معاشرے کو پاک کرنے کا مرحلہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 09
۳۔ ایک وضاحت:۱۔ معاشرے کی پاکیزگی نہ کہ انتقام:

ان آیات میں حضرت نوح (علیه السلام) کی سرگزشت بیان ہوئی ہے، اس کے درحقیقت مختلف مراحل ہیں، ان میں سے متکبرین کے خلاف حضرت نوح(علیه السلام) کے قیام کے ایک دور سے مربوط ہے، گذشتہ آیات میں حضرت نوح (علیه السلام)کی مسلسل اور پر عزم دعوت کے مرحلے کا تذکرہ تھا، جس کے لئے انھوں نے تمام تر وسائل سے استفادہ کیا، یہ مرحلہ ایک طویل مدت پر مشتمل تھا، اس میں ایک چھوٹا سا گروہ آپ (علیه السلام) پر ایمان لایا، یہ گروہ ویسے تو مختصر سا تھا لیکن کیفیت اور استقامت کے لحاظ سے بہت عظیم تھا ۔
زیر بحث آیات میںاس قیام کے دوسرے مرحلے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، یہ مرحلہ دور تبلیغ کے اختتام کا تھا جس میں خدا کی طرف سے معاشرے کو برے لوگوں سے پاک کرنے کی تیاری کی جانا تھی ۔
پہلی آیت میں ہے: نوح (علیه السلام) کو وحی ہوئی کہ جو افراد ایمان لاچکے ہیں ان کے علاوہ تیری قوم میں سے کوئی ایمان نہیں لائے گا (وَاٴُوحِیَ إِلیٰ نُوحٍ اٴَنَّہُ لَنْ یُؤْمِنَ مِنْ قَوْمِکَ إِلاَّ مَنْ قَدْ آمَنَ) ۔
یہ اس کی طرف اشارہ ہے کہ صفیں بالکل جدا ہوچکی ہیں، اب ایمان اور اور اصلاح کی دعوت کا کوئی فائدہ نہیں اور اب معاشرے کی پاکیزگی اور آخری انقلاب کے لئے تیار ہوجانا چاہیئے ۔
آیت کے آخر میں حضرت نوح(علیه السلام) اور دلجوئی کے لئے فرمایاگیا ہے:اب جب معاملہ یوں ہے تو جو کام تم انجام دے رہے ہو اس پر کوئی حزن وملال نہ کرو ( فَلَاتَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوا یَفْعَلُونَ) ۔
اس آیت سے ضمنی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اسرار غیبت کا کچھ حصہ جہاں ضروری ہوتا ہے اپنے پیغمبر کے اختیار میں دے دیتا ہے جیسا کہ حضرت نوح (علیه السلام) کو خبر دی گئی کہ آیندہ ان میں سے کوئی اور شخص ایمان نہیں لائے گا ۔
بہرحال ان گنہگار اور ہٹ دھرم لوگوں کو سزا ملنی چاہیئے، ایسی سزا جو عالم ہستی کو ان کے وجود کی گندگی سے پاک کردے اور مومنین کو ہمیشہ کے لئے ان کے چنگل سے نجات دے دے، ان کے غرق ہونے کا حکم صادر ہوچکا ہے لیکن ہر چیز کے لئے کچھ وسائل و اسباب ہوتے ہیں لہٰذا نوح (علیه السلام) کو چاہیئے کہ وہ سچے مومنین بچنے کے لئے ایک مناسب کشتی بنائیں تاکہ ایک تو مومنین کشتی بنے کی اس مدت میں اپنے طریق کار میں پختہ تر ہوجائیں اور دوسروں کے لئے بھی کافی اتمام حجت ہوجائے لہٰذا” ہم نے نوح کو حکم دیا کہ وہ ہمارے حضور میں اورہمارے فرمان کے مطابق کشتی بنائیں“ (وَاصْنَعْ الْفُلْکَ بِاٴَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا ) ۔
لفظ”اعیننا“ (ہماری آنکھوں کے سامنے) سے اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اس سلسلے میں تمہاری سب جد وجہد، مساعی اور تمام کا وشیں ہمارے حضور میں اور ہمارے سامنے ہے لہٰذا اطمینان اور راحت فکر کے ساتھ اپنا کام جاری رکھو، یہ فطری امر ہے کہ یہ احساس کہ خدا حاضر وناظر ہے اور محافظ و نگران ہے ایک تو انسان کو قوت و توانائی بخشتا ہے اور دوسرے احساس ذمہ داری کو فروغ دیتاہے ۔
لفظ”وحینا“ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حضرت نوح (علیه السلام) کشتی بنانے کی کیفیت اور اس کی شکل وصورت کی تشکیل بھی حکم خدا سے سیکھ رہے تھے اور ایسا ہی ہونا چاہیئے تھا کیونکہ حضرت نوح (علیه السلام) آنے والے طوفان کی کیفیت ووسعت سے آگاہ نہ تھے کہ وہ کشتی اس مناسبت سے بناتے اور یہ وحی الٰہی ہی تھی جو بہترین کیفیتوں کے انتخاب میں ان کی مدد گار تھی ۔
آیت کے آخرمیں حضرت نوح (علیه السلام) کو خبردار کیا گیا ہے کہ آج کے بعد ”ظالم افراد کے لئے شفاعت اور معافی کا تقاضا نہ کرنا کویں کہ انھیں عذاب دینے کا فیصلہ ہوچکا ہے اور وہ حتماًغرق ہوں گے“(وَلَاتُخَاطِبْنِی فِی الَّذِینَ ظَلَمُوا إِنَّھُمْ مُغْرَقُونَ) ۔
اس جملے سے اچھی طرح سے واضح ہوتا ہے کہ سب افراد کے لئے شفاعت ممکن نہیں ہے بلکہ اس کی کچھ شرائط ہیں، یہ شرائط جس میں موجودنہ ہوں اس کے لئے خدا کا پیغمبر بھی بھی شفاعت اور معافی کے تقاضے کا حق نہی رکھتا، اس سلسلے میں تفسیر نمونہ جلد اول (ص ۱۸۷تا ص ۲۰۴، اردوترجمہ)کی طرف رجوع کریں ۔
اب چند جملے قوم نوح کے بارے میں بھی سن لیں، وہ بجائے اس کے کہ ایک لمحہ کے لئے حضرت نوح (علیه السلام) کی دعوت کو غور سے سنتے، اسے سنجیدگی سے لیتے اور کم از کم انھیں یہ احتمال بھی ہوتا کہ ہوسکتا ہے کہ حضرت نوح (علیه السلام) کے بار بار اصرار اور تکرار دعوت کا سرچشمہ وحی الٰہی ہی ہواورسکتا ہے طوفان اور عذاب کا معاملہ حتمی اور یقینی ہی ہو الٹا انھوں نے تمام متکبر اور مغرور افراد کی عادت کا مظاہرہ کیا اور تمسخر واستہزاء کا اسلسلہ جاری رکھا، ان کی قوم کا کوئی گروہ جب کبھی ان کے نزدیک سے گزرتا اور حضرت نوح (علیه السلام) اور ان کے اصحاب کو لکڑیاں اور میخیں وغیرہ مہیا کرتے دیکھتا اور کشتی بنانے میں انھیں سرگرم عمل پاتا تو تمسخر اڑاتااور پھبتیاں کستے ہوئے گزرجاتا (وَیَصْنَعُ الْفُلْکَ وَکُلَّمَا مَرَّ عَلَیْہِ مَلَاٴٌ مِنْ قَوْمِہِ سَخِرُوا مِنْہُ ) ۔
ملاء“ ان اشراف اوربڑے لوگوں کو کہتے ہیں جو خود پسند ہوتے ہیں اور ہر مقام پر مستضعفین کا تمسخر اڑاتے ہیں اور انھیں پست و حقیر مخلوق سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے پاس سرمایہ اور اقتدار نہیں ہوتا ، بس یہ نہیں کہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں بلکہ ان کے افکار کتنے ہی بلندہوں، ان کا مکتب کتنا ہی پائیدار اور بااصول اور ان کے اعمال کتنے ہی چچے تلے ہوں ان کے خیال میں وہ حقارت کے قابل ہیں اسی بنا پر پند ونصیحت، تنبیہ اور خطرے کی گھنٹیاں ان پر اثر انداز نہیں ہوتی، ان کا علاج فقط دردناک عذاب الٰہی ہے ۔
کہتے ہیں کہ قوم نوح کے اشراف کے مختلف گروہوں کے ہر دستے نے تمسخر اور تفریح وطبع کے لئے اپنا ہی ایک انداز اختیار کررکھا تھا ۔
ایک کہتا: اے نوح! دعوائے پیغمبری کا کاروبار نہیں چل سکا تو بڑھئی ہوگئے ہو ۔
دوسرا کہتا : کشتی بنا رہے ہو؟ بڑا اچھا ہے البتہ اس کے لئے دریا بھی بناؤ ، کبھی کوئی عقلمند دیکھا ہے جو خشکی کے بیچ میں کشتی بنائے؟
شاید ان میں سے کچھ کہتے تھے: اتنی بڑی کشتی کس لئے بنا رہے ہو، اگر کشتی بنانا ہی ہے تو ذرا چھوٹی بنالو جسے ضرورت پڑے تو دریا کی طرف لے جانا تو ممکن ہو۔
ایسی باتیں کرتے تھے اور قہقے لگاکر ہنستے ہوئے گزرجاتے تھے ، یہ باتیں گھروں میں ہوتیں ، کام کاج کے مراکز میں یہ گفتگو ہوتی گویا اب یہ بات بحثوں کا عنوان بن گئی، وہ ایک دوسرے سے حضرت نوح (علیه السلام) اور ان کے پیروں کاروں کی کوتاہ فکری کے بارے میں باتیں کرتے اور کہتے: اس بوڑھے کو دیکھو، آخر عمر میں کس حالت کو جا پہنچا ہے، اب ہم سمجھے کہ اگر ہم اس کی باتوں پر ایمان نہیں لائے تو ہم نے ٹھیک ہی کیا اس کی عقل تو بالکل ٹھکانے نہیں ہے ۔
دوسری طرف حضرت نوح(علیه السلام) بڑی استقامت اور پامردی سے اپنا کام بے پناہ عزم کے ساتھ جاری رکھے ہوئے تھے اور یہ ان کے ایمان کا نتیجہ تھا، وہ ان کوباطن دل کے اندھوں کی بے بنیاد باتوں سے بے نیاز اپنی پسند کے مطابق تیزی سے پیش رفت کررہے تھے اور دن بدن کشتی کا ڈھانچہ مکمل ہورہا تھا ، کبھی کبھی سر اٹھا کر ان سے یہ پر معنی بات کہتے: اگر آج تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو تو ہم بھی جلد ہی اسی طرح تمہارا مذاق اڑائیں گے (قَالَ إِنْ تَسْخَرُوا مِنَّا فَإِنَّا نَسْخَرُ مِنْکُمْ کَمَا تَسْخَرُونَ)، وہ دن کے جب تم طوفان کے درمیان سرگرداں ہوگئے ، سرا سیمہ ہو کر ادھر ادھر بھاگو گے اور تمھیں کوئی پناہ گاہ نہیں ملے گی، موجوں میں گھرے فریاد کرو گے کہ ہمیں بچالو، جی ہاں اس دن مومنین تمھارے افکار غفلت، جہالت اور بے خبری پر ہنسے گے ،”اس دن تمھیں معلوم ہوگا کہ کس کے لئے ذلیل اور رسوا کرنے والا عذاب آتا ہے اور کسی دائمی سزا دامن گیر ہوتی ہے (فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ یَاٴْتِیہِ عَذَابٌ یُخْزِیہِ وَیَحِلُّ عَلَیْہِ عَذَابٌ مُقِیم) ۔
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ اگر چہ تمہاری مزاحمتیں ہمارے لئے دردناک عذاب ہیں مگر اولا تو ان مشکلات کو گوارا کرتے ہوئے ہم سربلند اور پر افتخار ہیںثانیاً یہ مشکلات جو کچھ بھی ہیں جلد ختم ہوجائیں گی لیکن عذاب الٰہی رسوا کن بھی ہے اور ختم ہونے والا بھی نہیں اور ان دونوں کا آپس میں مقابلہ نہیں ہوسکتا

 

۳۔ ایک وضاحت:۱۔ معاشرے کی پاکیزگی نہ کہ انتقام:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma