُ غَالِبٌ عَلیٰ اٴَمْرِہِ وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَ النَّاسِ لَایَعْلَمُونَ
خدا کے مظاہرِ قدرت میں سے ایک عجیب مظہر اور امور پر اس کا تسلط یوں ہے کہ بہت سے مواقع پر وہ انسان کی کامیابی اور نجات کے وسائل اس کے دشمنوں کے ہاتھوں فراہم کرتا ہے چنانچہ حضرت یوسف (علیه السلام) کے سلسلے میں اگر بھائیوں کا منصوبہ نہ ہوتا تو وہ ہرگز کنویں میں نہ جاتے اور نہ فرعون کے عجیب خواب کا معاملہ ان کے سامنے پیش ہوتا اور نہ ہی یوسف (علیه السلام)  مصر بنتے ۔
درحقیقت خدا نے بھائیوں کے ہاتھوں یوسف (علیه السلام) کو تختِ قدرت پر بٹھایا اگرچہ وہ سمجھتے تھے کہ ہم نے اسے بدبختی کے کنویں میں پھینک دیا ہے ۔
اس نئے ماحول میں جو درحقیقت مصر کا ایک اہم سیاسی مرکز تھا یوسف (علیه السلام) کو نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑا، ایک طرف خیرہ کن طاقت اور طاغوتیانِ مصر کے محلات (جنہیں خواب سمجھا جاتا ) اور ان کی بے کراں ثروت کو دیکھتے ہوئے دوسری طرف بردہ فروشوں کے بازار کا منظر ان کی آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا، وہ ان دونوں کا موازنہ کرتے اور دیکھتے کہ عام لوگوں کی اکثریت فراواں رنج وغم اور دکھ درد کا شکار ہے تو ان کی روح اور فکر پر بہت بوجھ پرتا اور وہ سوچتے کہ اگر مجھے طاقت حاصل ہوجائے تو یہ کیفیت ختم کردوں ۔
جی ہاں! انہوں نے بہت سی چیزیں اس شوروغل کے ماحول میں سیکھیں، ان کے دل میں ہمیشہ غم واندوہ کا ایک طوفان موجزن ہوتا تھا کیونکہ ان حالات میں وہ کچھ نہیں کرسکتے تھے، اس دور میں وہ مسلسل خود سازی اور تہذیبِ نفس میں مشغول تھے ۔
قرآن کہتا ہے: جب وہ بلوغ اور جسم وروح کے تکامل کے مرحلے میں پہنچا اور انوارِ وحی قبول کرنے کے قابل ہو گیا، تو ہم نے اسے حکم اورعلم دیا(وَلَمَّا بَلَغَ اٴَشُدَّہُ آتَیْنَاہُ حُکْمًا وَعِلْمًا
اور اس طرح ہم نیکو کار لوگوں کو جزاء دیتے ہیں(وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ
”اشد“ ”شد“ کے مادہ سے مضبوط گروہ کے معنی میں ہے، یہاں جسمانی اور روحانی استحکام کی طرف اشارہ ہے، بعض نے کہا ہے کہ ”اشد“ جمع ہے جس کا مفرد نہیں ہے لیکن بعض نے اسے ”شد“ (بروزن”سد“)کی جمع کہا ہے، بہرحال اس کے معنی کا جمع ہونا قابلِ انکار نہیں ہے ۔
جو مذکورہ آیت میں فرمایا گیا ہے کہ ہم نے یوسف کی جسمانی و رحانی بلوغت پر اسے ”حکم“ اور”علم“ عطا کیا، یا تو مقامِ وحی ونبوت ہے جیسا کہ بعض مفسریننے کہا ہے اور یا ”حکم“ سے مراد عقل وفہم اور صحیح فیصلے کی قدرت ہے کہ جو ہوس پرستی اور اشتباہ سے خالی ہو اور ”علم“ سے مراد آگاہی اور دانش ہے کہ جس کے ساتھ جہالت نہ ہو، بہرحال ”حکم“ اور”علم“ جو کچھ بھی تھے دو ممتاز اور قیمتی خدائی انعام تھے کہ جو کدا نے حضرت یوسف (علیه السلام) کو ان کی پاکیزگی تقویٰ ، صبر وشکیبائی اور توکل کی وجہ سے دئے تھے اور یوسف (علیه السلام) کی یہ تمام خوبیاں لفظ”محسنین“ میں جمع ہے ۔
بعض مفسرین نے ”حکم“ اور ”علم“ کے بارے میں تمام تر احتمالات کو تین احتمالات کے طور پرذکر کیا گیا ہے :
۱۔ ”حکم“ مقامِ نبوت کی طرف اشارہ ہے (چونکہ پیغمبر برحق حاکم ہے )اور علم اشارہ ہے علمِ دین کی طرف ۔
۲۔ ”حکم“ سرکش ہواوہوس کے مقابلے میں اپنے اوپر ضبط رکھنے کے معنی میں ہے کہ جو یہاں حکمتِ عملی کی طرف اشارہ ہے اور علم اشارہ ہے نظری حکمت وعلم ودانش کی طرف اور”حکم“ کو ”علم“ پر اس لئے مقدم کیاگیا ہے کہ انسان جب تک تہذیبِ نفس اور خودسازی نہ کرلے صحیح علم تک نہیں پہنچ سکتا ۔
۳۔” حکم “اس معنی میں ہے کہ انسان نفسِ مطمئنہ کے مقام پر پہنچ جائے اور اپنے اوپر کنٹرول حاصل کرلے اس طرح کہ نفسِ امارہ اوروسوسہ پیدا کرنے والے نفس پر اسے کنٹرول ہوجائے اور علم سے مراد انوارِ قدسیہ اور فیضِ الٰہی کی شعاعیں ہیں کہ جو علم ملکوت سے پاک انسان کے دل پر پڑتی ہے (2)


۱۔ ”مثوا“ کا معنی ہے مقام، یہ مادہ ”ثوی“ سے ہے جو اقامت کے معنی میں ہے لیکن یہاں حیثیت اور مقام ومنزلت کے معنی میں ہے ۔
2۔تفسیر کبیر، ج۱۸،ص ۱۱۱۔

 

سرزمینِ مصر کی جانبچند اہم نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma