انبیاء کے لفظ ”نذیر“

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 09
حضرت نوح(علیه السلام) کی قوم کی ہلا دینے والی سرگزشتحضرت نوح کے جوابات

انبیاء ڈرانے والے بھی تھے اور خوش خبری دینے والے بھی پھر ”انذار“ (ڈرانے) کے مسئلہ پر انحصار صرف اس بناء پر کیا گیا ہے چونکہ انقلاب کی پہلی ضرب جو خطرے کے اعلان اور ڈرانے سے شروع کیا جائے کیونکہ اس کی تاثیر سوئے ہوئے اور غافل لوگوں کو بیدار کرنے میں بشارت کی نسبت زیادہ ہے، اصولی طور پر جب تک انسان کوئی بڑا خطرہ محسوس نہ کرے اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرتا اور اسی بناء پر انبیاء کے انذار اور خطرے کے اعالان کو تازیانہ کی شکل میںگمراہیوں کی بے درد روحوں پر پڑتے تھے کہ جو شخص بھی حرکت کی طاقت رکھتا وہ حرکت میں آجاتا تھا نیز اسی بناء پر قرآن کی بہت سی آیات میں (مثلاً سورہٴ حج۴۹، شعراء۱۱۵، عنکبوت۵۰، فاطر۴۲، ص۷۰، احقاف۹، ذاریات۵۰، اور دیگر آیات میں) ہر جگہ دعوتِ انبیاء کو بیان کرتے وقت لفظ ”نذیر“ (ڈرانے والے) استعمال کیا گیا ہے ۔
بعدوالی آیات پہلی ضرب کے بعد اپنی رسالت کے مضمون کو صرف ایک جملہ میں بطور خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: میرا پیغام یہ ہے کہ ”الله“ کے علاوہ کسی دوسرے کی پرستش نہ کرو (اٴَنْ لَاتَعْبُدُوا إِلاَّ اللهَ) ۔ پھر بلافاصلہ اس کے پیچھے اسی مسئلہ انذار اور اعلامِ خطر کا تکرار کرتے ہوئے کہتا ہے: مَیں تم پر دردناک دن سے ڈرتا ہوں (إِنِّی اٴَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ اٴَلِیمٍ) ۔ (۱)
اصل میںالله (خدائے یکتا ویگانہ) کی توحید اور عبادت ہی تمام انبیاء کی دعوت کی بنیاد ہے اور اسی بناء پر تمام انبیاء کے حالات میں جیسا کہ اس سورہ کی دوسری آیت اور سورہٴ یوسف کی آیت۴۰ اور سورہٴ بنی اسرائیل کی آیت۲۳ میں بھی آیا ہے یہی تعبیر نظر آتی ہے کہ وہ اپنی دعوت کا خلاصہ توحید کو قرار دیتے تھے ۔
سچ مچ اگر تمام افراد اور معاشرہ الله کے علاوہ کسی کی پرستش نہ کریں اور طرح طرح کے بنائے ہوئے بتوں کے سامنے چاہے بیرونی بت ہوں یا اندرونی، خود خواہی، ہَوا وہوس، شہوت وثروت، مقام ومنزلت، جاہ وجلال، عورت واولاد ہوں سرِتسلیم خم نہ کریں تو کسی قسم کی خرابی اور فساد معاشروں میں پیدا نہ ہو۔ اگر انسان خود کاسہٴ توانانی کو ایک بت کی صورت میں نہ لائے اور اس کے سامنے سجدہ نہ کرے اور اس کی فرمانبرداری نہ کرے تو استبداد اور استعمار وجود میں نہ آئے اور نہ ہی اس کے بُرے آثار، ذلّت اور اسارت پیش آئیں اور نہ ہی وابستگی اور طفیلی ہونے کی بنیاد پڑے، تمام بدبختیاں جو افراد اور معاشروں کودامنگیر ہوں اسی الله کی پرستش سے انحراف اور بتوں اور طاغوتوں کی پرستش کی طرف رخ کرنے کی وجہ سے ہیں ۔
اب ہم دیکھیں گے کہ پہلا درِّعمل اس زمانے کے طاغوتوں، خود سروں اور صاحبان زروزور کا اس عظیم دعوت اور واضع اعلام کے مقابلے میں کیا تھا، مسلماً سوائے کچھ بیہودہ اور جھوٹے عذر بہانوں اور بے بنیاد استدلالوں کے جو کہ ہر زمانے کے جابروں کا طریقہ کار ہے ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا ۔
انھوں نے حضرتنوح(علیه السلام) کی دعوت کے تین جواب دیئے:
۱۔ قومِ نوح(علیه السلام) کے سردار اور سرمایہ دار کافر تھے، انھوں نے کہا ہم تو تجھے صرف اپنے جیسا انسان دیکھتے ہیں (فَقَالَ الْمَلَاٴُ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ قَوْمِہِ مَا نَرَاکَ إِلاَّ بَشَرًا مِثْلَنَا) ۔ حالانکہ الله کی رسالت اور پیغام توفرشتوں کو اپنے کاندھوں پر لینا چاہیے، نہ کہ ہم جیسے انسانوں کو، اس گمان کے ساتھ کہ انسان کا مقام فرشتوں سے نیچے ہے یا انسان کی ضرورت کو فرشتہ انسان سے بہتر جانتا ہے، پھر ہم یہاں لفظ ”ملاء“ کاسامنا کررہے ہیں یعنی صاحبانِ اقتدار، سرمایہ دار اور ایسے افراد جن پر لوگوں کی نظریں جمتی ہیں لیکن وہ اندر سے خالی ہوتے ہیں، یہ لوگ ہر معاشرے میں فساد اور تباہی کا اصلی سرچشمہ ہوتے ہیں اور انبیاء کے مقابلے میں مخالفت کا پرچم بلند کرتے ہیں ۔
۲۔ انھوں نے کہا: اے نوح! ہم تیرے گرد وپیش اور ان کے درمیان کہ جنھوں نے تیری پیروی کی ہے سوائے چند پست، ناآگاہ اور بے خبر تھوڑے سن وسال کے نوجوانوں کے کہ جنھوں نے مسائل کی دیکھ بھال نہیں کی کسی کو نہیں دیکھتے (وَمَا نَرَاکَ اتَّبَعَکَ إِلاَّ الَّذِینَ ھُمْ اٴَرَاذِلُنَا بَادِی الرَّاٴْیِ) ۔
”باراذل“ ”ارذل“ (بروزن اھرم“) کی جمع ہے اور وہ خود ”رذل“ کی جمع ہے جو پست وحقیر موجود کے معنی میں ہے چاہے وہ انسان ہے یا کوئی اور چیز۔
البتہ اس میں شک نہیں کہ حضرت نوح(علیه السلام) کی طرف مائل ہونے والے اور ان پر ایمان لانے والے لوگ نہ اراذل تھے اور نہ ہی حقیر وپست، تاہم اس بناء پر چونکہ انبیاء ہر چیز سے پہلے مستضعفین کے حمایت اور مستکبرین سے مبارزہ اور جہاد کرتے تھے لہٰذا پہلا گروہ جو انبیاء کی دعوت پر لبیک کہتا وہی محروم، فقیر اور کم آمدنی والے لوگ ہوتے تھے، جو مستکبرین کی نگاہ میں جو کہ شخصیت کامعیار دولت اور اقتدار کو سمجھتے تھے پست اور حقیر افراد شمار ہوتے تھے اور یہ جو انھیں ”بادی الراٴی“ (ظاہر بین بے مطالعہ اوروہ شخص جو پہلی نظر میں کسی چیز کا عاشق اور خواہاں ہوتا ہے) کا نام دیا ہے حقیقت میں اس بناء پر ہے کہ وہ ہٹ دھرمی اور غیرمناسب تعصبات جو دوسروں میں تھے وہ نہیں رکھتے تھے، بلکہ زیادہ تر پاک دل نوجوان تھے جو حقیقت کی پہلی کرن کو جو اُن کے دل پر پڑتی جلدی محسوس کرلیتے تھے، وہ اس بیداری کے ساتھ جو کہ حق کی تلاش سے تلاش سے حاصل ہوتی ہے صداقت کی نشانیاں انبیاء کے اقوال وافعال کا ادراک کرلیتے تھے ۔
۳۔ اُن کا آخری اعتراض یہ تھا کہ قطع نظر اس سے کہ تُو انسان ہے نہ کہ فرشتہ، علاوہ ازیں تجھ پر ایمان لانے والے نشاندہی کرتے ہیں کہ تیری دعوت کے مشتملات صحیح نہیں ہیں، اصولی طور پر تم ہم پر کسی قسم کی برتری نہیں رکھتے کہ ہم اس بناء پر تیری پیروی کریں (وَمَا نَریٰ لَکُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ) ۔ لہٰذا ہم گمان کرتے ہیں کہ تم جھوٹے ہو (بَلْ نَظُنُّکُمْ کَاذِبِینَ) ۔

 


۱۔ باوجودیکہ دردناک عذاب ک صفت ہے لیکن زیرِ نظر آیت میںیوم کی صفت قرار دی گئی ہے یہ ایک قسم کی لطیف اسنادحجازی ہے جو مختلف زبانوں کی ادبیات میں آتی ہے فارسی میں بھی ہم کہتے ہیں ”فلاں دن بڑا دردناک تھا“ حالانکہ خود دن دردناک نہیں تھا بلکہ اس کے حوادث دردناک تھے ۔
 
حضرت نوح(علیه السلام) کی قوم کی ہلا دینے والی سرگزشتحضرت نوح کے جوابات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma