۱۔ کیا طوفان نوح عالمگیر تھا:

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 09
آغاز طوفان۲۔ کیا نزول عذاب کے بعد توبہ ممکن ہے؟:

بہت سی آیات کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ طوفان نوح کسی خاص علاقے کے لئے نہیں تھا بلکہ پوری زمین پر رونماہوا تھا کیونکہ لفظ ”ارض“ (زمین) مطلق طور پر آیا ہے:
رَبِّ لَاتَذَرْ عَلَی الْاٴَرْضِ مِنَ الْکَافِرِینَ دَیَّارًا
خداوندا! روئے زمین پر ان کافروں میں سے کسی کو زندہ نہ رہنے دے کہ جن کے بارے میں اصلاح کی کوئی امید نہیں ہے ۔ (نوح: ۲۶)
اسی طرح ہود کی آیہ ۴۴ میں یوں ہے:
وَقِیلَ یَااٴَرْضُ ابْلَعِی مَائَکِ ۔۔۔۔
اپنے زمین اپنا پانہ نگل لے
بہت سی تواریخ سے بھی طوفان نوح کے عالمگیر ہونے کی خبر ملتی ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ موجودہ تمام نسلیں حضرت نوح (علیه السلام)کے تین بیٹوں حام، سام اور یافث کی اولادمیں سے ہیں جو کہ زندہ رہے تھے ۔
طبیعی تاریخ میں سیلابی بارشوں کے نام سے ایک دور کا پتہ چلتا ہے، اس دور کو اگر لازمی طورپر جانداروں کی پیدائش سے قبل سے مربوط نہ سمجھے تو وہ بھی طوفان نوح پر منطبق ہوسکتا ہے ۔
زمین کی طبیعی تاریخ میں یہ نظر بھی ہے کہ کرہ زمین کا محور تدریجی طور پر تغیر پیدا کرتا ہے یعنی قطب شمالی اور قطب جوبی خط استوا میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور خط استوا قطب شمالی اور قطب جنوبی کی جگہ لے لیتا ہے، واضح ہے کہ جب قطب شمالی وجنوبی میں موجود بہت زیادہ برف پگھل پڑے تو دریاؤں اور سمندروں کے پانی کی سطح اس قدر اوپر آجائے گی کہ بہت سی خشکیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور پانی زمین جہاں جہاں اسے گنجائش ملے گی ابلتے ہوئے چشموں کی صورت میں نکلے گا، پانیوں کی یہی وسعت بادلوں کی تخلیق کا سبب بنتی ہے اور پھر زیادہ سے زیاہ بارشیں انھیں بادلوں سے ہوتی ہیں ۔
یہ امر کہ حضرت نوح (علیه السلام) زمین کے جانوروں کے نمونے بھی اپنے ساتھ لئے تھے طوفان کے عالمگیر ہونے کا مویدہے ۔
جیسا کہ بہت سی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح(علیه السلام) کوفہ میں رہتے تھے دوسری طرف بعض روایات کے مطابق طوفان مکہ اور خانہ کعبہ تک پھیلا ہوا تھا تو یہ صورت بھی اس بات کی موید ہے کہ طوفان عالمگیر تھا ۔
لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود اس امر کی بھی بالکل نفی نہیںکی جاسکتی کہ طوفان نوح ایک منطقے کے ساتھ مخصوص تھا کیوں لفظ”ارض“ (زمین) کا اطلاق قرآن میں کئی مرتبہ زمین کے ایک وسیع قطعے پر بھی ہوا ہے، جیسا کہ بنی اسرائیل کی سرگزشت میں ہے:
وَاٴَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِینَ کَانُوا یُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْاٴَرْضِ وَمَغَارِبَھَا ۔
ہم نے زمین کے مشارق اور مغارب بنی اسرائیل کے مستضعفین کے قبضے میں دئےے ۔ (اعراف:۱۳۷)
کشتی میں جانوروں کو شاید اس بنا پر رکھا گیا ہو کہ زمین کے اس حصے میں جانوروں کی نسل منقطع نہ ہو خصوصا اس زمانے میں جانوروں کا دور دراز علاقوں سے منتقل ہونا کوئی آسان کام نہیں تھا ۔ (غور کیجئے گا)
اسی طرح دیگر مذکوہ قرائن اس بات پر منطبق ہوسکتے ہیں کہ طوفان نوح ایک منقطعہ ارض پر آیا ۔
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ طوفان نوح تواس سرکش قوم کی سزا اور عذاب کے طور تھا اور ہمارے پاس ایسی کوئی دلیل نہیں جس کی بنا پر یہ کہا جاسکے کہ حضرت نوح (علیه السلام) کی دعوت تمام روئے زمین پہنچی تھی ۔
اصولی طور پر اس زمانے کے وسائل وذرائع کے ساتھ ایک پیغمبر کی دعوت کا (اس کے اپنے زمانے میں)زمین کے تمام خطوں اور علاقوں تک پہنچنا بعید نظر آتا ہے ۔
بہر حال اس عبرت خیز واقعے کو بیان کرنے سے قرآن کا مقصد یہ ہے کہ اہم تربیتی نکات بیان کئے جائےں جو اس میں چھپے ہوئے ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیئے کہ یہ واقعہ عالمی ہویا کسی ایک علاقے تعلق رکھتا ہو۔

آغاز طوفان۲۔ کیا نزول عذاب کے بعد توبہ ممکن ہے؟:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma