۱۔ قوم عاد تاریخ کی نگاہ میں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 09
اس ظالم قوم پر ۔ابدی لعنتقوم ثمود کی داستان شروع ہوتی ہے

بعض مغربی مورخین جن میں اسپرینگل بھی شامل ہے نے کوشش کی ہے کہ قوم عاد کا تاریخی طور پر انکار ہی کردیں، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ آثار اسلامی کے علاوہ اس کا کہیں ذکر نہیں اور انھیں کتب عہد قدیم (تورات وغیرہ)میں اس کا نام ونشان نہیں ملا، لیکن ایسے ماخذ موجود ہیں جو نشاندہی کرتے ہیں کہ قصہ عاد عرب کے زمانہ جاہلیت میں مشہور تھا اور قبل اسلام کے شعراء نے قوم ہودکے بارے میں گفتگو کی ہے، یہاں تک کہ زمانہ جاہلیت میں بلند اور مضبوط عمارتوں کی نسبت ”عاد“ کی طرف دیتے ہوئے انھیں ”عادی“ کہتے تھے ۔
بعض مورخین کا خیال ہے کہ لفط”عاد“ کا اطلاق دو قبیلوں پر ہوتا ہے، ایک قبیلہ کا تعلق تاریخ سے ہے، یہ جزیرہ عربستان میں زندگی گزارتا تھا، یہ قبیلہ ختم ہوگیا اور اس کے آثار بھی مٹ گئے، تاریخ بشر میں ان کی زندگی کے چند ناقابل اطمینان افسانوں کے اور کوئی چیز محفوظ نہیں، ان مورخین نے قرآن میں سورہ نجم آیہ ۵۰ کی تعبیر ”عاد الاولیٰ“کو اسی طرف اشارہ سمجھا ہے ۔
رہے وہ لوگ جن کا تعلق تاریخ انسانی کے دور سے ہے تو احتمال یہ ہے کہ وہ میلاد مسیح سے کوئی ۷۰۰ سال قبل یا اس سے بھی پہلے تھے، اس قوم کو بھی عاد کہتے تھے، یہ قوم سرزمین احقاف یا یمن میں رہتی تھی، یہ طویل القامت، قوی جسم اور طاقتور لوگ تھے، اسی وجہ سے وہ بڑے جنگجو سمجھے جاتے تھے ۔
علاوہ ازیںان لوگونئے تمدن وثقافت میں بہت ترقی کی، یہ لوگ آباد شہروں، سرسبز زمینوں اور شاداب باغات کے مالک تھے، جیسا کہ قرآن ان کی توصیف میں کہتا ہے:
التی لم یخلق مثلھا فی البلاد۔
ان کی نظیر دنیا کے دیگر شہروں میں پیدا نہیں ہوئی تھی ۔ (فجر: ۸)
اسی بنا پر بعض مستشرقین نے کہا ہے کہ قوم عاد برہوت کے علاقہ میں زندگی بسرتی تھی ( یہ علاقہ حضرموت یمن کے نواح میں ہے) اور آتش نشانیوں کی وجہ سے ان میں سے بہت سے لوگ ختم ہوگئے اور باقی ادھر ادھر منتشر ہوگئے ۔
بہرحال یہ قوم ایک عرصہ تک ناز و نعمت میں زندگی بسر کرتی رہی لیکن جیسا کہ زیادہ تر نازونعمت میں پلنے والے لوگوں کا شیوہ ہے، وہ غرور غفلت میں مست ہوگئے اور دوسروں پر ظلم وستم ڈھاکر اور استعماری ہتھکنڈے اختیار کرکے انھوں نے اپنی طاقت سے غلط فائدہ اٹھایا، مستکبرین اور جبارین عنید کو انھوں نے اپنا پیشوا بنایا، دین بت پرستی کو رائج کیا اور اپنے پیغمبر حضرت ہود(علیه السلام) کی پندونصیحت اور ان کے نظریات وافکار واضح کرنے اور ان کے لئے کی گئی اتمام حجت کی سعی وکاوش کو انھوں نے نہ صرف ذرہ بھر کوئی حیثیت نہ دی بلکہ اس عظیم مرد حق طلب کیا آواز خاموش کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ۔
کبھی انھیں دیوانگی اور حماقت سے نسبت دی اور کبھی اپنے خداؤں کے غضب سے انھیں ڈرایالیکن آپ پہاڑ کی طرح اس مغرور اور طاقتور قوم کے مقابلے میں ڈٹے رہے، آخر کار تقریبا چار ہزار افراد کو آپ نے پاکباز بنایا اور انھیں اپنے دین حق کی طرف لے آئے لیکن دوسرے لوگ اپنی ہٹ دھرمی اور عناد پر باقی رہے ۔
جیسا کہ سورہ ذارعات، حاقہ اور قمر میں آئے گا، آخر کار بہت شدید اور تباہ کن طوفان سات راتیں اور چھ دن ان پر مسلط رہا، اس طوفان نے ان کے محلات برباد کردئے اور ان کی لاشیں خزاںکے پتوں کی طرح ہوا کی تیز لہروں نے ادھر ادھر بکھیر دیں، سچے مومنین کو پہلے ہی وہاں سے نکال لیا گیا تھا، خدائے تعالی نے انھیں نجات دی اور ان کی زندگی تمام جابروں اور خودسروں کے لئے ایک عظیم درس عبرت قرار پائی ۔ (1)
۲۔ قوم عاد پر ابدی لعنت
یہ تعبیر اور ایسی دیگر تعبیرات مختلف اقوام کے لئے قرآن کی کئی ایک آیات میں آئی ہیں، ان اقوام کے کچھ حالات بیان فرماکر اس طرح سے فرمایا گیا ہے مثلاً:
اٴَلَابُعْدًا لِثَمُودَ (ہود:۶۸)
اٴَلَابُعْدًا لِمَدْیَنَ کَمَا بَعِدَتْ ثَمُودُ (ہود:۹۵)
فَبُعْدًا لِلْقَوْمِ الظَّالِمِینَ۔ (مومنون:۴۱)
فَبُعْدًا لِقَوْمٍ لَایُؤْمِنُونَ ۔ (مومنون:۴۴)
اور اسی طرح حضرت نوح (علیه السلام) کی داستان میں ان کی قوم کے بارے میں ہم پڑھ چکے ہیں:
وَقِیلَ بُعْدًا لِلْقَوْمِ الظَّالِمِینَ (ہود: ۴۴)
ان تمام آیات میں نفرین ایک طرح سے رحمت خدا سے دوری کی علامت ہے، ان لوگوں کے لئے جنھوں نے بہت بڑے بڑے گناہ انجام دئے ہیں ۔
آج بھی بالکل اسی طرح سرکش، استعمارگر، ستم پیشہ افراد اور گروہوں کے خلاف نعرے لگائے جاتے ہیںالبتہ یہ قرآنی شعار اس قدر موثر اور جامع ہے کہ جو صرف ایک پہلو کے حامل نہیںہے کیونکہ جب ہم کہتے ہیں کہ ”فلاں گروہ دور ہو“ تو اس کی رحمت الٰہی سے دوری بھی شامل ہے، سعادت سے دوری بھی، ہر قسم کی خیروبرکت اور نعمت سے دوری بھی اور بندگان خدا سے دوری بھی، البتہ ان کا خیر وسعادت سے دور ہونا رد عمل ہے ان کے خدا اور خلق خدا سے روحانی، فکری اور عملی طور پر اندرونی اعتبارسے دور ہونے کا، کیونکہ ہر قسم کا نظریہ اورعمل موت کے بعد دوسرے گھر میں اور دوسرے جہان میں اپنا عکس رکھتا ہے جو بالکل اس کے مشابہ ہے، اس بنا پر اس جہان کی دوریاں آخرت میں خدا کی رحمت، عفو، بخشش اور نعمات سے دوری کا سرچشمہ ہے ۔ (2)

 

۶۱ وَإِلیٰ ثَمُودَ اٴَخَاھُمْ صَالِحًا قَالَ یَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَا لَکُمْ مِنْ إِلَہٍ غَیْرُہُ ھُوَ اٴَنشَاٴَکُمْ مِنَ الْاٴَرْضِ وَاسْتَعْمَرَکُمْ فِیھَا فَاسْتَغْفِرُوہُ ثُمَّ تُوبُوا إِلَیْہِ إِنَّ رَبِّی قَرِیبٌ مُجِیبٌ۔
ترجمہ
۶۱۔ (قوم)ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا، اس نے کہا: اے میری قوم! اللہ کی پرستش کرو کہ جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، وہی ہے جس نے تمھیں زمین سے پیدا کیا اور اس کی آباد کاری تمھارے سپرد کی، اس سے بخشش طلب کرو، پھر اس کی طرف توبہ کرو اور رجوع کرو کہ میرا پروردگار (اپنے بندوں کے)نزدیک اور (ان کے تقاضوں کو) قبول کرنے والا ہے ۔

 


1۔ تفسیر المیزان، تفسیر مجمع البیان اور کتاب اعلام القرآن۔
2۔ مندرجہ بالا آیت میں لفظ”بعدا“ ترکیب نحوی کے اعتبار سے جملہ ”ابعدھم اللہ“ کا مفعول مطلق ہے اور یہ جملہ مقدر ہے، البتہ قاعدتا ”بعدا“کی بجائے ”ابعادا“ہونا چاہیئے کیونکہ”ابعد“ کا مصدر ”ابعاد“ ہے لیکن بعض اوقات مفعول مطلق ذکر کرتے وقت باب افعال کے مصدر کی بجائے ثلاثی مجرد لے آتے ہیں مثلا-:
واللّٰہ انبتکم من الارض نباتاً (غور کیجئے گا)
اس ظالم قوم پر ۔ابدی لعنتقوم ثمود کی داستان شروع ہوتی ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma