بھائیوں کی سازش

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 09
چند خوابچند نکات

یہاں سے یوسف (علیه السلام) کے بھائیوں کی یوسف (علیه السلام) کی خلاف سازش شروع ہوتی ہے، پہلی آیت میں ان بہت سے اصلاحی دروس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو اس داستان میں موجود ہے، ارشاد ہوتا ہے:یقینایوسف اوراس کے بھائیوں (کی داستان میں سوال کرنے والوں کے لئے نشانیاں تھیں (لَقَدْ کَانَ فِی یُوسُفَ وَإِخْوَتِہِ آیَاتٌ لِلسَّائِلِینَ) ۔
اس بارے میں کہ ان سوال کرنے والوں سے کون سے اشخاص مراد ہیں، بعض مفسرین (مثال قرطبی نے تفسیر جامع میں اور دوسرے حضرات نے ) کہا ہے کہ یہ سوال کرنے والے مدینہ کے یہودیوں کی ایک جماعت تھی جو اس سلسلے میں پیغمبراکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے مختلف سوالات کیاکرتے تھے لیکن ظاہری طور پر آیت مطلق ہے اور کہتی ہے کہ اس واقعے میں تمام جستجو کرنے والوں کے لئے آیات، نشانیاں اور دروس چھپے ہوئے ہیں ۔
اس سے بڑھ کر کیا درس ہوگا کہ چند طاقتور افراد ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کہ جس کا سرچشمہ حسد تھا ظاہراً ایک کمزور اور تنہا شخص نابود کرنے کے لئے اپنی تمام تر کوشش صرف کرتے ہیں مگر اسی کام سے انہیں خبر نہیں ہوتی کہ وہ اسے ایک حکومت کے تخت پر بٹھارہے ہیں اور ایک وسیع مملکت کا فرماں روا بنارہے ہیں اور آخرکار وہ سب اس کے سامنے سرِ تعظیم وتسلیم خم کرتے ہیں، یہ امر نشاندہی کرتا ہے کہ جب خدا کسی کا م کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اتنی طاقت رکھتا ہے کہ اس کام کو اس کے مخالفین کے ہاتھوں پایہ تکمیل تک پہنچادے تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ ایک پاک اور صاحب ایمان انسان اکیلا نہیں ہے اور اگرسارا جہان اس کی نابودی پر کمر باندھ لے لیکن خدا نہ چاہے تو کوئی اس کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا ۔
حضرت یعقوب (علیه السلام) کے بارہ بیٹے تھے، ان میں یوسف (علیه السلام) اور بنیامین ایک ماں سے تھے، ان کی والدہ کا نام راحیل تھا، یعقوب (علیه السلام) ان دونوں بیٹوں سے خصوصا یوسف (علیه السلام) سے زیادہ محبت کرتے تھے کیونکہ ایک تو یہ ان کے چھوٹے بیٹے تھے لہٰذا فطرتا زیادہ توجہ اور محبت کے محتاج تھے اور دوسرا ان کی والدہ (راحیل)فوت ہوچکی تھیں اس بنا پر بھی انہیں زیادہ محبت کی ضرورت تھی علاوہ ازیں خصوصیت کے ساتھ حضرت یوسف (علیه السلام) میں نابغہ اور غیر معمولی شخصیت ہونے کے آثار نمایاں تھے، مجموعی طور پر ان سب باتون کی بنا پر حجرت یعقوب (علیه السلام) واضح طور پر ان سے زیادہ پیار محبت کا برتاؤ کرتے تھے ۔
حاسدبھائیوں کی توجہ ان پہلوؤں کی طرف نہیں تھی اور وہ اس پر بہت نارحت اور ناراض تھے، خصوصا شاید ماؤں کے الگ الگ ہونے کی وجہ سے بھی فطرتا ان میں رقابت موجود تھی لہٰذا وہ اکٹھے ہوئے اور کہنے لگے کہ یوسف اور اس کے بھائی کوباپ ہم سے زیادہ پیار کرتا ہے حالانکہ ہم طاقتوراور مفید لوگ ہیں اور باپ کے امور کو بہتر طور پر چلا سکتے ہیں،اس لئے اسے ان چھوٹے بچوں کی نسبت ہم سے زیادہ محبت کرنا چاہیئے جب کہ ان سے تو کچھ بھی نہیں ہوسکتا (إِذْ قَالُوا لَیُوسُفُ وَاٴَخُوہُ اٴَحَبُّ إِلیٰ اٴَبِینَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَة ) ۔ (۱)
اس طرح یکطرفہ فیصلہ کرتے ہوئے انہون نے اپنے باپ کے خلاف کہا کہ ہمارا باپ واضح گمراہی میں ہے (اِنَّ اٴَبَانَا لَفِی ضَلَالٍ مُبِینٍ) ۔
حسد اور کینے کہ آگ نے انہیں اجازت نہ دی کہ وہ معاملے کے تمام اطراف پر غوروفکر کرتے اور ان دو بچوں سے اظہارِ محبت پر باپ کے دلائل معلوم کرتے کیونکہ ہمیشہ ذاتی مفادات ہر شخص کی فکر پر پردہ ڈال دیتے ہیں اور اسے یکطرفہ فیصلوں پر ابھارتے ہیں کہ جن کا نتیجہ حق وعدالت کے راستے سے گمراہی ہے ۔
البتہ ان کی مراد دین ومذہب کے اعتبار سے گمراہی نہ تھی بلکہ بعد میں آنے والی آیات نشاندہی کرتی ہیں کہ اپنے باپ کی عظمت اور نبوت پر ان کا عقیدہ تھا اور انہیں صرف ان کے طرزِ معاشرت پر اعتراض تھا ۔
بغض، حسد اور کینے کے جذبات نے آخر کار بھائیوں کو ایک منصوبہ بنانے پر آمادہ کیا، وہ ایک جگہ جمع ہوئے اور دو تجاویز ان کے سامنے تھیں کہنے لگے:یایوسف کو قتل کردو یا اسے دور دراز کے کسی علاقے میں پھنک آؤ تاکہ باپ کی محبت کا پورا رخ تمہاری طرف ہو جائے ( اقْتُلُوا یُوسُفَ اٴَوْ اطْرَحُوہُ اٴَرْضًا یَخْلُ لَکُمْ وَجْہُ اٴَبِیکُم) ۔
ٹھیک ہے کہ تمہیں اس کام پر احساس گناہ ہوگا اور وجدان کی مذمت ہوگی کیونکہ اپنے چھوٹے بھائی پر یہ ظلم کروگے لیکن اس گناہ کی تلافی ممکن ہے، توبہ کرلینا اوراس کے بعد صالح جمعیت بن جانا ( وَتَکُونُوا مِنْ بَعْدِہِ قَوْمًا صَالِحِینَ) ۔
اس جملے کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ان کی مراد یہ تھی کہ یوسف (علیه السلام) کو باپ کی آنکھوں سے دور کرنے کے بعد ان کے ساتھ تمہارا معاملہ ٹھیک ہوجائے گا اور اس طرف سے تمہیں جو پریشانی ہے وہ ختم ہوجائے گی ۔
ان میں سے پہلی تفسیر صحیح معلوم ہوتی ہے ۔
بہرحال یہ جملہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس عمل کے بارے میں انہیں احساسِ گناہ تھا اور اپنے دل کی گہرائیوں میں وہ تھوڑا سا خوفِ خدا رکھتے تھے، اسی بنا پر وہ یہ گناہ انجام دینے کے بعد توبہ تجویز کررہے تھے لیکن اہم مسئلہ یہ ہے کہ انجام جرم سے پہلے توبہ کے بارے میں گفتگو کرنا درحقیقت وجدان کو دھوکا دینے کے مترادف ہے اور گناہ کے لئے راستہ ہموار کرنے کے لئے ہے اور بات کسی طرح بھی پشیمانی اور ندامت کی دلیل نہیں بنتی ۔
دوسرے لفظوں میں حقیقی توبہ یہ ہے کہ گناہ کے بعد انسان میں ندامت اور شرمندگی کی حالت پیدا ہوجائے لیکن گناہ سے پہلے توبہ کے بارے میں گفتگو کرنا توبہ نہیں ہے ۔
اس کی وضاحت یوں ہے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان جب گناہ کا ارادہ کرتا ہے تو اسے ضمیر کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا مذہبی اعتقادات اس کے سامنے بندباندھ دیتے ہیں اور گناہ کی طرف قدم اٹھانے سے روکتے ہیں، اس موقع پر وہ شخص اس بند سے گزرنے کے لئے اور گناہ کی طرف راستہ ہموار کرنے کے لئے اپنے ضمیر اور مذہب کو دھوکا دیتاہے کہ میں گناہ کرلینے کے فورا بعد اس کی تلافی کرلوں گا، ایسا نہیں ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاؤں گا، مَیں توبہ کرلوں گا، بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہوں گا، نیک عمل بجالاؤں گا اور آخرکار ٓاثارِ گناہ دھوڈالوں گا، یعنی جس طرح انجامِ گناہ کے لئے ایک شیطانی منصوبہ بناتا ہے ضمیر کو دھوکا دینے اور مذہبی عقائد پر مسلط ہونے کے لئے بھی ایک شیطانی منصوبہ بناتا ہے اور اکثر اوقات یہ شیطانی منصوبہ بھی بیت موثر ثابت ہوتا ہے اور اس محکم دیوار کو اس ذریعے سے اپنے راستے سے ہٹا دیتا ہے، حضرت یوسف (علیه السلام) کے بھائیوں نے بھی یہی راستہ اختیار کیا ۔
دوسرا نکتہ یہ کہ انھوں نے کہا کہ یوسف کوراستے سے ہٹا لینے کے بعد باپ کی توجہ اور نگاہ تمیاری طرف ہوجائے گی ( یَخْلُ لَکُمْ” وَجْہ“ اٴَبِیکُم)، یہ نہیں کہا کہ باپ کا دل تمہاری طرف مائل ہوجائے گا ( یَخْلُ لَکُمْ”قلب“ اٴَبِیکُم)، کیونکہ انہیں اطمینان نہیں تھا کہ باپ اتنی جلدی اپنے بیٹے یوسف کو بھول جائے گا، یہی کافی ہے کہ باپ کی ظاہری توجہ ان کی طرف ہو ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ اگر باپ کا رخ اور نظر مائل ہوجائے تو یہ دل کے مائل ہونے کی بنیاد بن جائے گا، جب باپ کی نظر ان کی طرف ہوئی تو آہستہ آہستہ دل بھی ہوجائے گا ۔
لیکن بھائیوں میں سے ایک بہت سمجھدار تھا یا اس کا ضمیر نسبتا زیادہ بیدار تھا اسی لئے اس نے یوسف کو قتل کرنے کے منصبوبے کی مخالفت کی اور اسی طرح کسی دور دراز علاقے میں پھنک آنے کی تجویز کی بھی ، کیونکہ ان منصوبے میں یوسف (علیه السلام) کی ہلاکت کا خطرہ تھا، اس نے ایک تیسرا منصوبہ پیش کیا، وہ کہنے لگا :اگر تمہیں ایسا کام کرنے پر اصرار ہی ہے تو یوسف (علیه السلام) کو قتل نہ کرو بلکہ اسے کسی کنویں میں پھینک دو (اس طرح سے کہ وہ زندہ رہے) تاکہ راہ گزاروںکے کسی قافلے کے ہاتھ لگ جائے اوروہ اسے اپنے ساتھ لے جائیں اور اس طرح یہ ہماری اور باپ کی آنکھوں سے دور ہوجائے (قَالَ قَائِلٌ مِنْھُمْ لَاتَقْتُلُوا یُوسُفَ وَاٴَلْقُوہُ فِی غَیَابَةِ الْجُبِّ یَلْتَقِطْہُ بَعْضُ السَّیَّارَةِ إِنْ کُنتُمْ فَاعِلِینَ) ۔

 


۱۔ ”عصبة“ ایسی جماعت اور گروہ کے معنی میں ہے کہ جس کے افراد باہم شریکِ کار ہوں اور کسی کام کی انجام دہی میں ہم آہنگ ہوں، یہ لفظ جمع کا معنی دیتا ہے اور اس کا مفرد نہیں ہے ۔

 

 

چند خوابچند نکات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma