ہم جنس پرستی کی حرمت کا فلسفہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 09
چند قابل توجہ نکاتقومِ لُوط کا اخلاق

اگرچہ مغربی دنیا میں جہاں جنسی بے راہ روی بیت زیادہ ہے ایسی برائیوں سے نفرت نہیں کی جاتی یہاں تک کہ سننے میں آیا ہے کہ بعض ممالک مثلا برطانیہ میں پارلمیٹ نے اس کام کو انتہائی بے شرمی سے قانونی جواز دے دیا ہے لیکن ان برائیوں کے عام ہونے سے ان کی برائی اور قباحت میں ہرگز کوئی کمی نہیں آتی اور اس کے اخلاقی، نفسیاتی اور اجتماعی مفاسد اپنی جگہ پر موجود ہیں ۔
بعض اوقات مادی مکتب کے بعض پیروکار جو اس قسم کی آلودگیوں میں مبتلا ہیں اپنے عمل کی توجیہ کے لئے کہتے ہیں کہ اس میں طبی نکتہ نظر سے کوئی خرابی نہیں ہے لیکن وہ یہ بات بھول چکے ہیں کہ اصولی طور پر ہر قسم کا جنسی انحراف انسانی وجود کے تمام ڈھانچے پر اثرانداز ہوتا ہے اور اس کا اعتدال درہم برہم کردیتا ہے ۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ انسانی فطری اور طبعی طور پر اپنے صفِ مخالف کی میلان رکھتا اور یہ میلان انسانی فطرت میں بہت مضبوط جڑیں رکھتا ہے اور انسانی نسل کی بقا کا ضامن ہے، ہر وہ کام جو طبعی میلان سے انحراف کی راہ پر ہو انسان میں ایک قسم کی بیماری اور نفسیاتی انحراف پیدا کرتا ہے ۔
وہ مرد جو جنس مواقف کی طرف میلان رکھتا ہے اور وہ مرد کہ جو اپنے آپ کو اس کام کے لئے پیش کرتا ہے ایک کامل مرد نہیں ہے جنسی امور کی کتب میں ہم جنس پرستی (HOMOSEXUALISM) کو ایک اہم ترین انحراف قرار دیا ہے ۔
اگر یہ کام جاری رہے تو جنس مخالف کے لئے انسان میں میلان آہستہ آہستہ ختم ہوجاتا ہے اور جو یہ کام کرواتا ہے ان میں رفتہ رفتہ زنانہ احساسات پیدا ہونے لگتے ہیں اور دونوں بیت زیادہ جنسی ضعف اور اصطلاح کے مطابق سردمزاجی میں گرفتار ہوجاتے ہیں، اس طرح سے کہ ایک مدت کے بعد وہ طبیعی اور فطری (جنس مخالف سے ملاپ)پر اقدر نہیں رہتے ۔
اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ مرد اور عورت کے جنسی احساسات جہاں ان کے بدن کے آرگنزم میں موثر ہیں وہاں ان کے روحانی اور مخصوص اخلاقی پہلوؤں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں، یہ بات واضح ہے کہ طبیعی اور فطری احساسات سے محروم ہوکر انسان کے جسم اور روح پر کس قدر ضرب پڑتی ہے ، یہاں تک کہ ممکن ہے کہ اس طرح کے انحراف میں مبتلا افراد اس قدر ضعفِ جنسی کا شکار ہوں کہ پھر اولاد پیدا کرنے کی طاقت سے بھی محروم ہوجائیں ۔
اس قسم کے افراد عموماً نفسیاتی طور پر صحیح وسالم نہیں ہوتے اور اپنی ذات میں اپنے آپ سے ایک طرح کی بیگانگی محسوس کرتے ہیں اور جس معاشرے میں رہتے سہتے ہیں اس سے خود کو لاتعلق سا محسوس کرنے لگتے ہیں، ایسے افراد قوت ِارادی کہ جو ہر قسم کی کامیابی کی شرط ہے آہستہ آہستہ کھو بیٹھتے ہیں اور ایک قسم کی سرگردانی اور پریشانی ان کی روح میں آشیانہ بنالیتی ہے ۔
ایسے افراد اگر جلدی اپنی اصلاح کا ارادہ نہ کریں بلکہ لازمی طور پر جسمانی اور روحانی طبیب سے مدد نہ لیں اور یہ عمل ان کی عادت کی شکل اختیار کرلے تو اس کا ترک کرنا مشکل ہوجائے گا ۔
بہرحال اگر مصمم ارادہ کرلیا جائے تو کسی حالت میں بھی یہ عادت ترک کرنے میں دیر نہیں لگتی، ارادہ بہرصورت قوی ہونا ضروری ہے ۔
بہرکیف نفسیاتی سرگردانی انھیں تدریجاً منشیات اورشراب کی طرف لے جاتی ہے اور وہ مزید اخلاقی انحرافات کا شکار ہوجاتے ہیں اور یہ ایک اوربڑی بدبختی ہے ۔
یہ بات جاذبِ نظر ہے کہ اسلامی روایات میں مختصر اور پرمعنی عبارات کے ذریعے ان مفاسد کی طرف اشاری کیا گیاہے، ان میں سے ایک روایت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے، کسی نے آپ سے سوال کیا:
لم حرم اللّٰہ اللواط۔
خدانے لواطت کو کیوں حرام کیا ہے؟
آپ نے فرمایا:
من اجل انہ لوکان اتیان الغلام حلالا لاستغنی الرجال عن النساء وکان فیہ قطع النسل وتعطیل الفروج وکان فی اجازة ذلک فساد کثیر۔
اگر لڑکوں سے ملاپ حلال ہوتا تو مرد عورتوں سے بے نیاز ہوجاتے (اور ان کی طرف مائل نہ رہتے ) اور یہ چیز نسلِ انسانی کے منقطع ہونے کا باعث بنتی اور جنسِ مخالف سے فطری ملاپ کے ختم ہونے کا باعث بنتی اور یہ کام بہت سی اخلاقی اور اجتماعی خرابیوں کا سبب بنتا ہے ۔ (1)
اس نکتے کا ذکر بھی قابل توجہ ہے کہ اسلام ایسے افراد کے لئے جن سزاؤں کا قائل ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ فاعل پر مفعول کی بہن، ماں اور بیٹی سے نکاح حرام ہے یعنی اگر یہ کام ازدواج سے پہلے صورت پذیر ہوتو یہ عورتیں اس کے لئے ابدی طور پر حرام ہیں ۔
جس نکتے کا ہم آخر میں ذکر ضروری سمجھتے ہیں یہ ہے کہ جنسی انحراف کی طرف افراد کے میلان کے بہت سے علل واسباب ہیں، یہاں تک کہ بعض اوقات ماں باپ کا اپنی اولاد سے سلوک یاہم جنس اولاد کی نگرانی نہ کرنا، ان کے طرزِ معاشرت اور ایک ہی جگہ پر سونا وغیرہ بھی ہوسکتا ہے اس آلودگی کا ایک عامل بن جائے ۔
بعض اوقات ممکن ہے کہ اس انحراف سے اےک اور اخلاقی انحراف جنم لے لے ۔
یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ قومِ لوط کے حالات میں ہے کہ ان کے اس گناہ میں آلودہ ہونے کا ایک سبب یہ تھا کہ وہ بخیل اور کنجوس لوگ تھے چونکہ ان کے شہر شام جانے والے قافلوں کے راستے میں پڑتے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ مہمانوں اور مسافروں کی پذیرائی کریں لہٰذا ابتدا ء میں وہ اس طرح ظاہر کرتے تھے کہ وہ ان پر جنسی تجاوز کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ وہ مہمانوں اور مسافروں کو اپنے سے دور بھگائےںلیکن تدریجاً یہ عمل ان کی عادت بن گیا اور انحراف جنسی کے میلانات آہستہ آہستہ ان کے وجود میں بےدار ہوگئے اور معاملہ یہاں تک جاپہنچا کہ وہ سر سے لے کر پاؤں تک اس میں آلودہ ہوگئے ۔ (2)
یہاں تک کے فضول قسم کا مذاق جو کبھی کبھی لڑکوں یا لڑکیوں کے درمیان اپنے ہم جنسوں کے بارے میں ہوتا ہے بعض اوقات ان انحرفات کی طرف کھینچ لے جانے کا سبب بن جاتا ہے ۔
بہرحال پوری توجہ سے ان امور کا خیال رکھنا چاہیئے اور جو اس گناہ میں آلودہ ہوں انھیں جلدی نجات حاصل کرنا چاہیئے اور اس بارے میں خدا سے توفیق طلب کرنا چاہیئے ۔

 


1۔ وسائل الشیعہ ،ج ۱۴،ص ۲۵۲۔
2۔ بحار، ج۱۲،ص ۱۴۷۔

چند قابل توجہ نکاتقومِ لُوط کا اخلاق
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma